"یقین" قسط -1

ایک نو عمر لڑکی کی سچی بپتا اس وقت جب وہ مشکل مین پھنسی تو کسطرح حق تعالی نے اسکی مدد فرمائ پہلا حصہ
شدید تھکن اور سردرد سے آنکھوں میں مانو جیسے گلابی موسم اتر آیا تھا.شانے بوجھل ہو چلے تھے جسم آرام آرام کی کمزور سی صدائے احتجاج بلند کررہا تھا اور ذہن ابھی بھی بضد کہ جو دل پر گذر رہی ہے وہ تحریر کی صورت کورے کاغذ پر قلم کے زریعے اتار دے.

پرانی یادوں کی گویا ذہن میں ایک فلم سی چلنے لگی. سلائیڈ بدلتی رہتی اور گذرے پل سین کی طرح سامنے آتے رہتے.چلیں آج ان میں سے ہی کچھ رقم کردیتے ہیں.

ان دنوں ہم اسکول کے میٹرک کے ایگزامز کی تیاری میں مشغول تھے.گر میوں کے دن، پھر ایگزام کا دباؤ اسکول کوچنگ پھر گھر میں بھی رات دیر تک پڑھائ افففففف خیر یہ تو سب پر ہی گذرتی ہے وہ بھی ان دنوں ،ہم بتارہے تھے یا یوں کہیئے لکھ رہے تھے.اس واقعہ کی بابت جو ہمارے ساتھ پیش آیا.اور اس دن اس ذات باری تعالی پر ہمارا یقین راسخ ہوگیا بے شک وہ اپنے ہر بندے کے حال سے پوری طرح واقف ہے.تو جی ہوا کچھ یوں کہ دوسرے دنوں کی طرح اس دن بھی ہم جب اپنی کوچنگ کی کلاس لے کر حسب معمول اپنے گھر جانے کے لیئے نکلنے لگے تو دیکھا کہ ہماری ہی کلاس کی ایک لڑکی صائمہ اکیلی افسردہ بیٹھی تھی استفسار پر اس نے بتایا کہ اسکے ساتھ جانے والی لڑکیاں آج جلدبازی میں اسے تنہا چھوڑ گئیں......

تو اس میں اتنی پریشان ہونے والی کیا بات ہے آپ اکیلے بھی تو جاسکتی ہو فاصلہ طویل تو نہیں"ہم نے کہا
نہیں غزل ایسی بات نہیں وہ علاقہ کچھ ٹھیک نہیں جہاں میں رہتی ہوں. مجھے اکیلے جاتے ہوئے خوف محسوس ہورہا ہے..صائمہ نے جھر جھری لی نہیں میں یہیں بیٹھی رہوں گی.

پاگل ہو کوچنگ دھیرے دھیرے خالی ہورہا ہے آخر کب تک ایسے ..اچھا یہ بتاؤ کہاں جانا ہے ہم چلتے ہیں آپکے ساتھ گھر چھوڑنے بنا سوچے سمجھے ہم نے ایک دم ہامی بھر لی اس وقت اس سے بہتر حل کوئ نظر ہی نہیں آیا.پھر کسی کی مدد کرنا اچھی بات ہے. اسکا گھر ہمارے راستے میں ہی تو پڑتا تھا.اس وقت یہ بھی نہیں سوچا کہ ہمیں گھر جانے میں دیر ہوگی تو گھر پر ماں بابا پریشان ہوسکتے ہیں.ہم خود بھی کسی پریشانی میں پڑ سکتے ہیں.آخر وہ لڑکی خوف زدہ ہے تو کوئ تو وجہ ہوگی ہی نا.....پر اس وقت تو ہمارے سر پر مدد کا بھوت سوار تھا کسی کے کام آنے کا نیکی کمانے کا موقع جو مل رہا تھا.....

بہت بھولا معصوم سا چہرہ تھا اسکا اس پر اسکی بادامی آنسوؤں سے ڈبڈبائی ہوئی آنکھیں جن میں ہمارے لیئے ڈھیر سارا تشکر بھرا تھا آج بھی بہت شدت سے یاد آتیں ہیں ایک بات کہیں اس بات کا ذکر ہم نے آج سے پہلے کبھی کیا بھی نہیں تھا.سچ مچ اب یہ نہ کہیئے گا کہ کھایئے قسم، وہ تو جھوٹوں کا کام ہے ہاں سچ چھپایا ضرور ڈانٹ جو پڑتی بڑوں کی-

خیر ہم دونوں ساتھ کوچنگ کی پچھلی طرف سے نکل کر صائمہ کے گھر روانہ ہوئے. جب انکی گلی میں داخل ہوئے تو دیکھا دونوں جانب چھوٹے بنگلے بنے ہوئے تھے .گلی بالکل سنسان پڑی تھی وہ کہتے ہیں نہ بندہ نہ بندے کی ذات ،افففف فضا میں عجیب سی خاموشی گھلی ہوئ تھی شدید گرمی کی وجہ سے پرندے بھی آشیانوں میں چھپے بیٹھے تھے. اب پتا نہیں شاید یہ سب صائمہ کی باتوں کا اثر نہ ہو اچھا بھلا راستہ تو ہے گھر چھوڑ کے ہم لیتے ہیں اپنی راہ
یہ سوچ کے اپنے شانے اچکائے.

اور قدم تیز کردیئے. انکے گھر پہنچے تو دیکھا چھوٹا سا نفاست سے سجا ہوا پرانی طرز کا مکان دیوار کے ایک طرف رنگ برنگے پھولوں سے سجی کیاری اپنی بہار دکھلارہی تھی تو دوسری طرف گیٹ کے پاس انکی معذور ماں وہیل چیئر پر حددرجہ پریشان بیٹھیں تھیں.صائمہ کے اندر داخل ہوتے ہی انکے چہرے پر خوشی کی لہر نمودار ہوگئی.آگئی میری بچی کوئی پریشانی تو نہیں ہوئی؟میں دیکھ ہی رہی تھی ابھی کسی کو تمہیں لانے کے لیئے
ابھی انکے سوال ختم ہوتے تو وہ بے چاری کچھ کہتی
پر خدا کا شکر اس نظر کا جو ہم پر پڑی اور انکے سوال کرتے لبوں کو یک دم بریک لگ گیا...
صائمہ بیٹا کون ہے یہ بچی؟؟؟؟؟

امی جان یہ غزل ہیں میری کلاس میں ساتھ ہیں یہی مجھے گھر تک چھوڑنے آئیں.صائمہ ابھی تک ہماری ممنون نظر آرہی تھی..

شکریہ بیٹا آپ نے میری بچی کو گھر تک چھوڑا بہت ڈرتی ہے یہ اکیلے آنے جانے سے ہم دونوں ماں بیٹی تنہا جو رہتے ہیں اسکے بابا بھی نہیں رہے
کوئ پرسان حال نہیں ہمارا
انکے لہجے میں حد درجہ افسردگی تھی
ہم سے مزید کچھ پوچھنے کی ہمت نہیں ہوئی

صائمہ نے ہمیں چائے کے لیئے روکنے کی کوشش کی پر ہم نے اسے روک دیا.وقت بہت ہوچلا تھا
پھر دیر ہونے کا احساس بھی تنگ کرنے لگا تھا

ہم معذرت کرتے ہوئے جلدی سے واپسی کے ارادے سے گیٹ تک آئے تو دونوں ماں بیٹیاں ہمیں گیٹ پر اللہ حافظ کہنے آئیں.ہمیں اچھا لگا کہ انکا اپنائیت سے بھرا سلوک دیکھ کر اور کچھ عجیب بھی

بھلا ایسا بھی کیا کردیا تھا ہم نے .الجھن تھی کہ بڑھتی ہی جارہی تھی.گیٹ کا کھٹکا جھٹکے سے اٹھایا اور تیزی سے باہر کی سمت دوڑ لگائی جاتے جاتے بھی انکی دعائیں ہماری سماعت سے ٹکراتی رہیں..........

ابھی نکلے ہوئے کچھ منٹ ہی ہوئے تھے کہ اندر کی بے کلی اور بڑھتی الجھن ایک زووووون زووووون کرتے شور کی صورت ہمارے سامنے آموجود ہوئی....

یہ کوئی فلمی سین نہیں تھا اور نہ ہی کسی رائٹر کا تخیل

ہم سچ مچ ایک ناگہانی افتاد کا شکار ہوچکے تھے...جو چار بنا سائیلنسرز لگی بائیک کی شکل میں ہمارے آس پاس نظر آرہی تھی.چار نوجوان جنھوں نے تقریباً ایک جیسے لباس پہنے ہوئے تھے. بائیک پر سوار ہمارے گرد راؤنڈ لگانے لگے.

ایک عجیب سے خوف نے ہم کو اپنی گرفت میں لے لیا انکے ارادے ٹھیک نظر نہیں آرہے تھے.ہم نے چاروں طرف مدد کے ارادے سے نظر دوڑائی تو تب کہیں جاکے ہمیں صائمہ کے خوف زدہ ہونے کی وجہ سمجھ آئی. سائیلنسرز کا شور بھی بنگلوں کے مکینوں کی سماعت سے کوسوں دور تھا ایسا لگتا تھا کہ خالی مکان ہیں جہاں صدیوں سے کوئی رہنے ہی نہیں آیا.........

انکے چہرے پر خباثت سے بھری مسکراہٹ اور خوف زدہ کرنے والے تاثرات نظر آرہے تھے وہ بڑی خاموشی سے گھیرا دھیرے دھیرے تنگ کررہے تھے.آپ پوچھیں گے کہ چلاتیں مدد کے لیئے کسی کو پکارتیں روتیں للجاتیں انکو اللہ کے واسطے دیتیں بجائے اسکے بڑی خاموشی سے ان سب کا تماشہ بننے کے لیئے تیار ہوگئیں واہ جی واہ بہت خوب.........

نہیں ایسا کچھ بھی نہیں تھا یہ ٹھیک ہے ہم خوف زدہ تھے مشکل میں تھے پر رونے چلانے یا للجانے سے کچھ حاصل نہیں ہونے والا تھا ...پھر ان سے کیا کہتے جنکے ارادے خود ناپاک تھے. یا انکو مدد کے لیئے پکارتے جو وہاں موجود ہی نہیں تھے-
Haya Ghazal
About the Author: Haya Ghazal Read More Articles by Haya Ghazal: 65 Articles with 88577 views I am freelancer poetess & witer on hamareweb. I work in Monthaliy International Magzin as a buti tips incharch.otherwise i write poetry on fb poerty p.. View More