اکیسویں صدی کاا بن بطوطہ!

ہندوستان کے وزیر اعظم نریند ر مودی نے اپنے ملک میں رہنے کے بجائے بیرون ممالک کے سفر کو ترجیح دیتے ہیں۔عوام بے حال ہے،غربت بڑھتی جارہی ہے اور مودی ہیں کہ ملک میں رکتے نہی۔اسی پس منظر میں اس مضمون کو لکھا گیا ہے۔

ایک تصویر جس میں کئی باتیں ہیں،مودی کے دورے کی مختصر تفصیل،اور موجودہ حالات

دنیاوی سیرو سیاحت کی جب بھی بات ہوتی ہے اور عظیم سیاح کو لیکر جب بھی بحث چھڑتی ہے تو اہل علم کی نظر ابن بطوطہ پر جاکر ٹھہر تی ہے۔ابن بطوطہ کو تا ریخ کے صفحات میں انتہائی منظم انداز میں پیش کرنے کے پیچھے جو مقصد کار فرما ہے وہ یہی کہ دنیا میں واحد ابن بطوطہ ہی ایک ایسا شخص تھا جس نے دنیا کے بیشتر حصوں کی سیر وسیاحت کی ۔تاریخ کی کتابو ںمیں ابن بطوطہ کے حوالے سے اتنی معلومات ضرور مل جاتی ہے کہ دنیا کے اس عظیم سیاح کا پورا نام ابو عبد اللہ ابن بطوطہ تھااور ولادت سن 1304ءمیں مراکش کی سرزمین پر ہوئی تھی۔ادب ،تاریخ اور جغرافیہ کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اکیس سال کی عمر میں یہ شخص دنیا کی سیر کو نکلا اور سب سے پہلے بیت اللہ شریف پہنچا۔اس کے بعد افریقہ ،روس اور ترکی کی سیر کی ۔جزائر شرق الہند اور چین کی سیاحت کے ساتھ ساتھ عرب و ایران ،شام و فلسطین اور ہندوستان کا دورہ کیا اورجب ابن بطوطہ ہندوستان پہنچاتو اس وقت محمد بن تغلق کاعہد تھا جنہوں نے ابن بطوطہ کی بہت عزت افزائی کی اور یہیں سے ایک سفارتی مشن پر چین جانے کا حکم ملا۔تاریخ میں یہ درج ہے کہ ابن بطوطہ نے 28سال کی مدت میں 75ہزار میل کا سفر کیا اور اخیر میں فارس کے بادشاہ ابو حنان کے دربار میں آیااور ان کے کہنے پر اپنے سفرنامے کو مرتب کیا جس میں آج بھی کئی ممالک کے تاریخی وجغرافیائی حالات موجود ہیں ۔یہ چودہویں صدی کی بات تھی اور تب سے آج تک دنیا عظیم سیاح کی حیثیت سے صرف اور صرف ایک شخص کو جانتی تھی اور وہ ابن بطوطہ ہی تھا جس کے سیر و سیاحت کے انوکھے انوکھے قصے آج تک لوگ ایک دوسرے سے سنتے آئے ہیں۔لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ ابن بطوطہ کے سرسے عظیم سیاح کایہ سہرہ اترنے والا ہے چونکہ ایک دوسرا سیاح اس دنیا کو مل گیا ہے اور اتفاق سے وہ سیاح ملک عزیز ہندوستان کاوزیر اعظم بھی ہے۔ہندوستان کی سیاسی تاریخ میں بڑے الٹ پھیر کے ساتھ این ڈی اے کی حکومت گزشتہ سال مئی کے مہینے میں بنی۔نریندر مودی نے اس ملک کی قیادت کا حلف لیا اور ہندوستانی عوام سے ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘کا عہد و پیمان کیا۔مودی وزیر اعظم تو بن گئے لیکن عوام سے کئے ہوئے اپنے وعدے بھول گئے ۔عوام کے چہرے پر پھر مایوسی لوٹ آئی۔پھر اپنے لوٹ جانے کا انہیں احساس انہیںستانے لگا۔مہنگائی جب ان کی تھالی سے دال اور سبزی چھیننے لگی تو خود کشی کرنے پر مجبور ہوگئے اور پھر نہ جانے مسائل یکا یک پیدا ہو گئے جس کی وجہ سے نہ جانے کس کس انداز میںہندوستان کی شبیہ کو عالمی پیمانے پر بنتی بگڑتی رہی، یہ اپنے آپ میں ایک الگ بحث کا موضوع ہے۔ لیکن ان تما م باتوںکے درمیان سب سے دلچسپ بات جو رہی جس پر ایک عام ہندوستانی نے بھی انگلی اٹھائی وہ نریندر مودی کا بیرون ممالک دورہ ہے۔مودی نے وزارت کی کرسی کیا سنبھالی گویا وہ کسی ایسے جہاز پر سوار ہوگئے جو ہندوستان سے کہیں زیادہ دیگر ممالک میں پرواز کرتی ہے۔البتہ اس ضمن میں مودی نے ایک ہوشیاری یہ کی کہ انہوں نے اپنے اس بیرون ممالک کی سیاحت پر ’میک ان انڈیا‘اور’ ایف ڈی آئی ‘کا بینر لگا دیا اور بھولے بھالے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی۔لیکن مودی جی کو شاید یہ نہیں معلوم کہ ہندوستانی عوام بھولے بھالے ہونے کے ساتھ ساتھ سمجھدار اور باشعور بھی ہے اوریہی وجہ ہے کہ مودی کے اب ہر سفر پر عوام انگشت نمائی کر رہی ہے۔اب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ آخر یہ نوبت کیوں آئی۔ہندوستانی عوام اب تک وزرائے اعظم کے کام کاج،طریقہ کاراور ان کے دیگر حرکات پر سوال اٹھاتے رہے ہیں لیکن ہندوستان کی تاریخ میںایسا پہلی بار دیکھنے کومل رہا ہے کہ یہاں کے باشندے وزیر اعظم کے بیرون ممالک دورے سے پریشان ہیں اور ان پر سوال اٹھارہے ہیں۔ایک عام ذی ہوش شخص بھی اگر نریند مودی کے اس مختصر سے عرصے میں بیرون ممالک کے لامتناہی دورے کا جائزہ لے تو یہ حق بنتا ہے کہ وہ ہندوستانی ہونے کے ناطے اپنے وزیر اعظم کے اس رویے پر سوال اٹھائے۔آر ٹی آئی کے حوالے سے مودی کے بیرون ممالک دورے کا جو خلاصہ ہوا ہے وہ اپنے آپ میں حیران کن ہے۔نریند مودی نے جون2014سے جون 2015تک 20ممالک کا دورہ کیا اور بیرون ممالک میں54 دن رہے۔ اور اب تک وہ اپنے 18ماہ کے دور اقتدار میں32ممالک کا دورہ کر چکے ہیں ۔ان ممالک میں سب سے زیادہ طویل دورہ فرانس ،جرمنی ،کنیڈا،چین،برازیل جاپان،آسٹریلیا،برطانیہ اورامریکا کا رہا جہاں کم سے کم دو دنوں تک انہوں نے قیام کیا ۔علاوہ ازیں نیپال ،سری لنکا ،بنگلہ دیش،بھوٹان،عرب امارات،روس،کزاکستان،ازبکستان،سنگا پور،ملیشیا،میانمار،فجی وغیرہ کے ایسے دورے ہیںجہاں انہوں نے کم سے کم ایک دن کا قیام کیا ہے۔دلچسپ بات تو یہ ہے کہ انہوں نے اپنے اس پے در پے بیرون ممالک کا دورہ کرکے کئی ریکارڈ بھی اپنے نام کرلیا ہے اوراب ایسا بھی کہا جانے لگا ہے کہ دنیا کو کسی ملک کا ایسا وزیر اعظم پہلی بارملا ہے جنہوں نے اپنے معمولی دور اقتدار میں اتنے زیادہ ممالک کا دورہ کیا ہو۔دریں اثنا انہوں نے کچھ ایسے ممالک کا بھی دورہ کیا ہے جہاں اب تک ہندوستان کے کسی وزیر اعظم نے دورہ نہی کیا تھا یا ایک زمانہ ہو گیا تھا۔اس ضمن میں سری لنکا کادورہ سر فہرست ہے جہاں 28سال بعدکسی ہندوستانی وزیر اعظم نے ا س ملک کا دورہ کیا ہے۔علاوہ ازیں 34سال بعد ہندوستانی وزیر اعظم نے عرب امارات کا دورہ کیا، ساتھ ہی17سال بعد نیپال کا دورہ کرنے کا سہرہ بھی بطور وزیر اعظم نریند مودی کے سر جاتا ہے۔اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر ان تمام بیرون ممالک کے اسفار کے اخراجات کون اور کیسے اٹھا رہا ہے اور وہ پیسے کہاں سے آ رہے ہیں جن کی بنیاد پر ہمارے وزیر اعظم اس آزادی کے ساتھ بیرون ممالک کا دورہ کر رہے ہیں ۔مستند ذرائع سے یہ خبر بھی منظر عام پر آچکی ہے کہ وزیر اعظم کے بیرون ممالک کے دورے کا جو بجٹ ہوتا ہے وہ بہت پہلے ختم ہو چکا ہے اوریہ بھی سچائی سب کے سامنے پیش کی گئی ہے کہ سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نے اپنے دس سالہ عہد وزارت میں جتنا بیرون ممالک کا دورہ نہیں کیا اس سے کہیں زیادہ مودی نے ایک سال کے اندر بیرون ممالک کاسفر کیا ہے۔تعجب کی بات تو یہ ہے کہ مودی نے بیرون ممالک کے بالمقابل اپنے ملک کے متعدد ریاستوں کا دورہ کرنے میں بہت کم دلچسپی دکھائی ہے ۔ نریندر مودی نے 14جون 2014سے فروری2015کے درمیان اپنے ملک میں صرف پچاس دورے کئے اور 63دن کا قیام دہلی سے باہر کیا۔ان میں بھی زیادہ ترانہوں نے مہاراشٹر،جموکشمیر،ہریانہ اور جھارکھنڈکا دورہ کیا ۔جبکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہمارے وزیر اعظم اپنے ملک کے بیشتر ریاستوں کا زیادہ سے زیادہ دورہ کرتے اور وہاں کی سرکار کے مسائل سے باخبر ہوتے ،ان کے مشکلات اور کمیوں و خامیوں سے آشنا ہوتے اور پھر ایک مضبوط کوشش کے ساتھ ان ریاستوں کے مسائل کے حل کیلئے سعی کرتے ۔یہ یقینا اپنے آپ میں سب سے الگ اور نئی چیز ہوتی اور اس طرح سے شاید ملک کا بھلا بھی ہوتااور وزیراعظم کا بھی۔ لیکن معاملہ اس کے بالکل بر عکس دیکھنے کو مل رہا ہے۔یہاں کی عوام نریندر مودی سے کھانے کو راشن مانگ رہے ہیں اور یہ بجائے راشن کے بھاشن دے رہے ہیں۔ہندوستانی عوام ملک بڑھتے عدم رواداری اور تشدد سے بچاﺅ کا حل نکالنے کو کہہ رہے اور وزیر اعظم بلٹ ٹرین کا سودا کرنے میں محو ہیں۔جب یہاں کے عوام کو بنیادی ضروریات ہی بہ آسانی حاصل نہیں ہو پارہی ہے اور مختلف مسائل سے روز مقابلہ کرنا پڑ رہاہے اور مودی بیرون ممالک کے دورے کا پیچھا نہیں چھوڑ رہے ہیں ایسے میں مودی کے ان دورے پر عوام کا سوال اٹھانا مناسب ہے ۔کیوں کہ عام عوام کو ا س بات کا بخوبی علم ہے کہ مودی اپنے پیسوں کے بدولت بیرون ممالک اتنی فراوانی کے ساتھ سفر نہیں کر رہے ہیں بلکہ وہ عام عوام کا پیسہ ہے جس پر سب سے زیادہ حق ہندوستان کے عوام کا ہے۔اب جہاں تک بیرون ممالک دورے میں اخراجات کی بات ہے تو یہ بتا دوں کہ گزشتہ دو ماہ قبل ایک آر ٹی آئی سے یہ خلاصہ ہوا تھا کہ نریندر مودی نے جون2014سے جون2015 تک یعنی ایک سال میں 20ممالک کا دورہ کرکے کل 33.22کروڑ روپئے لٹائے۔واضح رہے کہ اسی دوران نریندر مودی نے جاپان ،سری لنکا،فرانس اور ساﺅتھ کوریہ کا بھی دورہ کیا تھا لیکن وہاں کی سرکار نے مودی کے دورے کے اخراجات کا حساب نہیں دیاورنہ عین ممکن تھا کہ یہ رقم پچاس کروڑ تک پہنچ جاتی اور یقینااس سے کم خرچ نہیں ہوا ہوگا۔البتہ سب سے کم بجٹ کا دورہ بھوٹان کا رہاجہاں صرف41.33لاکھ روپئے خرچ ہوئے اور سب سے زیادہ مہنگا سفر آسٹریلیا کا رہا جہاں صرف ہوٹل خرچ 5.6کروڑ ہوااور پھرمودی اور ان کے قافلے کیلئے کرائے پر لئے گئے کار کا خرچ 2.4کروڑہے ۔اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مودی اپنے قافلے کے ساتھ کس فراخ دلی اور فیاضی سے عام عوام کے پیسوں کو پانی کی طرح بہا رہے ہیں ۔اگر آج تک کے یعنی کل 32 ممالک کے دورے کا صحیح صحیح حساب مل جائے تو یقینا ملکی سطح پر ہنگامہ بپا ہو جائے گا۔حیرت تو اس بات پر ہے کہ مودی کے ان دورے پرسوال کا سلسلہ ہنوز برقرا ر ہے پھر بھی مودی ہے کہ مانتے نہیں ۔ابھی سے انہوں نے مستقبل کے دورے کا بھی تقریباً فیصلہ کر لیا ہے اور تاریخ بھی متعین کر رکھی ہے۔پی ایم او کے مطابق دسمبر 2015میں نریندر مودی روس کا دورہ کریں گے اور 4-5ستمبر 2016کو چین کے دورے پر جائیں گے اور سن2016ہی میں پاکستان کا بھی دورہ کرنے والے ہیں۔اٹھارہ ماہ میں جب مودی نے 32ممالک کا دورہ کر لیا ہے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پورے ساٹھ ماہ میں مودی کتنے ممالک کا دورہ کرلیں گے۔سچ بات تو یہ ہے کہ مودی اپنی پارٹی اور پارٹی نمائندگا ن کے کارناموں سے پریشان ہیں اس لئے ملک سے باہر رہنے میں ہی اپنے لئے عافیت محسوس کرتے ہیں لیکن یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ مودی اپنے دور اقتدار میں پوری دنیا کا سفرکر کے ہی دم لیں گے اور ابن بطوطہ کا ریکارڈ توڑ کر ہی چھوڑیں گے۔یہ اور بات ہے کہ اس سے ملک کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوگا ۔ غربت مزید بڑھتی جائےگی اور ایک دن ایسا بھی آئے گا جب غریبی کو ختم کرنے کے بجائے غریبوں کو ہی ختم کرنے پر غور کیا جانے لگے گا۔
RAHMAT KALIM
About the Author: RAHMAT KALIM Read More Articles by RAHMAT KALIM: 6 Articles with 7345 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.