بلدیاتی انتخابات نے کراچی کی سیاسی رونقیں بحال کردیں

بلدیاتی انخابات کے کا تیسرا مرحلہ جاری و ساری ہے، اسلام آباد کے نتائج آچکے جس کے مطابق نون لیگ ،تحریک انصاف کو یہاں بھی پیچھے چھوڑ گئی، کراچی کا انتخابی دنگل ٥ دسمبر کو سجے گا۔ کراچی میں سیاسی گہما گہمی عروج پر ہے۔ ذیل کا مضمون کراچی کے سیاسی مظر نامے کا تجزیہ ہے
ملک میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے اور دوسرے مرحلے کے تیسرا مرحلہ جوش و خروش سے جاری ہے۔ تیسرے مرحلے کے انتخاب دارالخلافہ اسلام آباد میں یکم دسمبر کو ہوئے مسلم لیگ نون کو غیر سرکاری نتائج کے مطابق ایک ووٹ کی برتری حاصل ہوسکی ۔ نون لیگ کے سید ظفر علی شاہ ہار گئے جو کہ نون لیگ کے اسلام آباد کے میئر کے بھی مضبوط امیدوار تصور کیے جارہے تھے۔ غیر سرکاری نتائج کے مطابق کل 50 نشستوں میں سے نون لیگ 19، تحریک انصاف 18 اور 10آزاد امیدوار کامیان ہوئے۔یہاں بھی تحریک انصاف دوسرے نمبر پر رہی۔

تیسرے مرحلے کا دنگل5 دسمبر کو کراچی میں سجے ہوگا ۔اس کے لیے آج کل بازارانتہائی سچ دھج کے ساتھ گرم ہے۔ طویل عرصہ کے بعد کراچی کی سیاسی رونقیں لوٹ آئی ہیں۔ جس سٹرک ، چوراہے کو دیکھیں سیاسی جماعتوں کے کیمپس لگے ہوئے ہیں ۔ اپنے اپنے لیڈروں کی ، جماعت کے گانے تیز آواز سے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کر رہے ہیں۔ پارٹی ترانے ، جھنڈوں کی بہاریں اورجوشیلے نعروں کی گونج ہر جانب سنائی دے رہی ہے، ریلیاں اور جلسے جن پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے پابندی ہے ہر جماعت ہی اس کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتی نظر آرہی ہے۔ ریلیاں سب ہی جماعتوں کی نکل رہی ہیں، کارنر میٹنگ جو جلسوں کا روپ دھار لیتی ہیں ہو چکی ہیں اور ہو رہی ہیں لیکن تاحال کوئی نہ خوش گوار واقع رونما نہیں ہوا، یہ ایک اچھی بات ہے۔ ہر جماعت ایک دوسرے پر لعن تعن کر رہی ہے،کیڑے نکالے جارہے ہیں، اگلے پچھلے کرتوتوں کو نکال نکال کر پیش کیا جارہاہے، کراچی کو فتح کرنے ، کراچی کو واہ گزار کرانے کی باتیں ہورہی ہیں، کہاجارہا ہے کہ پانچ دسمبر کو کراچی ہمارا ہوگا، دوسرا کہتا ہے کہ نہیں ہمارا ہوگا ان تمام تر الزامات در الزامات کے کوئی نہ خوش گوار واقع کا نہ ہونا سیاسی جماعتوں کے سربراہوں، لیڈروں کی دانش مندی تصور کیا جانا چاہیے۔ اگر یہ لیڈران دانستہ طور پر ،کسی خاص حکمت علمی کے تحت اپنے کارکنوں کو تصادم سے دور رکھے ہوئے ہیں تو انہیں آئندہ انتخابات والے دن بھی اور اس کے بعد بھی اسی سیاسی تدبر کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ سیاست اسی کانام ہے۔ تصادم یا لڑائی جھگڑا کسی بھی طور مناسب نہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ کم از کم کراچی کی سطح پر سیاسی لیڈروں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ تصادم سے، دنگا فساد سے، ایک دوسرے پر حملہ آور ہونے سے سیاسی فائدہ پہنچنے کے بجائے نقصان ہی ہوتا ہے۔سیاسی لیڈروں کو تو کچھ نہیں بگڑتا ، غریب کارکن زخمی ہوجاتے ہیں، جان سے چلے جاتے ہیں ، لواحیقین زندگی بھر چلے جانے والوں کی یاد میں گزاردیتے ہیں، لیڈروں کا کام افسوس کے دو بول بول دینا اور بس۔

کپتان نے کراچی کا طوفانی سیاسی دورہ کیا اور متعدد کارنر میٹنگوں جنہوں نے جلسے کی شکل اختیار کر لی تھی انتہائی جوشیلے انداز سے مخالفین کو للکارتے، ڈراتے، دھمکاتے، شکست کا خوف دلاتے نظاآئے۔ ان کا کہنا تھا کہ کراچی کو لسانی بنیادپر تقسیم نہیں ہونے دیں گے، بوری بند سیاست ختم کریں گے، کراچی کو ترقی یافتہ شہر بنائیں گے، ا ن کا حدف میزبان سیاسی جماعت تھی جس کو وہ اپنا ازلی سیاسی دشمن تصور کرتے ہیں۔ وقفہ وقفہ سے ایم کیوایم کو تنقید کا نشانہ بنایا، حتیٰ کے اس کے قائد پر بھی رکیک حملے کیے۔ یہ کوئی پہلا موقع نہیں تھا انہیں جب اور جہاں موقع ملتا ہے ایم کیوایم پر دشنام ترازی کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، ایسا وہ زبانی جمع خرچ ہی کرتے بلکہ ایم کیو ایم مخالفت یا دشمنی میں وہ سالوں پہلے ثبوتوں کابھرا بریف کیس لے کر برطانیہ گئے تھے ، پر کچھ حاصل نہ ہوا، چند دن قبل ان کے ایک مقامی لیڈر بھی گئے لندن ثبوتوں کی ٹوکری لے کر لندن لیکن کچھ سامنے نہیں آسکا۔ خیر بات کہیں اور نکل گئی۔ کراچی وہ اکیلے نہیں آئے بلکہ ان کے ہمراہ ان کے اتحادی جماعت کے سربراہ سراج الحق بھی تھے۔ کراچی میں دونوں جماعتوں کا پکا سیاسی اتحاد ہے، یہ اتحاد بھی خوب ہے ، جہاں ضرورت ہو اتحاد جہاں ضرورت نہ ہو وہاں دونوں کی سمتیں الگ الگ، قومی اسمبلی میں اسپیکر کے انتخاب میں سراج الحق اور ان کی جماعت نے ن لیگ کے امیدوار کو ووٹ دیا جب کہ تحریک انصاف نے مخالفت میں۔ خیبر پختون خواہ میں بھی اتحاد کراچی جیسا ہی ہے۔ اس اتحاد نے بھی کراچی میں کپتان کی ریلیوں اور جلسوں کو چارچاند لگا دئے، رونق بڑھا دی، نفری میں اضافہ کردیا، جوش و خروش آسمان سے باتیں کررہا تھا۔ کپتان اپنے دھرنے والے اسٹائل میں مخالفین کو للکارتے رہے۔ خدا کرے انتخابات کا حشر دھرنوں والا نہ ہو، پنجاب کے بلدیاتی انتخابات والا نہ ہو۔ لگتا ہے کہ وہ یہاں وہ صورت حال نہیں ہوگی ، مکمل کامیابی نہ سہی کچھ نہ کچھ ضرور حاصل ہوجائے گا۔دونوں کے اتحاد پر یہ شعر دیکھیں ؂
زمیںِ چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

کراچی میں بلدیاتی انتخابات میں 1520نشستوں کے لیے 5401امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہے۔ ان میں70لاکھ سے زائد ووٹر اپنا رائے دہی استعمال کریں گے۔ کراچی کے 6اضلاع ہیں جن میں پولنگ ہوگی۔ جن جماعتوں کے امیدوار مدِ مقابل ہیں ان میں تحریک انصاف وجماعت اسلامی، ایم کیوایم، نون لیگ، پاکستان پیپلز پارٹی، اے این پی، مرزا گروپ، نبیل گبول گروپ، سنی تحریک، مہاجر قومی موومنٹ کے علاوہ آزاد امیدواروں کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہے۔دوسری جانب کراچی میں عرصہ دراز سے ہولڈ رکھنے والے میزبان سیاسی جماعت ایم کیو ایم بھی بھر پور انداز سے انتخابی مہم چلارہی ہے۔ ریلیاں نکل رہی ہیں، جلسے ہورہے ہیں، بیان بازی اور الزام اور جواب ِالزام کا سلسلہ جاری ہے، متحدہ کاکہنا ہے کہ کپتان الطاف حسین کی فکر چھوڑیں اپنا منشور پیش کریں، دہشتگردوں کے حمایتی کراچی کے عوام کو جھوٹے نعروں سے لبھارہے ہیں۔ متحدہ کے قائدنے کہا کہ جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی والے کچھ بھی کرلیں کراچی میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ آج پاکستان پیپلز پارٹی کی ریلی بھی شیریں رحمان کے قیادت میں نکلی یہ مختلف راستوں سے ہوتی ہوئی صفورہ چورنگی پر اختتام پذیر ہوئی ۔ اس میں کوئی اور بڑا لیڈر دکھائی نہیں دیا۔ سابق صدر آصف علی زرداری ملک سے باہر ہیں ،واپس آنے کی امید بھی نہیں، سرِ دست بلاول کے بس کی بات نہیں۔ سائیں وزیراعلیٰ میدان سیاست میں آ نہیں سکتے، دیگر لیڈر وں کو شاید اجاذت نہیں یا انہیں اختیار نہیں کہ وہ انتخابات کے حوالے سے کوئی فعال کردار ادا کرسکیں۔ملیر کے جلسے میں جو پارٹی کا یوم تاسیس کے حوالے سے منعقد کیا گیا ، بلاول ھیلی کاپٹر سے جلسہ گاہ بھی اترے اور واپس اسی ھیلی کاپٹر سے پرواز کر گئے۔ خاصہ جوش و خروش تھا پارٹی ورکروں میں، بلاول کے دائیں جانب شیریں رحمان ہی نظر آئیں، کوئی اور قابل ذکر لیڈر دکھا ئی دیا، کیا حکمت عملی ہے نہیں معلوم۔ اے این پی کی جگہ جس طرح خیبر پختون خواہ میں تحریک انصاف نے لے لی ہے لگتا ہے کہ کراچی میں بھی اے این پی کا ووٹر تحریک انصاف کی جانب متوجہ ہے۔اے این پی شاہی سید جب سے سینیٹر بنے ہیں اپنے آپ کو اے این پی کی اوپر کی سطح کے لیڈروں میں شمار کرنے لگے ہیں، ٹی وی ٹاک شو میں سیاست کرنا اب انہیں زیادہ مناسب لگتا ہے۔ کراچی میں رہنا بھی انہیں اچھا نہیں لگتا۔ نون لیگ نے لگتا ہے بادلوں کا رخ دیکھ کر کراچی میں اپنی انتخابی مہم کو بین بین رکھا ہوا ہے۔نون لیگ کے مقامی لیڈر شپ فیلڈ رہنے کے بجائے ٹی وی ٹاک شوز میں سیاسی موضوعات پر فلسفہ بیان کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ نبیل گبول کا گروپ لیاری کے چند علاقوں تک محدود ہے جب کہ مرزا جی کا گروپ بھی کراچی کے چند علاقوں تک محدود ہے ، اسی طرح مہاجرقومی موومنٹ بھی مخصوص علاقوں میں اثر رکھتی ہے۔ بلدیاتی انتخابات کا جو نقشہ ابھر کر سامنے آرہا ہے وہ سابقہ نتائج سے کچھ مختلف دکھائی نہیں دے رہا۔ اب تک پہلے مرحلے میں حکمراں جماعت نون لیگ بازی لے گئی کپتان اور پیپلز پارٹی منہ دیکھتے رہ گئے، دوسرے مرحلے میں سندھ کی حکمراں جماعت پیپلز پارٹی نے 22 اضلاع میں کامیابی حاصل کر کے میدان مار لیا ، یہاں تحریک انصاف کا وجود ہی نہیں تھا۔ اسلام آباد میں بھی نون لیگ آگے ہے جب کہ تحریک انصاف دوسرے نمبر پر ہے، یہاں پی پی کا صفایا ہوگیا ، اب تیسرا اور آخری مرحلہ کراچی کا ہے یہاں بھی کچھ ویسا ہی دکھائی دے رہا ہے ۔ نون لیگ کی سرد مہری، پیپلز پارٹی کی سست روی یہی پتا دے رہی ہے کہ یہاں بلدیاتی اداروں پر حکمرانی کرنے والی سابقہ جماعت ہی بازی لے جائے گی۔
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1284634 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More