ہارٹ آف ایشیاء

ہمسائے سے سشما سوراج آئی ہیں وہ اکیلی ہی نہیں آئیں ادھر ادھر سے اور لوگ بھی ’’ہارٹ آف ایشیاء‘‘کانفرنس میں شرکت کیلئے آئے ہیں،سنا ہے کہ اس کانفرنس میں خطے میں بڑھتے ہوئے عدم استحکام،بدامنی ،دہشتگردی کو قابو کرنے کی بات ہوگی،افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے کچھ فیصلے بھی متوقع ہیں،ادھر میزبان ملک کے دو ’’بڑوں‘‘نے بھی کانفرنس سے چند گھنٹے پہلے ملاقات کرکے ایجنڈے کی نوک پلک درست کی ہے،یہ کوئی نئی کانفرنس نہیں یا اس کا کوئی نیا ایجنڈا ہوسکتا ہے یہ استنبول عمل کا حصہ ہے جو 2011ء میں افغانستان میں امن کیلئے شروع کیا گیا تھا -

استنبول عمل کے بعدافغانستان کی حکومت اور برسر پیکار افغان طالبان کے مابین مذاکرات کاسلسلہ شروع ہوا ،چین میں بات ہوئی پھر پاکستان کے شہر مری میں کچھ گلے شکوے سامنے آئے لیکن بات نہ بن سکی،ایک بار پھر دس ممالک کے وزراء خارجہ اسلام آباد میں سرجوڑ کر بیٹھے ہیں،ان کے سر جوڑنے کی کامیابی کے امکانات کتنے ہیں ؟پاکستان اورچین کا کردار کیا ہو سکتا ہے ؟۔دیکھنا ضروری ہے۔ جس آگ اور خون کی لپیٹ میں افغانستان ہے اس سے پاکستان بھی متاثر ہے پاکستان میں تقریباً 60ہزار افراد اس کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں ۔ابھی تک یہ سلسلہ جاری ہے ۔افغانستان میں پاکستان کے بغیر امن تو کیا خواب دیکھنا بھی حرف غلط لگتا ہے ۔افغانستان میں امن کے تمام راستے پاکستان سے ہی گزرتے ہیں پورے خطے میں ایسا کوئی ملک نہیں اور نہ ہی کسی ایسے ملک میں صلاحیت ہے کہ وہ پاکستان جیسا کردار نبھا سکے افغانستان کے دنیا سے تجارت کے تمام راستے پاکستان سے ہوکر ہی گزرتے ہیں ۔پاکستان اور افغانستا ن کی 2640کلومیٹر لمبی سرحد آپس میں ملتی ہے جیسے ڈیورنڈ لائن کہتے ہیں یہ سرحد 1893ء میں ایک معاہدے کے تحت وجود میں آئی تھی ۔چین پاکستان کا فطری دوست ہے ،چین پاکستان کے ساتھ مل کر افغانستان میں امن کے قیام کیلئے کردار ادا کر رہا ہے ۔چین نے گزشتہ برس افغان طالبان سے رابطے کیلئے اپنا ایک نمائندہ مقرر کیا جس کی کوشش رنگ لا رہی ہیں ۔چین شاہراہ ریشم کے ذریعے افغانستان تک رسائی حاصل کرتا چاہتا ہے معدنیات کے ذخائر کے منصوبوں میں بھی دلچسپی رکھتا ہے رابطوں کا بڑا مقصدر خود چین اور پاکستان میں بھی امن کاقیام ہے ۔پاکستان اورچین دونوں افغانستان میں امریکہ اوربھارت کے اثر کا خاتمہ چاہتے ہیں۔چونکہ روس اور دیگرممالک بھی افغانستان سمیت خطے میں امن کے خواہاں ہیں تو یہ کوششیں ضرور کامیاب ہونگے اور اس کی کامیابی کے امکانات بھی روشن ہیں۔

افغان سکیورٹی حکام نے فرانسیسی خبر رساں ادارے کو چند ماہ پہلے بتایا تھا کہ کابل نے سنکیانگ کے متعدد علیحدگی پسندوں کو گرفتار کر کے چین کے حوالے کیا ہے تا کہ چین کو ترغیب دلائیں کہ وہ پاکستان پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے طالبان کو مداکرات کی میز پر لائے۔ افغانستان، پاکستان اور عالمی برادری قیام امن کے لئے مخلصانہ تعاون کیلئے پرعزم ہے تو آئے برسوں سے جلتے ہوئے پہاڑوں،دہکتے ہوئے ریگزاروں میں محبت امن کے پھول کھلائے جائیں،امن کی پیاسی سرزمین کو پیار سے سیراب کیا جائے،جنگ کے ترانوں کو محبت کے سریلے نغموں سے مات دی جائے۔

یہاں نئی بات یہ ہے کہ حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے بعد’’ سشما‘‘پاکستان آئی ہیں،وہ صرف آئی ہی نہیں بلکہ رشتوں کو سدھارنے کی بات بھی کی ہے۔ سشما جی اس رشتے کو سدھارنے کی بات کررہی ہیں جو کبھی بن ہی نہیں پایا،پاکستان کشمیر کی بات کرتاہے تو بھارت ممبئی حملوں کے ملزموں کی حوالگی،لشکر جیسے مفروضوں کو بیچ میں لے آتا ہے،یہ بات عیاں ہے کہ خطے میں سب سے بڑا تنازعہ کشمیر ہے،ڈوگرا راج کے بعد یہاں بھارتی فوج قابض ہوئی،کچھ علاقہ تو پاکستانی فوج اور مجاہدین نے انیس سو اڑتالیس میں آزاد کروالیا ۔اقوام متحدہ کی مداخلت کے باعث بقیہ حصہ ابھی تک آزاد نہیں ہوسکا۔بھارت نے اقوام متحدہ میں جنرل اسمبلی کی قرادادوں کے مطابق رائے شماری کے ذریعے یہاں کے باسیوں کو آزادی دینے کی حامی تو بھری لیکن آج تک ان کو آزادی نہیں دی او ر نہ ہی یہاں رائے شماری کرائی ہے۔بلکہ کشمیریوں کی نسل کشی کی جارہی ہے۔یہاں آزادی کی تحریک زور و شور سے جاری ہے۔کئی جہادی تنظمیں جو کشمیری نو جوانوں پر ہی مشتمل ہیں برسر پیکار ہیں۔حریت کانفرنس کے نام سے یہاں کی سیاسی جماعتیں پرامن جدوجہد بھی کررہی ہیں۔اسی مسئلہ پر دونوں ہمسایوں میں چار جنگیں بھی ہوچکی ہیں۔کئی مرتبہ بارڈر پر جنگ کیلئے فوجیں آمنے سامنے بھی آئیں،اسی مسئلہ کے باعث دونوں ہمسایوں نے ایٹم بم بھی بنا ڈالے،تیسرے فریق کو بیچ میں نہ لانے کی بات کی جاتی ہے،ماضی میں امریکہ اور روس بھی تو اس مسئلہ کے حل کیلئے میدان میں کودے تھے،اس مسئلہ کی وجہ سے ہی تو بھارت پاکستان میں پراکسی وار لڑ رہا ہے ۔

سشما جی کو رشتہ سدھارنے کی بات کرنے سے پہلے رشتہ بنانا پڑے گا،یہ رشتہ اسی صورت بن سکتا ہے جب دونوں فریق برابری کی سطح پر آکر بات کرینگے،مان لیا کہ دہشگردی پر بات کرنی ہے تو جو بھارتی فوج کشمیر میں کر رہی ہے وہ کیا ہے؟ کیا جبری قانون کے تحت ریاست کے نام پر کشمیریوں کا قتل عام دہشتگردی نہیں؟ کیا وہاں پر تشدد واقعات نہیں ہوتے؟ حق کیلئے آواز بلند کرنیوالوں کی زباں بندی کیا ہے؟ شہری اور دیہاتی علاقوں سے اجتماعی قبروں کی برآمدگی کیا ریاستی دہشگردی کا شاخسانہ نہیں؟

سشما جی دنیا کا آپ کے بارے میں خیال ہے کہ آپ سب سے بڑی جمہوریت ہو۔جمہوریت کے نام پر جمہور کی آواز کو تو نہ دبایا جائے،سچ کا گلہ تو نہ گھونٹا جائے۔معاشی لحاظ سے پاکستان پیچھے ضرور ہے لیکن اتنا ہی کمزور نہیں کہ نوالہ سمجھ کر چبا لیا جائے۔پاکستان نے تو دنیا کو پرامن بنانے کیلئے ساٹھ ہزار سے زائد قربانیاں دی ہیں،کشمیر کو اٹوٹ انگ کہنے سے یہ انگ بھارت کا تھوڑا ہی ہوجائے گا،جنگ جنگ کرنے سے کہیں ایسا نہ ہو کہ بھارت کا انگ انگ ہی نہ ٹوٹ جائے،کالے کوے کو سفید کہنے سے سفید نہیں ہوجاتا!

’’ہارٹ آف ایشیاء ‘‘کانفرنس میں سشما جی کی آمد امن کیلئے سفید پھول کی پہلی پتی ہے باقی پھول توجناب مودی کے پاس ہے۔
Azhar Thiraj
About the Author: Azhar Thiraj Read More Articles by Azhar Thiraj: 77 Articles with 62433 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.