ان شہیدوں کی دیت اہل کلسیا سے نہ مانگ

6 ستمبر 2015 کے دن جنرل راحیل شریف کی بہادرانہ تقریر سے بھارت کو چھٹی کا دودھ یاد دلا دیا تھا۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف بھارت کو ایک واضح پیغام دے چکے ہیں کہ جنگ روایتی ہوں یا غیر روایتی ہاٹ سٹارٹ ہو یا کولڈ سٹارٹ ہم تیار ہیں۔ ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں بھارت کی پہلی رجمنٹ کا سامنا پاک مسلح افواج سے ہوا تو بھارت کی پہلی رجمنٹ لڑائی کی زحمت گوارا کیا بغیر ہی بھاگ کھڑی ہوئي تھی۔ اسکے سپاہی حواس باختہ تھے۔ وہ اپنا سب جنگی سازو سامان بھی چھوڑ گئے تھے۔ جس میں اسلحہ گولہ بارود کھانے پینے کی اشیاء تک شامل تھی۔ 7 ستمبر 1965ء کی ڈیلی مرر لندن کی روپورٹ کے مطابق پاک فوج کے جوانوں کے مورال بہت بلند تھے۔ فتح کے جذبے سے سرشار تھے۔

چونڈہ کے محاذ پر بھارت نے 300 سو ٹینکوں سے یلغار کی تھی۔ اس کے مقابلے میں پاک فوج کے پاس صرف 135 ٹینک تھے۔ 1965ء کی جنگ پر برطانوی اخبار کے نامہ نگار الفریڈ کک نے اپنی روپورٹ میں لکھا ہے کہ میں نے چونڈہ کے محاذ پر دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے بڑا معرکہ دیکھا تھا۔ سیالکوٹ کے 23 میل کے طویل محاذ پر پاک فوج کے افسران نے بتایا تھا کہ پاکستان نے دشمن کے 100 ٹینک تباہ کر دئیے ہیں۔ بھارت نے سنچورین اور شرمن ٹینکوں سے حملہ کیا تھا۔ اس محاذ کا پورا علاقہ بھارتی فوجیوں کی لاشوں سے اٹا پڑا تھا۔ جس سے سٹرآنڈ کر رہی تھی۔ بقول برطانوی صحافی کے بھارت نے ایک دن میں 300 لاشوں کو سبنھالا تھا۔ برطانوی صحافی لکھتے ہیں کہ میں نے سیالکوٹ کے محاذ پر ایک پاکستانی لیفٹیننٹ کو دیکھا جو بھارت کے ایک ٹینک کمانڈر کی لاش جسکی گردن دھڑ سے جدا ہوچکی تھی۔ اسکو اپنے سپاہیوں کی مدد سے اٹھا رہا تھا۔ لیفٹیننٹ نے بتایا کہ بھارتی ٹینک کمانڈر کا تعلق ہڈسن آرمرڈ رجمنٹ سے تھا۔

پاکستان نے اسی محاذ پر بھارت کے 25 سنچوین ٹینکوں کا بھرکس نکال دیا تھا۔ اور سیالکوٹ کے محاذ پر بھارت کے پانچ ہزار فوجی مارے گئے تھے۔ یہ رپورٹ جنگ ستمبر کی کتاب فلیش بیک سے لی گئی ہیں۔ ستمبر 1965ء کی جنگ میں پاک مسلح افواج نے جس دلیری شجاعت سے دشمن کے دانت کھٹے کیے اور اس مثال کو تاریخ میں فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اور اس کو سنہرے حرف میں تاریخ میں لکھا جا چکا ہے۔ پاک فضائیہ بھارت کے جنگی جہازوں کا غرور خاک میں ملا چکی تھی۔ صبح ہوتے ہی عوام سڑکوں پر نکل آتی آنکھیں اٹھا اٹھا کر پاک فضائيہ کے جنگی جہازوں کو دیکھتے اور نعرہ تکبیر اللہ اکبر کی صدائيں بلند ہوتی۔ رٹدیو پر حفاظتی تدبیر کے اعلانات کیے جاتے۔ جنگی ترانے نشر کیے جاتے جو قوم کے جوش و جذبے کو بیدار کررہے تھے۔ انہی قومی ترانوں نے وطن سے محبت کی ایک آگ بھڑکا رکھی تھی۔ انہی میں ایک قومی ترانہ جنگ کھیڈ نئیں ہوندی زنانیاں دی مہاراج اہیہ کھیڈ تلوار دی اے جس سے دشمن حواس باختہ تھا۔ جنگ کے پہلے تین دن میں جس طرح ہماری پاک آرمی نے دشمن پر لرزہ طاری کیا تھا۔ اسکی مثال نہیں ملتی۔ لاہور کے جم خانے میں فتح کا جشن منانے والوں کے خوابوں کو چکنا چور کردیا گیا تھا۔ پاک فضائیہ دشمن کے جہازوں کو پاش پاش کررہی تھی۔ پاک فوج کے جوان بہادری کے ساتھ دشمنوں کو جہنم واصل کررہے تھے۔

جنگ ستمبر میں قوم کا ہر فرد اپنے فرائض ایسے انجام دے رہا تھا۔ جیسے خود محاذ جنگ پر ہوں۔ ہر شہری وطن عزیز کی فتح کو اپنی فتح سمجھتا تھا۔ اور جنگ ستمبر میں نہ صرف مرد بلکہ عورتیں بچے جوان لڑکے لڑکیاں بوڑھے ہر فرد اپنی اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے ادا کررہا تھا۔ خبریں اور قومی ترانے نشر کرنے کے فرائض ریڈیو پاکستان ادا کررہا تھا۔ ملک کے گلو کار شاعر اور موسیقار ریڈو پاکستان میں ایسے حاضر رہتے جیسے فوجی جوان اپنی ڈیوٹیوں پر ہوتے ہیں۔ وہاں بیٹھ کر ترانے لکھے جاتے دھنیں ترتیب دی جاتی پھر آن ائر کیے جاتے۔ جو کام ماضی میں جنگی محاذ پر تلواروں کو صیقل کرتی تھی۔ مادر وطن میں یہ کام قومی ترانے کررہے تھے۔ جنگ ستمبر میں ریڈیو پاکستان نے تاریخ ساز نا قابل فراموش کردار ادا کیا تھا۔ سوشل میڈیا جیسی بے باک سہولتیں موجود نہیں تھی۔ مانا کہ آج سوشل میڈیا نے عوام کو شعور دلایا ہے۔ مگر دوسری جانب عوام میں بے راہ روی کو بھی فروغ دیا ہے۔ خاص طور پر نو جوان نسل کو۔

قیام پاکستان سے لے کر آج تک مادر وطن کے لیے جانوں کے نذرانے پیش کرنے والوں کی داستانے تاریخ میں بھری پڑی ہیں۔ قیام پاکستان کے وقت قیام کے بعد سن 1965ء 1971 اور اب گذشتہ کئی سالوں سے خارجی دہشت گردوں کے خلاف ہماری مسلح افواج جس شجاعت اور دلیری سے لڑ رہی ہیں۔ پوری دنیا میں اسکی مثال نہیں ملتی۔ دنیا جانتی ہیں۔ 1964ء سن 71 میں دشمن نے منہ کی کھائی۔ اور اب خارجی دہشت گرد بھی اپنے منہ کی کھا رہے ہیں۔ ان خارجیوں کا مذہب اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ دین اسلام کا لبادہ اوڑھ کر معصوم بے گناہ مسلم کا قتل عام کررہے ہیں۔ سانحہ پشاور میں ہمارے ننھے منے پھولوں نے خارجیوں کے آگے سر جھکانے کے بجائے جام شہادت نوش کیا۔ مگر حق سے منہ نہیں موڑا۔ ہماری مسلح افواج نے ان خارجیوں کو منطقی انجام کو پہنچایا۔ اسکے بعد انہی خارجیوں نے اپنی بزدلانہ کارروائي کرکے پشاور میں پاک فضائيہ کے بڈھ بیر کیمپ پر 16 نمازیوں پاک فوج کے افسران اور جوانوں سمیت 29 افراد کو شہید کیا۔ جوابی حملے میں مسلح افواج کے کمانڈروں نے ان خارجیوں کو جہنم واصل کردیا۔ مسلح افواج کی بر وقت کارروائي کی بدولت خارجی دہشت گرد اپنے ہدف تک پہنچنے میں نا کام رہے۔ کوئيک ری ایکشن فورس کے جوانوں نے خارجیوں کو آگے بڑھنے سے روکے رکھے انکے نا پاک عزائم کو خاک میں ملا دیا گیا۔ اس حملے کی منصوبہ بندی افغانستان میں کی گئی۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ پاکستان میں دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو ختم کردیا گیا ہے۔ وقت کا تقاضہ ہے اب دہشت گردوں کو سپورٹ کرنے والوں کے خلاف بھی ایکشن لینا چاہیے۔ افغان باڈر پر مضبوط باڑ قائم کی جائے۔ 1965ء کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جو قربانیاں عوام اور مسلح افواج نے دی ہیں۔ وہ کسی طور کم نہیں ہے۔ الحمد اللہ ہم ستمبر ء1965 میں بھی سر خرو تھے۔ اور اب بھی سر خرو ہیں۔ ایک بار پھر پشاور بڈھ بیر حملے میں جس شجاعت اور بہادری کی نئی مثال شہید اسفندر یار ائیر فورس کے جونئیر ٹیکنیشن اور دیگر جوانوں نے جواں مردی سے لڑتے ہوئے قائم کردی اور جام شہادت نوش کیا اسکی مثال نہیں ملتی۔ 6 ستمبر کی تاریخ کو ہر سال دہرایا جاتا ہے۔ اب 16 دسمبر 2014 کی تاریخ کو دہرایا جائے گا۔ یہ ہماری نو جوان نسلوں کے لیے واضح پیغام ہیں کہ ملک پر جان قربان کرنے والوں سے یہ ملک بھرا پڑا ہے۔ ملک پر جان نثار کرنے والوں کی اس ملک میں کمی نہیں۔
اقبال نے کہا ہے
ان شہیدوں کی دیت اہل کلیسا سے نہ مانگ
قدرو و قیمت میں ہے خوں جن کا حرم سے بڑھ کر

Mohsin Shaikh
About the Author: Mohsin Shaikh Read More Articles by Mohsin Shaikh: 69 Articles with 55393 views I am write columnist and blogs and wordpress web development. My personal website and blogs other iteam.
www.momicollection.com
.. View More