گڈ گورننس یا بیڈ گورننس ۔سنجیدگی کی ضرورت

گورننس انگریزی زبان کے لفظ ’گورن‘Govern سے ماخوذ ہے ،اس کے لفظی معنی‘ حکومت کرنے ‘یا’ نگرانی کرنے کے‘ ہیں۔ اس طرح گڈ گورننس ،اچھی حکمرانی اور بیڈ گورننس، بری حکمرانی ہوئی۔ بقول محمود شام ’موضوع تو آجکل یہی ہے کہ فوج کو ایسا بیان دینے کا حق تھا یا نہیں‘۔ پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ یہ بیان کیا تھا ؟اور یہ کس کنٹکس میں دیا گیا۔ کورکمانڈر ز کی میٹنگ ، معمول کی کاروائی ہوتی ہے، مقررہ مدت کے بعد فوج کے بڑے سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں اور لمحہ موجود کے معاملات و مسائل پر صلاح ومشوری کرتے ہیں، تمام معاملات پر بریفنگ دی جاتی ہے اور تمام امور پر غور کیا جاتاہے اور پھر اس کا حاصل عوام اور حکومت کے سامنے رکھ دیا جاتا ہے۔ چنانچہ گزشتہ دنوں فوج کے بڑے سر جوڑ کر بیٹھے، طے شدہ ایجنڈے پر غور ہوا ، ایجنڈے کا ایک نقطہ لمحہ موجود کی حکومت کی کارکردگی بھی تھی۔ تمام باتوں پر اطمینان کا اظہار کیا گیا ، آرمی چیف نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’ملک سے دہشت گردی اورا نتہا پسندی کے خاتمے کے لیے جاری آپریشن میں قوم کی مکمل حمایت قابل تحسین ہے تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ آپریشن کے طویل المدت فوائد کے حصول اور ملک بھر میں پائیدار امن کے لیے گورننس بھی اسی طرح ہونی چاہیے ‘۔یہی کچھ بعد میں کور کمانڈر زکی میٹنگ کے بعد آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری ہونے والی اخباری پریس ریلیز میں بھی کہا گیا۔ اس میں کون سی ایسی قابل گرفت ، قابل اعتراض اور دل دکھانے والی بات کی گئی ہے ۔ اگر کوئی بڑا یہ کہے کہ اپنی اصلاح کرلو، اپنے طرز حکمرانی پر نظر ثانی کرلو، بہتری کی جانب آئیں ، بہتر کام کریں، اگر ہرکام فوج نے کرنے ہیں تو پھر آپ کی کیا ضرورت ہے،جمہوری اصولوں پر عمل پیرا ہوں، احتساب ہر ایک کا ہونے دیں، سندھ اور پنجاب میں تفریق نہ کریں، آپ اپنی عادات واطوار ، حرکات و سکنات درست کرلیں تاکہ آپ کے ہاتھوں جو کچھ ہورہا ہے وہ زیادہ بہتر طور پر سامنے آئے اس کے دور رس نتائج بھی سامنے آئیں گے۔ اچھا کرنے لینے کی بات کرنا یا مشورہ دینا آئین اور قانون کے خلاف تو نہیں ہے، لیکن اس بیان نے ایک پیج پر ہونے کی حقیقت کو آشکارا کردیا،اندر چھپے غبارے سے ہوا نکل گئی۔ دلِ ناتوں پر یہ بیان بجلی بن کر گرا اور حکمرانوں میں سے بعض نے دل کے پھپولے پھوڑے۔ ایک بات کافی عرصہ سے تجزیہ نگار کہہ رہے تھے کہ دونوں شریفوں میں اتحادو اتفاق اور پیار کا رشتہ مضبوط ہے، دونوں کو ایک صفحہ پر ظاہر کیا جارہا تھا ، گڈ گورننس کا کہنے دینے سے اصل چہرہ کھل کر سامنے آگیا۔

گورننس کو بہتر بنانے کا بیان گویا توجہ دلاؤ نوٹس لمحہ موجود کے حکمرانوں کی نازک طبیعت پر گراں گزرا۔اس بیان پر میڈیا تو خوب چلایا ہی ساتھ ہی حکومتی ترجمان بیان داغ ڈالا کہ ’ادارے آئین کی حدود میں رہیں‘ ، گویا اچھی گورننس کا مشورہ دینے والوں کو دو ٹوک الفاظ میں کہا گیا کہ اپنی حدود میں رہیں۔ کیا یہاں یہ بات کہنامناسب تھا، اس کا فیصلہ آپ ہی کریں البتہ جب سے خواجہ آصف نے وزیر دفاع کا قلم دان سنبھالا ہے پہلا موقع تھا کہ انہوں نے معقولیت کا دیدہ دلیری سے مظاہرہ کرتے ہوئے دیگر حکمران ٹولے کے مقابلے میں معقول اور مناسب بات کی، انہوں نے کہا کہ’ آپریشن ضرب عضب اور گڈ گورننس کے تعلق سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ، افغانستان میں 16ممالک کی افواج جو 15سال میں حاصل نہیں کرسکی وہ پاک فوج نے ڈیڑسال میں حاصل کر لیا‘۔ دیگر مشیروں، وزیروں ، قرابت داروں، عزیز رشتہ داروں نے اس حوالے سے جو بھی بیانات دیے ، گفتگو کی وہ ٹی وی ٹاک شوزمیں ڈھکے ڈھکے انداز میں، کچھ نے بیباکانہ انداز میں اس بات کا اظہار کیا کہ یہ جمہوری حکومت ہے اور اقتدار کا سرچشمہ ملک کا انتظامی سربراہ ہوتا ہے۔ بات اپنی جگہ درست کہی گئی کہ وزیر اعظم ملک کے تمام معاملات نگراں اور ذمہ دار ہوتا ہے لیکن گاڑی کی سمت درست نہ ہو تو اس کی سمت کا تعین کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ سربراہ پاک فوج کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹیز ترجیحی بنیادوں پر تحقیقات مکمل کریں، تاخیرآپریشن کو متاثر کررہی ہے، فاٹا ریفارمز پر عملدرآمد اور آئی ڈی پیز کی با عزت واپسی کو یقینی بنا یا جائے۔ انہوں نے ایٹیلی جنس بنیاد پر آپریشنز بالخصوص ضرب عضب کے نتائج پر اطمینان کا اظہار کیا ۔اجلاس میں بیرونی چیلنجز ، نیشنل ایکشن پلان اور فاٹا اصلاحات کا جائزہ بھی لیا گیا۔ سربراہ فوج کے بیان اور آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز میں کوئی بات ایسی نہیں جو حکومت کی دکھتی رگ پر انگلی رکھنے کے مترادف ہو۔بات صاف صاف ، دو ٹوک الفاظ میں کہی گئی تھی، فوجی انداز بھی ایسا ہی ہوا کرتا ہے کسی کو برا لگے یا اچھا وہ طے شدہ پلان پر ایف 16تیاروں کی طرح پرواز بھرتے ہیں اور دوسروں سے بھی یہی امید رکھتے ہیں۔ بات ا تنی سے تھی کہ افواج پاکستان نے لمحہ موجود حکومت سے صرف اتنا کہا کہ وہ موجود حکومت اپنی حکمرانی میں بہتری لائے۔سرکاری سطح پر جس کام میں بہتری نظر آتی ہے کہا جاتا ہے کہ حکومت نے اچھا کام کیا۔ موجودہ صورت حال میں سول حکومت کے جو اچھے کام ہیں ان کے پیچھے سول حکومت کی گڈگورننس کے بجائے فوج کی گڈگورننس نظر آتی ہے۔ سیلاب آجائے تو فوج، زلزلہ آجائے تو فوج، سیلاب اور زلزلے کے دوبارہ آباد کاری کا مرحلہ ہو تو فوج، دہشت گردی، انتہا پسندی کے خلاف کاروائی کری ہو تو وہ فوج ہی کرتی ہے، سرحدوں کی حفاظت ، دشمن وطن کی سرحدوں پر چھیڑ چھاڑ کرے تو اس کا جواب بہادر سپاہی ہی دیتے ہیں، انتخابات کی بات ہوتو کہا جاتا ہے کہ پولنگ اسٹیشن پر نہیں بلکہ پولنگ اسٹیشن کے ہر بوتھ پر ایک جوان موجود ہو۔ کوئی عمارت گرجائے تو فوج اپنی مہارت سے دبے ہوئے لوگوں کو نکالے، سیاچن میں برف تلے دب جانے والے فوجیوں کو بھی فوج کے جوانوں نے ہی نکالا، کرپشن کے خلاف کاروائی فوج کرے، بڑی مچھلیوں کو فوج پکڑے، کراچی میں آپریشن فوج کرے، کرپشن کے خلاف روائی فوج کرے، سندھ میں کرے واہ واہ، بڑے بھائی کے صوبے میں نہ نہ، ڈاکٹر عاصم کو پکڑلیا بہت خوب، پنجاب کے موجودہ وزیر رعناء مشہود کی رقم لیتے ہوئے ویڈیو موجود ، رعناء ثناء کہیں یہ ان کا ذاتی معاملا ہے ، رقم لینا اور دینے سے کرپشن کا کوئی تعلق نہیں، بات اپنی جگہ درست لیکن چوری چھپے کوئی کام کرنا مناسب بھی نہیں۔ یہ ہے جمہوری حکومت کی گڈگورننس ۔ کام فوج کرے میاں جی سب اپنے کھاتے میں ڈالتے جائیں۔ لوگ خود کشیاں کر رہے ہیں حکومت خاموش، بجلی کے بل تیز گام کی طرح بڑھائے جارہے ہیں حکومت خاموش، اراکین اسمبلی ، وزیرنہ سینٹ میں جائیں نہ قومی اسمبلی میں حکومت خاموش، میاں صاحب کا اپنا ریکارڈ کونسا اچھا ہے۔ غیر ملکی دوروں سے فرصت ملے تو کچھ اور سوچیں۔ حکومت کی کارگزاری یعنی بیڈگورننس کی فہرست اس قدر طویل ہے کہ یہ کالم اس بات کا متحمل نہیں ہوسکتا کہ مزید تفصیل میں جایا جائے۔

فوج نے گڈگورننس کی بات کی وہ ہی ابھی ہضم نہیں ہوئی تھی کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی نے سینٹرل جیل کراچی میں انسداد دہشت گردی کی دو عدالتوں کا سنگ بنیاد رکھنے کے موقع پر دیگر باتوں کے علاوہ انہوں نے کہا کہ ’موجودہ نظام عدل میں کوئی بڑی خامی نہیں ملک میں بیڈ گورننس کا ماحول بنا ہوا ہے ،جب تک ادارے ایمانداری اور محنت سے اپنی ذمہ داری ادا نہیں کریں گے مسائل نہیں ہوں گے‘۔ چیف جسٹس نے انتہائی مناسب اور حقیقت پسندانہ بات کی ہے ، اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ لمحہ موجود کی حکومت کی حکمرانی میں اداروں میں گڈگورننس دکھائی نہیں دیتا۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے حکومت کی توجہ اس جانب دلاکر اپنا فرض پورا کیا ہے ان کا کہنا تھا کہ اچھی حکمرانی یہ ہے کہ عوام کے مسائل حل ہوں۔ انہوں نے کہا کہ گڈگورننس کے حوالے سے یہ مسئلہ عذاب بنا ہوا ہے ، مہنگائی، قرضے، کرپشن وغیرہ اس معاشرے کا ناسور بن چکے ہیں۔چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی گڈگورننس کی جانب حکومت کی توجہ دلائی ۔ یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ اختیار رکھنے والے، سیاسی طاقت کے مالک جن میں حکمران جماعتوں کے اہل کار، سر کاری افسر، بیورو کریٹ، اعلیٰ عہدے دار شامل ہیں عوام کی بھلائی کے بجائے ان کاخون چوس رہے ہیں، کرپشن کے نت نئے طریقے اختیار کرکے اپنی دولت میں تیزی سے اضافہ کررہے ہیں، وزیر ، مشیر ، ماتحت اہل کاراپنی اپنی پارٹی لیڈر کو سب اچھا ہے ، سب ا چھا ہے کا پہاڑا سناتے رہتے ہیں اور وہ ان کی لغو اور جھوٹ کو تسلیم کر کے صرف اپنے سیاسی مخالفین کو اپنے بیانات سے ڈرانے اور دھمکانے کے سوا کچھ اور نہیں کررہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں حقیقی معنوں میں گڈگورننس ہو، ہر ادارہ اپنی اپنی حدودمیں رہتے ہوئے ، قانون کے مطابق ، عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ایمانداری سے کام کرے۔ حکومت عوام کی فلاح و بہبود کے منصوبے بنائے اور موجود منصوبوں پر ایماندار لوگوں سے ان پر عمل کرائے۔ گڈگورننس یا بیڈ گورننس کے بیانات کو اپنے لیے توہین ، اہانت، ہیٹی یا ذلت تصور نہ کرے اور کسی بھی قسم کی بھبکی نہ دے اور نہ ہی اکڑ فوں دکھائے، نہ ہی غیض و غضب میں آئے، نہ ہی آگ بگولہ ہو بلکہ حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے ، ان بیانات میں حقیقت پوشیدہ ہے، انہیں اپنے خیر خواہوں کا توجہ دلا ؤ نوٹس تصور کرتے ہوئے اپنی طرز حکمرانی پر سنجیدگی سے توجہ دے،فوج جو کام ضربِ عضب کے تحت کر رہی ہے اسے آزادانہ طور پر کرنے دے، کراچی میں جو آپریشن ہورہا ہے فوج اسے غیر جانبدارنہ طور پر انجام تک پہنچانا چاہتی ہے اسے وہ کا م کرنے دینا چاہیے، دہشت گردی، انتہا پسندی کے خلاف اقدامات جاری و ساری رہیں، احتساب بلا تفریق ہونا چاہیے، امیر کے لیے ایک غریب کے لیے دوسری حکمت عملی مناسب نہیں، سندھ میں احتساب پنجاب میں کھلی چھٹی مناسب نہیں۔ احتساب بلا تفریق ہونا ہی ملک و قوم کے مفاد میں ہے۔
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1284505 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More