اقتصادی رابطہ کمیٹی کااجلاس اورمعیشت کی سمت ؟

کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی ) نے ٹیکس وصولی میں چالیس ارب کاخسارہ پوراکرنے کے لیے ملک میں درآمدہونے والی تین سوپچاس اشیاپرپانچ سے دس فیصداضافی ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کردی ہے۔اب ان شیاپرریگولیٹری ڈیوٹی کی شرح دس فیصدسے بڑھاکرپندرہ سے بیس فیصدہوگئی ہے۔دوسونواسی لگژری اشیاکی درآمدپرریگولیٹری ڈیوٹی کی شرح دس فیصدسے بڑھاکرپندرہ فیصدجبکہ اکسٹھ نئی اشیاکی درآمدپربیس فیصدریگولیٹری ڈیوٹی عائدکردی گئی ہے۔ دہی ،مکھن،پنیرڈیری اشیا،شہد،امرود،آم،مالٹے، پولٹری،خشک میوہ جات،ٹی وی،سٹیلائٹ ڈش،ریسیور، سگنل لینے والے آلات، واٹر ڈسپنسر، ریفریجریٹرز، مائیکروویواوون، ایئرکنڈیشنز پربھی ریگولیٹری ڈیوٹی بڑھادی گئی۔شیمپو، ٹوتھ پیسٹ،شیونگ آئٹمز،پرفیوم کی درآمداورمیک اپ کے سامان پربھی دس فیصدریگولیٹری ڈیوٹی عائدکی گئی۔ملک میں تیارہونے والی تمام اقسام کے سگریٹس پرفیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں بھی اضافہ کردیاگیا ہے۔کم قیمت سگریٹس پرڈیوٹی کی شرح ۰۳۰۳ سے بڑھاکر۵۵۱۳ فی ہزارسگریٹ اوراچھی کوالٹی کے سگریٹس پرڈیوٹی کی شرح ۰۲۳۱ روپے سے بڑھاکر۰۲۴۱ روپے فی ہزارسگریٹ کردی گئی ہے۔ملک میں درآمدہونے والی استعمال شدہ گاڑیوں کی فکسڈ درآمدی ڈیوٹی دس فیصدکی شرح سے بڑھادی گئی ہے۔جس کے مطابق ۱۰۰۱ سی سی سے ۰۰۳۱ سی سی گاڑیوں کی ڈیوٹی پرڈیوٹی کی شرح ۰۰۰۲۱ ڈالرسے بڑھاکر۰۰۲۳۱ڈالرکردی گئی ہے۔۰۰۵۱سی سی گاڑیوں پرڈیوٹی کی شرح ۰۸۹۶۱ڈالرسے بڑھاکر ۰۹۵۸۱ڈالرکی گئی ہے۔۱۰۵۱سی سی سے ۰۰۶۱سی سی تک کی درآمدی ڈیوٹی ۰۰۵۰۲ڈالرسے بڑھاکر۰۵۵۲۲ڈالرکردی گئی ہے۔۱۰۶۱سی سی سے ۰۰۸۱سی سی گاڑیوں کی درآمدی ڈیوٹی ۰۰۴۵۲ڈالرسے بڑھاکر۰۴۹۷۲ڈالرکردی گئی ہے۔اسی طرح ملک میں ایک فیصدکسٹمزڈیوٹی پردرآمدہونے والی اشیاپرکسٹمز دیوٹی میں ایک فیصداضافہ بھی کیاگیا ہے۔ای سی سی اجلاس سے بعدوزرات خزانہ میں ایک بریفنگ کے دوران اخبارنویسوں کوبتایاگیاجن اشیاپرکسٹم ڈیوٹی کی شرح میں ایک فیصداضافہ کیاگیا ہے ان میں لیدرانڈسٹری، شوگرانڈسٹری،پنکھوں کی صنعت، سٹیل وسریاکی صنعت،الیکٹرک موٹرسازی کی صنعت شامل ہے۔جواشیااس اضافی کسٹم ڈیوٹی کے زمرے میں نہیں آئیں گی انمیں درآمدی کھاد،فصلیں بونے کے آلات اورمشینری شامل ہیں۔جن اکسٹھ نئی اشیاپردس فیصدریگولیٹری ڈیوٹی عائدکی گئی ہے ان میں زندہ مرغی،مچھلی کاگوشت، خشک میوہ جات،بادام، حلال جانوروں کے دل،کلیجی، گردے،کوکابٹر،چربی، خوردنی تیل،پائن ایپل، ناشپاتی،لوکاٹ، آڑو،سٹرابری،ناریل کافی، چائے،ٹرنک سوٹ کیس،ایگزیکٹوبریف کیس،ملبوسات، چمڑے کے ملبوسات،اوورکوٹ،ٹوپیاں،ہیٹ، گاڑیوں کے پلاسٹک کور،گھڑیاں، جیکٹس، شرٹس،بلاؤز، انڈرپینٹس،نائٹ سوٹس،ویسٹس، پینی کوٹ، پاجامہ،بچوں کے کپڑے،فیبرک کی دیگراشیا،ٹریک سوٹسم سوئمنگ سوٹس،بریزیئرز،رومال ،مفلر،ٹائی، ٹیبل لینن،کچن لینن، پردے ،کمروں کا اندرونی سامان آرائش، اوون فیبرکس،رسی،واٹرپروف جوتے،ربرپلاسٹک کے شوز،دیگراقسام کے جوتے بغیرسول کے،چمڑے کی دیگراشیا،ربڑکے بنے جوتے،شیشے کے منکے،مصنوعی موتی، مصنوعی زیورات،کلائی گھڑی، ٹائم پیس،دیگراقسام کی گھڑیاں،جسمانی ورزش کی مشینیں،جھاڑوم جمنازیم کاسامان شامل ہے۔جن اشیاپرریگولیٹری ڈیوٹی میں پانچ فیصداضافہ کرکے اسے پندرہ فیصدکیاگیا ہے ان میں دہی، مکھن، ڈیری سپریڈ،قدرتی شہد،پائن ایپل،امرود، آم، آم کاگودا،خشک آم ، مالٹے، لیمن،تربوز، پاپوا،سیب، لوکاٹ،چیری،کیوی فروٹ،ڈورئین،پائن نٹ، چیوئنگ گم،وائٹ چاکلیٹ،چلغوزہ، الائچی،ڈرائی فروٹ، پستہ،میکرونی، سویاں،کارن فلیکس، سیرئیلز، بلگرویٹ، کرسب بریڈ،جنجربریڈ، میٹھے بسکٹس،ویفلزاورویفرز،رس ، اچار، ٹماٹر،ٹماٹرکاپیسٹ،مشروب، سبزیاں،اوران کے مکسچر،آلو،مٹر،پھلیاں،زیتون،میٹھی مکئی،جوس والے پھل،ٹماٹرکاجوس ودیگراشیاشامل ہیں۔کمیٹی نے مالی سال دوہزارپندرہ سولہ کے لیے گندم کی امدادی قیمت تیرہ سوروپے من برقراررکھنے،مکئی کی درآمدپرتیس فیصدریگولیٹری ڈیوٹی عائدکرنے،اورنان فائلزکے لیے بینکوں سے رقوم کی ترسیل پرایڈوانس ٹیکس کی صفراشاریہ تین فیصدرعائتی شرح میں اکتیس دسمبرتک توسیع کی منظوری دے دی ہے۔اسحاق ڈارنے کہا کہ وزیراعظم کی ہدایت پرعام آدمی کے استعمال کی اشیاپرٹیکس نہیں لگائیں گے۔ایک اورقومی اخبارمیں شائع شدہ خبرمیں ہے کہ عام آدمی کے زیراستعمال ہزاروں اشیاجن میں ادویات، خام مال،کھاد، الیکٹرک موٹرز،پیڈیسٹل فین،درآمدی بیج، مینوفیکچرنگ پریہ ایڈیشنل کسٹم ڈیوٹی لاگونہیں ہوگی۔ٹیلی کام سیکٹرپربھی کسٹم ڈیوٹی لاگونہیں ہوگی۔آٹھ سوسی سی سے ایک ہزارسی سی تک استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمدپرڈیوٹی میں کوئی اضافہ نہیں کیاگیا۔وفاقی وزیرخزانہ سینیٹر اسحاق ڈارنے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کے بعدپریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ رواں سال کی پہلی سہ ماہی میں محصولات کے ہدف میں چالیس ارب روپے کی کمی کوپوراکرنے کے لیے ای سی سی کے اجلاس میں ریگولیٹری ڈیوٹی میں اضافے کی منظوری دی گئی ہے۔پٹرلیم مصنوعات کی قیمتوں کے حوالے سے وزیرخزانہ اسحاق ڈارنے بتایا کہ پٹرول اورڈیزل کی قیمتیں برقراررہیں گی اوران میں کسی قسم کی کوئی کمی بیشی نہیں ہوگی جبکہ اوگراکی تجویزکردہ قیمتوں کے مطابق مٹی کے تیل کی قیمت ۹۷ پیسے،لائٹ ڈیزل کی قیمت میں چھتیس پیسے کمی کی گئی ہے اورہائی اوکٹین کی قیمت میں ۷۸ پیسے اضافہ کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا عام آدمی کے زیراستعمال کسی درآمدی اشیاپرڈیوٹی عائدنہیں کی گئی اورنہ اضافہ کیا گیا ہے۔وزیرخزانہ نے بتایا مقامی تیارشدہ کسی گاڑی پرکوئی کوئی ڈیوٹی عائدنہیں کی گئی۔

وزیرخزانہ اسحاق ڈارنے کہا ہے کہ عام آدمی کے استعمال کی اشیا پرٹیکس نہیں لگائیں گے۔دہی، مکھن، پنیر،ڈیری اشیا،شہدامرود،آم ،مالٹے،پولٹری، خشک میوہ جات،ٹی وی،ریفریجریٹرز، مائیکروواوون ،شیمپو ، ٹوتھ پیسٹ،سگریٹس،زندہ مرغی،خوردنی تیل پائن ایپل، ناشپاتی،ناریل ،کافی ،چائے ،بریف کیس، ملبوسات ،اوورکوٹ ٹوپیاں،گھڑیاں، جیکٹس، شرٹس،ٹرنک، پاجامہ،رومال، مفلر، ٹائی،بچوں کے کپڑے،پردے،جوتے،پلاسٹک شوز، دیگراقسام کے جوتے،کلائی گھڑی ،دیگراقسام کی گھڑیاں،جھاڑو،سیب، سویاں،مفلر، رس ، اچار، ٹماٹر،میٹھے بسکٹس،مشروب، سبزیاں، آلو،مٹر،پھلیاں، جوس والے پھلوں میں سے کون سی ایسی چیز یاچیزیں ہیں جوعام آدمی کے استعمال میں نہیں ہیں۔گدھوں، حرام جانوروں، مردہ اورمردارجانوروں کی کھالوں کے سیکنڈل کے سامنے آنے اورحرام گوشت کی فروخت کی خبریں آنے کے بعدعوام نے مرغی اورسبزیاں کھانے والوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ مرغی گوشت اورسبزیاں پہلے ہی سستیاں نہیں ہیں ان پرریگولیٹری ڈیوٹی بڑھ جانے سے ان کی قیمتوں میں اوربھی اضافہ ہوجائے گا۔ جس سے عام آدمی کاروزانہ کابجٹ بہت متاثرہوگا۔لوگ اپنے بیٹوں اوربیٹیوں کی شادیاں کرتے ہیں تووہ اورجوکچھ خریدیں یا نہ خریدیں وہ دولہا دولہن کے لباس اورسامان وغیرہ رکھنے کے لیے ٹرنک وغیرہ ضرورخریدکرتے ہیں۔ملبوسات اورٹرنک پربھی ریگولیٹری ڈیوٹی میں اضافہ کردیا گیا ہے۔لوگ اپنی بچیوں کی شادیاں کرتے وقت ان کے لیے زیورات بنواتے ہیں۔ زیورات کی قیمتیں پہلے ہی ہوش ٹھکانے لگادیتی ہیں اب ان پرریگولیٹری ڈیوٹی میں اضافہ سے لوگوں کی مشکلات میں اوراضافہ ہوجائے گا۔ویسے دیکھا جائے تواسحاق ڈارنے درست ہی کہا ہے کہ عام آدمی کے استعمال کی اشیاپرٹیکس نہیں لگائیں گے۔ کیونکہ جن چیزوں پرریگولیٹری ڈیوٹی میں اضافہ کیا گیا ہے ان میں گاڑیاں، ایئرکنڈیشنز توویسے ہی خاص لوگ استعمال کرتے ہیں جبکہ دیگر اشیا کی قیمتیں ہی اب اتنی بڑھ چکی ہیں کہ عام آدمی ان چیزوں کوخریدنے کے قابل ہی نہیں رہا۔اب سبزیاں پکاکرکھانا بھی آسائش کے زمرے میں ہی آتا ہے اس لیے عام آدمی اب سبزیاں کھانہیں سکتا۔جویہ سب چیزیں استعمال کرتا ہے وہ خاص آدمی ہے عام آدمی نہیں ہے۔اب سوچنا یہ ہے کہ عام آدمی کی آمدنی پہلے ہی اتنی نہیں ہے کہ وہ گوشت خریدکرکھاسکے وہ اب سبزیاں بھی نہیں کھاتا تووہ کھاتا کیا ہے۔شایدوہ روٹی، چٹنی یاروکھی ہی کھاجاتا ہوگا۔اخباری خبروں کے مطابق عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی ہوئی ہے جبکہ پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات میں پٹرول اورڈیزل میں کوئی کمی نہیں کی گئی جبکہ دیگرپٹرولیم مصنوعات میں برائے نام کمی کی گئی ہے۔چالیس ارب روپے کے یہ نئے ٹیکس آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پرلگائے گئے ہیںیامحصولات کی وصولی میں کمی کی وجہ سے عام آدمی کی مشکلات میں اوربھی اضافہ کردیا گیا ہے۔اسحاق ڈارنے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کے بعدپریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں محصولات کے ہدف میں چالیس ارب روپے کی کمی کوپوراکرنے کے لیے ای اسی سی کے اجلاس میں ریگولیٹری ڈیوٹی میں اضافے کی منظوری دی گئی ہے۔اس میں دوباتیں سامنے آتی ہیں کہ پہلی بات یہ ہے کہ پہلے ہی ہدف اتنا زیادہ رکھا گیا کہ اس کوپوراکرنامشکل ہوگیایہ بجٹ تیارکرنے والوں کی غلطی ہے دوسری بات یہ ہے کہ بجٹ میں محصولات کاہدف درست تھا تویہ وصول کرنے والوں کی ناکامی ہے کہ وہ پہلی سہ ماہی کاہدف بھی پورانہیں کرسکے۔دونوں صورتوں میں غلطی یاکوتاہی جس کی بھی ہواس کی سزاملک بھرکی عوام کودینامناسب نہیں ہے۔جوں حکومت کے محصولات ادانہیں کرتے ان کے خلاف کارروائی کی جائے ۔محصولات کی وصولی کویقینی بنایا جائے نہ کہ ملک بھرکی عوام پرچالیس ارب کانیابوجھ ڈال دیا جائے ۔ملک ترقی کررہا ہے۔ معیشت ترقی کررہی ہے۔ معیشت درست سمت جارہی ہے۔اب پہلی ہی سہ ماہی میں محصولات کے ہدف میں چالیس ارب روپے کی کمی کاانکشاف وزیرخزانہ نے خودکیا ہے تواس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ملک کی معیشت کس سمت جارہی ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ پہلی ہی سہ ماہی کایہ حال ہے تومالی سال مکمل ہونے پرکیا حال ہوگا۔پہلی سہ ماہی کاخسارہ پوراکرنے کے لیے توریگولیٹری ڈیوٹی میں اضافہ کیا گیا ہے دیگر دوسہ ماہیوں کاخسارہ پوراکرنے کے لیے بھی اسی طرح کے ٹیکس لگائے جاسکتے ہیں۔دیگر دونوں سہ ماہیوں میں ہی اسی طرح خسارہ پوراکرنے کے لیے اورٹیکس لگائے گئے توقیمتیں کہاں تک پہنچ جائیں گی یہ تصورکرتے ہی اوسان خطاہوجاتے ہیں۔آئی ایم ایف کے پا س جانا اوراس کی سخت شرائط کوپاکستان کی طرف سے تسلیم کرنے سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی معیشت کس سمت جارہی ہے۔ ملک کی معیشت ترقی کررہی ہے ، درست سمت جارہی ہے توآئی ایم ایف کے پاس کس لیے حکومت گئی ہے۔اس کی اتنی سخت شرائط کس لیے منظورکی گئی ہیں۔چالیس ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے سے حکومت کی ساکھ پربھی اثرپڑے گا۔عام صارفین بجلی کابل بھی ادانہ کریں توان کے میٹرکے کنکشن کاٹ دیے جاتے ہیں۔ بل کے ساتھ عدم ادائیگی کی صورت میں کنکشن کاٹنے کانوٹس بھی بل پرلکھ دیا جاتا ہے تویہ محصولات میں مالی سال کی پہلی ہی سہ ماہی میں چالیس ارب روپے کی کمی کیسے آگئی۔کہیں ا یسا تونہیں کہ غریب اورکمزورکوچھوڑونہ اوربااثراورطاقتورکوچھیڑونہ ۔ریگولیٹری ڈیوٹی میں اضافہ کرنے سے حکومت کے سیاسی مخالفین کورائے عامہ حکومت کے خلاف کرنے کابھی موقع مل جائے گا۔حکومت کوآئی ایم ایف کے پاس جانا ہی نہیں چاہیے تھا۔عالمی مالیاتی ادارے کبھی نہیں چاہتے کہ مسلمانوں کاکوئی ملک ترقی کرے۔وہ بظاہرتومعیشت کی ترقی کے لیے سخت شرائط منواتے ہیں حقیقت میں ان شرائط سے معیشت تومضبوط نہیں ہوتی البتہ عوام پرمہنگائی کے بوجھ میں اوراضافہ ضرورہوجاتا ہے۔حکومت پھل، سبزیاں، ملبوسات، مصنوعی زیورات، ٹرنک، مشروبات اوردیگرروزمرہ کی عام استعمال کی اشیاپرریگولیٹری ڈیوٹی میں اضافہ واپس لے۔تاکہ عام آدمی واقعی اس سے متاثرنہ ہو۔
Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 394 Articles with 301808 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.