مکالماتی شاعری کا بے تاج بادشاہ ۔۔’’جون ؔ ایلیا‘‘

 تم جب آؤ گی،تو کھویا ہوا پاؤ گی مجھے
میری تنہائی میں ،خوابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
میرے کمرے کو سجانے کی تمنا ہے تمہیں
میرے کمرے میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
شاعری ایک ایسا فن ہے جیسے کسی کالج یا یونیورسٹی سے حاصل نہیں کیا جاتا ،یہ خدا کی طرف سے انعام ہے جو چند لوگوں کو سے ملتا ہے، شاعری یوں تو ہر زبان میں کی جاتی ہے اس وجہ سے کہا جا سکتا ہے کہ شاعروں کی بھی اپنی ایک زبان ہوتی ہے ،اپنی بات کو چند لفظوں میں کہہ جانا یا معاشرے کو تیسری آنکھ سے دیکھ کراسکی اچھائی یا برائی کو الفاظ دینا’’ شاعری‘‘ کہلاتی ہے ، اردو شاعری میں شاعروں کی کوئی کمی تو نہیں، ایسے حالات میں کسی ایسے شاعر کا اپنا الگ مقام بنا لینا حیران کن ہے، میں بات کر رہا ہوں ایسے شاعر کی جس نے شاعری میں نئی تاریخ رقم کی اور مکالماتی شاعری کو اپنی زندگی کا حصہ بنایا ، جی میں بات کر رہا ہوں جون ؔ ایلیا کی ، جون پاکستانی شاعر، فلسفی، سوانح نگار اور عالم تھے، وہ اپنے انوکھے اندازِ تحریر کی وجہ سے سراہے جاتے تھے، وہ معروف صحافی رئیس امروہوی اور فلسفی سید محمد تقی کے بھائی، اور مشہور کالم نگار زاہدہ حنا کے سابق خاوند تھے، جونؔ ایلیا کو عربی، انگریزی، فارسی، سنسکرت اور عبرانی میں اعلیٰ مہارت حاصل تھی، جون ایلیانے مکالماتی شاعری میں اپنا نام پیدا کیا ۔ جو نؔ ایلیا جیسے شاعر صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں انکی ابتدائی زندگی پر اِک نگاہ ڈالتے ہیں۔
جون ایلیا 14 دسمبر، 1937 کو امروہہ، اتر پردیش کے ایک نامور خاندان میں پیدا ہوئے،وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے، ان کے والد، علامہ شفیق حسن ایلیا کو فن اور ادب سے گہرا لگا تھا اس کے علاوہ وہ نجومی اور شاعر بھی تھے، اس علمی ماحول نے جون کی طبیعت کی تشکیل بھی انہی خطوط پر کی، انہوں نے اپنا پہلا اُردو شعر محض 8 سال کی عمر میں لکھا، اپنی کتاب ’’شاید‘‘ کے پیش لفظ میں قلم طراز ہیں’’میری عمر کا آٹھواں سال میری زندگی کا سب سے زیادہ اہم اور ماجرا پرور سال تھا، اس سال میری زندگی کے دو سب سے اہم حادثے پیش آئے،پہلا حادثہ یہ تھا کہ میں اپنی نرگسی انا کی پہلی شکست سے دوچار ہوا، یعنی ایک ’’قتالہ لڑکی‘‘ کی محبت میں گرفتار ہوا،دوسرا حادثہ یہ تھا کہ میں نے پہلا شعر کہا ‘‘
چاہ میں اس کی طمانچے کھائے ہیں
دیکھ لو سرخی مرے رخسار کی

جونؔ اپنے لڑکپن میں بہت حساس تھے، ان دنوں ان کی کل توجہ کا مرکز ایک خیالی محبوب کردار صوفیہ تھی،ان کے غصے کا نشانہ متحدہ ہندوستان کے انگریز قابض تھے،وہ ابتدائی مسلم دور کی تاریخ ڈرامائی صورت میں دکھاتے تھے جس وجہ سے ان کے اسلامی تاریخ کے علم کے بہت سے مداح تھے،جونؔ کے مطابق ان کی ابتدائی شاعری سٹیج ڈرامے کی مکالماتی فطرت کا تاثر تھی،جونؔ کو زبانوں سے خصوصی لگا تھا، وہ انہیں بغیر کوشش کے سیکھ لیتے تھے،اپنی جوانی میں جون ؔکمیونسٹ خیالات رکھنے کی وجہ سے ہندوستان کی تقسیم کے سخت خلاف تھے لیکن بعد میں اسے ایک سمجھوتہ کے طور پر قبول کر لیا،جونؔ ایلیا نے 1957 میں پاکستان ہجرت کی اور کراچی کو اپنا مسکن بنایا، جلد ہی وہ شہر کے ادبی حلقوں میں مقبول ہو گئے، ان کی شاعری ان کے متنوع مطالعہ کی عادات کا واضح ثبوت تھی، جس وجہ سے انہیں وسیع مدح اور پذیرائی نصیب ہوئی۔

جونؔ ایلیا ایک انتھک مصنف تھے، لیکن انہیں اپنا تحریری کام شائع کروانے پر کبھی بھی راضی نہ کیا جا سکا، ان کا پہلا شعری مجموعہ’’ شاید‘‘ اس وقت شائع ہوا جب ان کی عمر60 سال کی تھی، ’’نیازمندانہ ‘‘کے عنوان سے جون ایلیا کے لکھے ہوئے اس کتاب کے پیش لفظ میں انہوں نے ان حالات اور ثقافت کا بڑی گہرائی سے جائزہ لیا ہے جس میں رہ کر انہیں اپنے خیالات کے اظہار کا موقع ملا، ان کی شاعری کا پہلا مجمو عہ ’’ شاید‘‘ 1991،’’ انکی زندگی میں شائع ہوا باقی’’ یعنی‘‘ 2003’’گمان‘‘ 2004’’لیکن‘‘ 2006’’گویا‘‘ 2008’’فرنود‘‘ 2012 ان کی وفات کے بعد منظرعام پر آئے ۔

دیکھا جائے تو یہ بات اتنی حیران کن بھی نہیں، کیوں کہ جون ایلیا ایک ایسے منفرد اور یگانہ شاعر ہیں جس کا انداز نہ تو پہلے گزرنے والے کسی شاعر سے ملتا ہے اور نہ ہی بعد میں آنے والا کوئی شاعر ان کے لہجے کی تقلید کر سکا،البتہ ابھی تک’’ علی زریون ؔ‘‘ نوجوانوں کے صوفی شاعر ہیں جو آج کے اس دور میں جون ؔ جیسے لہجے کی تقلید کر رہے ہیں ،جون کی فلسفی گفتگو ان کی زندگی کے مختلف ادوار میں الگ نظر آتی ہے جیسا کہ جونؔ نے ایک وقت میں’’ یقین‘‘ پر کچھ ایسا بھی کہاکہ ’’ یقین ہی وہ بیماری ہے جو عقلوں میں فتور اور دلوں میں فساد پیدا کرتی ہے ‘‘ اور پھر ایک جگہ یوں بھی جون نے کہہ ڈالا ’’اگر میں اپنے جھوٹ کیساتھ خوش ہوں تو پھر تم میرے اُوہر اپنا سچ مسلّط کرنے والے کون ہوتے ہو‘‘ جون ؔ نے پھر ایک جگہ یہ بھی کہہ دیا کہ ’’ کیسے فرصت ہے کہ مجھ سے بحث کرئے کہ میرا وجود میری زندگی کیلئے ضروری ہے ‘‘ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ جون ؔ ایلیانے لفظ ’’کشمیر‘‘ پر کچھ یوں روشنی ڈالی۔

’’کشمیر کا نام بھی عجیب ہے،یہ نام شاید عالمِ غیب خداوندہی نے رکھا ہو گا مگر ہم اس کو غلط ادا کرتے ہیں ،ہم ’’کشمیر‘‘ کے ’’کاف‘‘ کو زبر کیساتھ اداکرتے چلے آئے ہیں جب کہ اس کے ’’کاف ‘‘کو پیش کیساتھ پڑھنا اور ادا کرنا چاہیے ،یعنی ’’کش میر‘‘ یعنی ’’مار ڈال‘ مرجا‘‘

جونؔ ایک ادبی رسالے ’’انشا‘‘ سے بطور مدیر وابستہ رہے جہاں ان کی ملاقات اردو کی ایک اور انتھک مصنفہ’’ زاہدہ حنا‘‘ سے ہوئی جن سے بعد میں انہوں نے شادی کر لی، جون کے زاہدہ سے 2 بیٹیاں اور ایک بیٹا پیدا ہوئے، 1980 کی دہائی کے وسط میں ان کی علیحدگی ہوگئی۔
دل کو اک بات کہہ سنانی ہے
ساری دنیا فقط کہانی ہے

اس کے بعد تنہائی کے باعث جون ؔکی حالت ابتر ہو گئی،انکی شاعری میں ایسا رنگ نظر آنے لگا، بل آخر جون ؔایلیا طویل علالت کے بعد 8 نومبر، 2002 کو کراچی میں انتقال کر گئے۔
ایم اے دوشی
About the Author: ایم اے دوشی Read More Articles by ایم اے دوشی: 20 Articles with 17568 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.