غالب بنام جانِ پدر

دانش کاشمیری
مر یم نواز! جانِ پدر ، شانِ استقبال ،ما شااللہ ، آپ کے منہ میں سونے کا چمچ ہے، اسے سنبھال کے رکھئے گا ۔ جانِ سنگھ سشما سوراج کے ساتھ قصر شاہی میں آپ کی چلتی پھرتی تصویریں دیکھیں ، جی خوش ہو ا۔ مگر کسی سیاسی درزی کے دماغ کی گھنٹی بجی، فرضی سوال کر بیٹھا چچا یہ سب کیا؟ میں نے کہا یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہوئی ، یہ اتفا ق کا نیا پروڈکٹ ہے۔ کہا مطلب ؟ میں نے اسے گئے دور کے سیاسی سردار اسحاق خان سے مستعار گفتار میںسمجھایا مریم نواز بے نظیر کی طرح قوم کی مر ضی اور ملک کا انتخاب بننے کی دوڑ میں ہیں، بابا کی ہمدردانہ جانشینی پر نگاہ اٹکی ہے ۔۔۔جانِ پِدر! ٹھیک کہا نا بوڑھے نے ؟ اگر جواب نفی میں ہوا تو آپ لاجواب نہیں۔ ذرا سوچئے اتفاق انڈسٹری کے زیر وزبرسنبھالنا،نا اتفاقی کے بپھرے سمندر میں پھنسی قوم کی نیا چلانا، کپتان جیسے اچھلتے کودتے بندر کو ریحام خان کی ڈولی میں اند ر بھرنا، مودی کو ساڑھی سے رام کرنا،الطاف کو ٹی وی لیڈر سے عدالتی گیڈراور زر داری کو سو فی صد بے کاری کا چیف کمانڈر بنانا ، آپ کے باباکی ایک ننھی سی جان پر ا تنی گراں بار ذمہ داریاں ہیں! خدا را بابا کے کندھوں کا بوجھ ہلکا کریں ،قوم کے آنسووں کا کھیون ہار بن کر اپنا بیڑہ پارکریں، پاک سرزمین کشور حسین کا شانِ استقبال بننے کا شوق پورا کریں
خواب سارے خیال سارے
حقیقتوں کالبادہ اوڑھے
تمہاری ہستی سنوار جائیں
یہ رنگ و خوشبو گلاب سارے
سیاستوں کے نصاب سارے
سبھی تمہاری بلائیں لے لیں
نظر تمہاری اتارجائیں

صاحبہ! یہ خیال شریف دل میں موجزن، ذہن میں رقصاں ہونا کوئی عیب نہیں ، حیف نہیں، قصور نہیں، جرم نہیں، گناہ نہیں، غلطی نہیں۔ اگر مملکت خداداد میں ایک اور خاتونِ مشرق اپنے مغرب کی غلامی کی سٹہ بازی جیت جائے تو برا کیا ہے؟ اسی کو کہتے ہیں ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات ۔ حضرت داغ دہلوی خوب کہہ گئے
اک چیز ہے اس عالمِ ہستی میں بشربھی
دنیا کا طلب گار بھی دنیا سے حذربھی

محترمہ! کل رات کو ستم شعاروں سے فضول گپ شپ چلی۔ا یک نامراد نے کہا چچا مریم نواز دوسری پرنیکا گاندھی بنیں تو شبہاز کی جانشینی پکی؟ میں نے کہا ابے مشٹنڈے! مریم تو محبوبہ مفتی ہیں، وہ لاڈلی بیٹی بھی عنقریب اپنے والد بزرگوار کو سبک بار کر کے اقتدار کی وراثت پائیں گی۔ا یک عقل کے دشمن نے پوچھا چچا سیاست میں یہ بیٹیاں بیویاں لانے کی کوئی خاص وجہ ؟ میں نے کہا نہرو نے اندرا کو بچپن میں سامنے لایا، کیوں؟ذوالفقار بھٹونے اٹھارہ سالہ بے نظیر کو شملہ میں اندرا کے روبرو کیا، کیوں؟ بل کلنٹن نے اپنی شریکِ حیات ہیلری کلنٹن کو آگے کیا، کیوں ؟ شیخ حسینہ نے باپ کا سیاسی خوںپسینہ جمع کر کے کرسی تعمیر کی اورا ب ڈائن بن کر اپنا پھندا تیار کررہی ہے ، کیوں ؟ خا لدہ ضیا نے اپنے شوہر نامدار کے نام پر کرسی کاجام پیا، کیوں ؟ للو یادو نے ربڑی دیوی کو رسوئی سے اٹھاکر والی ریاست بنایا ، کیوں ؟ یہ سوالات مجھ سے نہیں پوچھیو۔اس کے منہ سے گولڈامئیر،میڈلن البرائٹ،کونڈالیزارائس،مارگریٹ
تھیچر، بندرا نائکے کی کہانی سنیو اورسردھنیو
اکبر عروسِ دہر سے چشمِ وفا نہ رکھ
دارا وجم کی جب نہ ہوئی تیری ہوچکی

خیر مجھے اپنے جامِ جم نے بتایا مریم نواز کی میزبانی میں بھی کوئی ثانی نہیں ۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے سشما مریم کے سامنے معزز مہمان کم خالہ آپا زیادہ نظر آرہی تھیں ۔ سچ مچ یہ یہ نیرو پارائے اور ہیمامالنی کا ملن لگتا تھا۔ اس تماشے پر کس بے عقل ونادان کی زبان سے بھی عفو خدا یا کا کلمہ تحسین نہ نکلے! عادت سے مجبور اپنے بلغمی تعجب کے بطن سے مگر یہ سوال پھوٹا :آخر یہ آر پار کا سیاسی دشت وصحرا ہے کس مٹی گارے کا؟ اس کی آب وہوا اتنی تلون مزاج کیوں ؟ ایک پل عداوت کی سرحدیں، اجنبیت کی دیواریں ، جنگیں یلغاریں ، دھمکیوںکی للکاریں، دوسرے پل مسافتیںغائب ، کد ورتیں قصہ کوتاہ ، دوریاں کافور اور مطلبی یارانہہم بنے تم بنے اِک دوجے کے لئے کا نغمہ سنائیں ۔۔۔ بہرکیف اس نئی نویلی تانیثی داستان پر پہلے شبہ ہوا، پھر یہ شک سوال میں بدلا ، پھر سوچ کی لاٹھی نے اپنے دماغ کی کاٹھی سیدھی کردی ۔ جام ِ جم پریہ تصویرِ بتاں یہ حسیناوں کے خطوط دیکھے توخود سے کہا سنو مرزا یہ ہندی وزارتِ خارجہ کوئی شارجہ کرکٹ اسٹیڈیم تھوڑی ہے کہ شائقین کا جمِ غفیر جمع کر کے کام نکالے دام وصولے۔ یہ تو زنِ آہن سشما کا کرشما ہے، وہ ایوان کے ا ندر بولتی ہیں تو شعلہ جوالہ بن کر ، باہر لبِ اظہار کھولتی ہے تو سنگھ کا مکھوٹا بن کر،جوش اتنا کہ سونیا کے ہوش اڑجاوئیں، جیا للیتا کو رشک آجاوئے، مایا وتی اپنی چھایا شبیہ تک بھول جاوئے، ممتا بینرجی کی سلطنت تہ وبال ہوجاوئے۔ تیکھا تکلم، ترش بیانی، برمحل چوٹ، بروقت مرہم، پل میں تولہ پل میں ماشہ کی فن کاری کوئی ان سے سیکھے ۔ اسلام آباد آئیں یہاں کے سیاسی پیچ و خم کی گانٹھیں کھولنے نہیںکابل کے غم میں بڑھیا ڈنر کھانے ۔ پتہ ہے سنگھ کہتی ہے رامائن کی گاندھاری قند ہاری تھی، یعنی کابل بھی بابری کی طرح اپنا مال۔ ۔۔خیر اپنے ٹوٹے پھوٹے جامِ جم نے ہر خانہ خراب کی طرح میرا بھی مغا لطہ دور کیا ۔اس نے کہا :ناظرین پر دہ جوسامنے لائے سو دیکھناہے ، پس ِپردہ جو ہو تاہے وہ سوچنا سمجھناہے۔ میں نے کہابھئی یہ کیا پہیلیاں بجھاتے ہو ۔اس نے یہ با تصویرخبر چلائی: ہمارے نمائندے کاذب بیاں کے مطابق آج سشما نے نواز اور سرتاج کے ساتھ فوٹو سیشن کیا۔ دونوں ملکوں کے تعلقات مع اختلافا ت زیر بحث نہ آئے۔ اس لئے ان میں کتے کے دم کی پیچ در پیچ ٹیڑھ تا قیامت موجودرہنے کا قوی امکان ہے۔ بتا یا جاتا ہے بے معنی گفتگو دوستانہ ماحول میں ہوئی ۔ دونوںملکوں نے ایک اور خشک اعلامیہ جاری کیا اور کہا آئندہ بھی یہی کیا جائے گا ۔ ا علامیہ میں بتایا گیا کہ آر پار میں اتنے ٹیڑھے میڑھے، آڑھے ترچھے، کانے بہرے اندھے موڑ ہیں کہ یہ کبھی سلامتی کونسل ، کبھی تاشقند، کبھی شملہ ، کبھی آگرہ ، کبھی لاہور، کبھی اسلام آباد ، کبھی دلی ، کبھی بینکاک، کبھی ڈکسن پلان ، کبھی ٹریک ٹو، کبھی ٹریک تھری ، کبھی سہ فریقی، کبھی سہ رخی، کبھی چار نکاتی فامولہ ، کبھی سر ینڈر ، کبھی گو لہ باری ، کبھی ٹرک سروس، کبھی بحالی اعتماد، کبھی کرکٹ ڈپلومیسی، کبھی غزل گائیکی، کبھی امن بس ، کبھی صدائے سرحد اس گول مٹول زمین کو چکور نہ بناسکی تو ہم تین کیا کمال کریں ۔ ا جلاس کے اختتام پر اپنی تھکاوٹ دور کر نے کے لئے سشما نے اسلام آباد قصر شاہی میں ہو اخوری کی۔ یہاں ان کاا ستقبال مملکت خداداد کی ہمدم ودمساز مریم نواز نے کیا۔ دونوں نے پیر س کی طرح گمان کی تھالی میںیقین کا فالودہ بناکر ایک دوسرے کوپیش کیا۔ ہمارے نمائندے کا کہنا ہے کہ مہمان ملکہ اور میزبان شاہزادی نے اپنے اپنے مضبوط اختلافات اور رقابتیں اپنے جوہری طاقت کی طرح ایک دوسرے سے چھپا کر خوب ہنسی مذاق کیا۔ بعد میں اسلام آباد سے شاہین سوم میزائیل کاکامیاب ٹیسٹ کیا۔ اب اگنی سے اس کاجواب ملے گا۔ خبریں ختم۔ مریم جی!سیاستِ ہندوپاک انہی کج اداخبروں کا نام ہے،آپ دودھوں نہاوپوتوں پھلو،اللہ سلامت رکھے، آپ نے ایک ہی دیدارمیں اتناغضب ڈھایاکہ پوچھئے مت۔ لاڈلی زعفرانی سشما ہندوستانی سے بڑی قربت دکھائی، محبت جتائی،مسکراہٹیں لٹادیں،من کی بات سنی سنائی، لائف بنائی۔ سارے جہاں نے آپ کوپورے قدسے کھڑاپایا۔ اپنی وجاہت، قد وقامت،متانت،تہذیب وشرافت، شکل شباہت سے آپ ماشاا للہ جاذبِ نظر لگتی تھیں۔ کیوں نہ ہوجب محفل شاہانہ ہو، شہنائی وادن مودی کرے،سرتال نوازکے ہوں،طبلے پر سنگت اوبامہ کی ہو،بول بانکی مون کے ہوں تو برق و بجلی کیو ں نہ گرجائیں؟ یہ دل پسند منظر دیکھ کر اپنی رباعی یاد آئی ۔ عرض کیا ہے
ہیں شہ میں صفاتِ ذوالجلالی باہم
آثارِ جلالی وجمالی باہم
ہوں شاد کیوں نہ سافل وعالی باہم
ہے اب کے شبِ قدر و دوالی باہم

چھڑو جی یہ بے وقت عید اور دیوالی کی راگنی۔ اس ترپ کے پتے میں رکھا ہی کیا ہے ؟ کل یہ تاش کے پتے کمپازٹ ڈائیلاگ کا ڈھول تھے ، اب یہ سی بی ڈی ڈفلی کہلاوئیں، کیاپتہ آگے یہ کب آرپارکا جوہری نو حہ بن جاوئیں۔ آرپارکی یاری اوربے زاری جموں سری نگر شاہراہ کی طرح زمین کی نہیں آسمان کے تابع ہے ، تھوڑی بارش ہوئی آمد ورفت کے جسم پر خا رش نکل آئی ، دھوپ نکلی توروپ نکھرا ۔ جانتے ہو سشما مریم ملاقات اپنے اشارات میں کیا کہہ گئی ؟ نہیں پتہ ، سنو!یہ مریم کا حنا ربانی ثانی بننے کا ریہر سل ہے۔ حنا کھربھی ترکی کی تانسو سلر کی طرح بالی عمریاں میں ہی آفت کا پر کالا نکلیں ۔ مصطفی کھر کے گھر سے بے خوف وخطر یکایک برآمد ہوئیں جیسے عمر عبداللہ شیخانِ کشمیر کے پچھواڑے سے نکلے ، سیدھے دلی پہنچے، واجپائی کے لاڈلے، اڈوانی کے چہیتے وزیر خارجہ بنے۔ حنا آئیں، خدا وندان ِ مملکت ِ خداداد کے جھرمٹ میں سب پر چھائیں،تخت شاہی کی مینا بن گئیں، زر داری کا طوطا گونگا کر گئیں ، کہتے ہیں بلاول میں بھی طوفان واندھ کاربھر گئیں، ملکِ ہند آکر اپنے دادا کے ہم عمر ایس ایم کرشنا کے سیاسی نین سے نین ملاکر کیمروں کاچین قلموں کا سکون چھین گئیں ، جہاں جہاں قدم رکھا اپنے فیشنی ملبوسات،اپنی انگریزی بول چال سے باسی ہانڈیوں میں ابال لایا۔ تاریخِ دہرنے بہ چشم نم یہ سب دیکھا تو یہ سوچ کرزہرکھائی کہاں مملکت خداداد، کہاںظفر اللہ خان، آغا شاہی ، گوہر ایوب،زین نورانی،خورشید محمود قصوری اور کہاں ایک بالی عمریاں کی چھوکری۔ اب مریم نوا ز کی باری ہے تو
دیکھئے اس بحر کی تہ سے اچھلتا ہے کیا؟
گنبد نیلو فری رنگ بدلتا ہے کیا
بدلتے رنگ کا طالب
غال
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 351216 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.