یہ وقت لڑنے کا نہیں ہے ...

بھارت کا کمپوزیٹ ڈائیلاگ کی جگہہ کمپری ہنسیوڈائیلاگ شروع کرنا میجر بریک تھرو ہے..
آج یقینایہ بات نہ صرف پاکستان اور بھارت بلکہ خطے کے دیگر ممالک کے لئے بھی خوش آئند ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کمپوزیٹ ڈائیلاگ کی جگہہ کمپری ہنسیوڈائیلاگ شروع کرنے کا عندیہ دے دیاگیاہے جس کا اعلان گزشتہ دِنوں اسلام آباد میں منعقدہ ہارٹ ایشیاء کانفرنس میں شرکت کے لئے آئیں بھارتی وزیرخارجہ سشماسوراج نے مشیرخارجہ سرتاج عزیز کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس میں کیا بھارت کی جانب سے ایک ایسے موقعے پر کہ جب بھارت کی طرف سے ورکنگ باؤنڈری پر بلااشتعال گولہ باری کے واقعات سمیت بھارت اورپاکستان کے درمیان کئی حوالوں سے حالات کشیدہ ہوتے جارہے تھے۔

ایسے میں بھارتی وزیرخارجہ سشماسوراج جی کی جانب سے یہ اعلان کیا جانا کہ اَب ضرورت اِس امر کی ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کمپوزیٹ ڈائیلاگ کی جگہہ کمپری ہنسیو ڈائیلاگ کا سلسلہ جلد شروع کیا جائے‘ ‘اِس موقع پر بھارتی وزیرخارجہ سشماسوراج کی طرف سے کیا جانے والا یہ اعلان اَب یقینا خطے میں قائم امن اور دونوں ممالک کی خودمختاری کے لئے ایک میجر بریک تھرو ہے جس سے دونوں ممالک کے درمیان عرصہ دار سے چلی آنے والی بہت سی ایسی ناراضگی اور غصے کا بھی خاتمہ ہوسکے گا جو محض افواہوں اور منفی پروپیگنڈوں کی وجہ سے غلط فہمیوں کی بنیادوں پیداہوگئیں تھیں اُنہوں نے کہاکہ ’’ خطے اورپاکستان اور بھارت کو دہشت گردی کی لعنت سے بچانے اور دونوں ممالک کی عوام کی ترقی وخوشحالی کے لئے بہت ضروری ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان جامع مذاکرات جلد شروع کئے جائیں اور اَب بھارت اور پاکستان کے درمیان کمپوزیٹ ڈائیلاگ کی جگہہ کمپری ہنسیوڈائیلاگ ہونے چاہئیں‘‘۔

جبکہ اِس سے اگلے روز اسلام آباد پہنچنے پر بھارتی وزیرخارجہ سشماسوراج نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جس طرح کہا تھاکہ ’’ پاک بھارت تعلقات اور رشتے مزید اچھے اور مضبوط کرنے کے لئے آئی ہوں اورمیں یہ بھی جانتی ہوں کہ ہارٹ ایشیاء کانفرنس نہایت اہمیت کی حامل ہے اِس لئے میں شرکت کے لئے آئی ہوں اور میری خواہش ہے کہ جب پاکستانی حکام سے ملاقاتیں ہوں توہم دونوں ممالک کے باہمی رشتے سُدھارنے اور آگے بڑھانے کے بارے میں باتیں کریں‘‘ جس طرح بھارتی وزیرخارجہ سشماسوراج نے پاکستان آمد پر اپنے جذبات اور خیالات کا اِظہار کیا ہے آج اگر واقعی یہ بھارت جانے کے بعد بھی اِس پر قائم رہیں اور اپنے اِن نیک جذبات اور خیالات کو اپنے بھارتی وزیراعظم نریندرمودی اور دیگر شخصیات کو بھی بتادیں تو کوئی ہرج نہیں کہ خطے میں پاک بھارت تعلقات کے بہتر ہوتے ہی بہت سی ایسی مثبت اور تعمیری تبدیلیاں آئیں گیں جو پاک بھارت سمیت خطے کے دیگر ممالک کے لئے بھی کئی حوالوں بالخصوص امن عامہ اور معاشی اور اقتصادی لحاظ سے ایسے انقلاب کی کرن ثابت ہوں گیں جن پر گامزن ہر کر پاک بھارت اور خطے کے پڑوسی ممالک ترقی و خوشحالی کی راہیں ہموار کرسکے گیں۔

اگرچہ آج یہ نکتہ پاکستان اور بھارت کے لئے بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ پاکستان اور بھارت نے نئے سرے سے جامع مذاکرات کی دوبارہ بحالی پر اتفاق کرلیا ہے ایسا محسو س ہورہاہے کہ جیسے اَب دونوں ممالک کواچھی طرح یہ اندازہ ہوگیاہے کہ ہم خطے میں جنگ وجدل کا ماحول پیداکرکے اپنی اپنی چوہدراہٹ قائم کرنے کے لئے جنگی جنون میں مبتلاہیں اور اَب تک اِس فعلِ شنیع میں مبتلا رہ کر ہم سوائے اپنے وسائل اور طاقت کے ضائع اور دونوں ممالک کے درمیان نفرتوں اور دہشت گردی کو پروان چڑھانے کے کچھ بھی حاصل نہیں کرسکے ہیں جبکہ خطے میں دائمی امن اور اقتصادی ڈھانچے کو استحکام بخش بنانے اور دنوں ممالک کے عوام کے درمیان محبتوں اور جذبہ خیر سگالی کو پروان چڑھانے اور LOCاورورکنگ باؤنڈری کے اِدھر اُدھرکے امن پسند عوام کو قریب لانے کے لئے صرف مذاکرات ہی وہ راستہ ہیں جسے جاری رکھ کر بھارت اور پاکستان اپنی اپنی بقاء و سا لمیت اور خودمختاری پر قائم رہ سکتے ہیں ۔

آج اِس میں کوئی شک نہیں کہ خطے کے دوممالک بالخصوص بھارت اور پاکستان کے اندرونی اور بیرونی حالات اور زمینی حائق یہ تقاضاضرور کررہے ہیں کہ یہ وقت آپس میں لڑنے کا نہیں ہے، بلکہ دونوں ممالک کے حکمران الوقت سے خطے کے تیزی سے بدلتے حالات اور واقعات چیخ چیخ کر یہ کہہ رہے ہیں کہ آج ہم اپنی تمام اندررونی اور بیرونی ذاتی و فروعی سیاسی و سماجی چپقلش اور کدورتوں کا حل افہام و تفہیم اور کامیاب مذاکرات سے ہی خود نکالیں تو ہم آنے والے وقتوں میں نہ صرف اپنے اندرونی اوربیرونی بلکہ خطے کوبہت سے ایسے خطرناک ترین چیلنجز سے بھی ضرور بچا سکتے ہیں جوموجودہ حالات میں ہماری ضد و ہٹ دھرمی اور کمبختی کی وجہ سے نازل ہونے والے ہیں۔

جبکہ آج اگر بھارت اپنے کہے پر قائم رہتاہے اور اِس پر پوری طرح سے عمل بھی کرتاہے تو پھر وہ دن دور نہیں کہ جامع مذاکرات کے شروع ہوتے ہی مسئلہ کشمیر وسیاچن اور کارگل جیسے دیگر ایسے مسائل جن کا جامع حل دونوں ممالک کے لئے کسی بھی صورت جنگ سے ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ دونوں ممالک ایٹمی طاقتیں ہیں اور دونوں ہی ایک دوسرے پر جنگ سے سبقت حاصل نہیں کرسکتے ہیں سوائے باہمی اور جامع اور بامقصد مذاکرات ہی ایسے تمام مسائل کا حل نکال سکتے ہیں جس سے دونوں ممالک سمیت خطے کے دیگر ممالک کے درمیان بھی باہمی روابط بڑھانے کے لئے اہم مواقعہ فراہم ہوں گے۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 895136 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.