جنرل اسمبلی سے نوازشریف کاخطاب۔ مسئلہ کشمیر،دہشت گردی اورعالمی برادری

وزیراعظم نوازشریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب، مختلف فورمزپرگفتگواوراہم شخصیات سے ملاقاتوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار،مسئلہ کشمیرکے منصفانہ حل پرزوراوربھارت کی ناپسندیدہ کی کارروائیوں بارے جس جرات کے ساتھ اپنامقدمہ پیش کیا ہے۔ اس سے پاکستانی قوم سے فخرسے بلندہوگئے ہیں۔امریکہ روانگی سے قبل لندن میں میڈیاسے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کشمیرسمیت ہرمعاملے پرمذاکرات کرے۔جتنی جلدمسئلہ حل ہوگا دونوں ملکوں کے لیے اتناہی اچھا ہے ہمسائے تبدیل نہیں کیے جاسکتے۔بھارت کواچھے پڑوسیوں کی طرح رہناچاہیے ۔امن کے لیے افغانستان سے مل کرکوشش کریں گے۔پاکستان ایک ذمہ دارملک ہے اورخطے میں اپناکرداراداکررہاہے خارجہ پالیسی میں متعددتبدیلیاں کی ہیں جس کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ۰۷ویں اجلاس میں شرکت کے لیے جاتے ہوئے لندن میں قیام کے دوران برطانوی وزیراعظم سے ملاقات میں وزیراعظم نوازشریف نے برطانوی وزیراعظم کولائن آف کنٹرول پربھارتی جارحیت کے حوالے سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان تمام ممالک کے ساتھ معمول کے خوشگوارتعلقات کی بحالی چاہتا ہے۔ان کاکہناتھا کہ ہم امن کے لیے اٹھنے والے ہرمثبت اقدام کی حمایت کرتے ہیں۔برطانوی وزیراعظم نے پاک فضائیہ کے بیس پرحملہ پرافسوس کااظہاراورپرامن ہمسائیگی کے لیے پاکستان کی پالیسیوں کاخیرمقدم کرتے ہوئے شدت پسندی اوردہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردارکی تعریف کی۔خبررساں ایجنسی این این آئی کے مطابق نوازشریف نے بھارتی خفیہ ایجنسی راکی جانب سے پاکستان میں انتشارپھیلانے کے لیے کی جانے والی فنڈنگ کے معاملات کوبھی اٹھایا۔امریکہ میں وزیراعظم نے اپنے سویڈش ہم منصب کودہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی کامیابیوں کے بارے میں بتایا۔وزیراعظم نوازشریف نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون پرزوردیا کہ وہ مسئلہ کشمیرحل کرانے میں کرداراداکریں۔اس مقصدکے لیے کشمیرمیں رائے شماری کرائی جائے اوراس سلسلے میں سلامتی کونسل کی قراردادوں پرعملدرآمدکرایاجائے۔بان کی مون سے ملاقات میں وزیراعظم نے پاکستان اوربھارت کے درمیان کشیدگی کامعاملہ بھی اٹھایااورانہیں کنٹرول لائن اورورکنگ باؤنڈری پربھارت کی طرف سے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیوں سے بھی آگاہ کیا۔انہوں نے سیکرٹری جنرل پرزوردیا کہ وہ خلاف ورزیاں بندکرانے میں اپناکرداراداکریں۔نوازشریف نے واضح کیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ پاکستان کی پہلی ترجیح ہے اوروہ افغانستان کے ساتھ نئے تعلقات استوارکرناچاہتا ہے۔افغان حکومت کہے توپاکستان افغانستان میں امن کے عمل میں مددکرنے کوتیارہے۔بان کی مون نے پاکستان اوربھارت کے درمیان کشیدگی پرتشویش کااظہارکرتے ہوئے کہا کہ وہ دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کرانے کے لیے تیارہیں۔انہوں نے عالمی امن میں کرداراداکرنے پرپاکستان کے امن مشنزکوخراج تحسین پیش کیا۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نوازشریف کاکہناتھا کہ چارنکاتی فارمولے کے تحت لائن آف کنٹرول پرمکمل فائربندی کی جائے،طاقت کے استعمال کی دھمکیاں نہ دی جائیں،کشمیرسے فوجوں کانکالاجائے،سیاچن کوخالی کیاجائے۔وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں تخریب کاری کے پیچھے بھارتی خفیہ ادارے ہیں۔ہم پرامن ہمسائیگی کی پالیسی پرعمل پیراہیں۔بھارت کے ساتھ تعلقات کے لیے متعددبارکوششیں کیں۔بھارت سے جامع مذاکرات کشمیراورقیام امن کے لیے شروع ہوئے تھے۔ہمارااولین ہمسایہ خطے اورپاکستان میں امن نہیں چاہتا۔لائن آف کنٹرول پربھارتی کشیدگی جارحیت بڑھارہی ہے۔سرحدی کشیدگی روکنے کے لیے اقوام متحدہ کے مبصرین کومزیدمضبوط بناناچاہیے۔کچھ ممالک نے عوام کے حق خودارادیت کوکچل رکھا ہے۔کشمیربنیادی مسئلہ ہے جس کوحل ہوناچاہیے۔یہ مسئلہ ۷۴۹۱ء سے حل طلب ہے۔مسئلہ کشمیرپراقوام متحدہ کی قراردادیں عملدرآمدکی منتظرہیں۔قراردادوں پرعملدرآمداورمسئلہ کشمیرحل نہ ہونااقوام متحدہ کی ناکامی ہے۔کشمیریوں کی تین نسلوں کوشکستہ وعدوں اورجابرانہ اقدامات کے سواکچھ نہیں ملا۔اس مسئلہ کے حل کے لیے کشمیریوں کاشامل ہوناناگزیرہے۔کشمیری عوام کے حق خودارادیت کی حمایت کرتے ہیں۔وزیراعظم نے کہا دہشت گردی پھیل رہی ہے ۔دہشت گردی کامفہوم سمجھنے کی ضرورت ہے۔بڑی طاقتوں کے سرمیان تنازعات سے دہشت گردی بڑھ رہی ہے۔پاکستان دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے۔ہم نے دہشت گردی کے خلاف سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔ہم دنیاسے دہشت گردی کوختم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔دہشت گردی کی ہرقسم کوجڑسے اکھاڑپھینکناچاہتے ہیں۔آپریشن ضرب عضب میں دہشت گردوں کے خلاف صف آراء ہیں۔آپریشن ضرب عضب دہشت گردی کے خلاف سب سے بڑاآپریشن ہے۔دنیابھرمیں دہشت گردی کے بیانیہ کامقابلہ کرناچاہیے۔پاکستان ایک ذمہ دارایٹمی ملک ہے۔ہم ہتھیاروں کی دوڑمیں شامل ہیں اورنہ ہوناچاہتے ہیں۔تاہم اپنے اطراف تبدیل ہوتی سیکیورٹی صورت حال سے بے خبرنہیں رہ سکتے۔خطے میں ہتھیاروں میں اضافے سے بھی لاعلم نہیں رہ سکتے۔ پاک افغان تعلقات کاذکرکرتے ہوئے انہوں نے کہا ہماری حکومت کی پالیسی ہمسایوں کے ساتھ پرامن تعلقات قائم کرناہے۔افغانستان میں قیام امن کے لیے پاکستان اپناکرداراداکررہا ہے۔ہم افغانستان میں استحکام چاہتے ہیں۔پاک افغان تناؤدونوں میں سے کسی کے مفادمیں نہیں۔افغان حکومت اورطالبان کے درمیان مذاکرات تعطل کاشکارہوگئے۔پاکستان معطل شدہ مذاکرات کوبحال کرنے کی کوشش کرے گا۔نوازشریف نے کہا پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے سے خطے کوبھی فائدہ ہوگا۔ہم سیکیورٹی کونسل میں اصلاحات اوراسے زیادہ جمہوری بنانے کے حامی ہیں۔سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کی تعدادبڑھانے کاکوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ سلامتی کونسل طاقتورملکوں کاتوسیعی کلب نہیں بنایاجاناچاہیے۔لندن میں وطن واپسی پرمیڈیاسے گفتگوکرتے ہوئے وزیراعظم نوازشریف نے کہاکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطے میں قیام امن کے لیے ہماری طرف سے دی گئی تجاویزکوسراہاگیاہے۔ہم نے تجاویزپورے خلوص کے ساتھ پیش کی ہیں۔پاکستان اوربھارت کومتوازن سوچ اختیارکرنی ہوگی۔الزام تراشیوں سے قیام امن ممکن نہیں ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں بھارتی خفیہ ایجنسی رامداخلت کررہی ہے جس کے ثبوت ہمارے پاس موجودہیں اورانہیں اقوام متحدہ کے سامنے رکھاگیا ہے۔مسئلہ کشمیرکے حل تک خطے میں امن ممکن نہیں۔کشمیریوں پرکئی دہائیوں سے ظلم ہورہا ہے۔ مسائل کاحل ہماری تجاویزمیں ہے۔بھارت مذاکرات کی میزپرآج آئے یاکل راستہ یہی اختیارکرناہوگا۔بین الاقوامی سطح پربھی ہماری بات سنی جارہی ہے۔نیویارک میں اقوام متحدہ کے ۰۷ویں اجلاس کے دوران ایٹمی ہتھیاروں کے خاتمے کے حوالے سے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سیکرٹری خارجہ اعزازاحمدچوہدری نے کہا کہ پاکستان کوذاتی تحفظ اوراپنے وجودکوبرقراررکھنے کے لیے مجبوری کے تحت نیوکلیئر ہتھیاربنانے پڑے۔پاکستان جنوبی ایشیاء کے استحکام کے لیے خطے کے مرکزی مسائل بشمول کشمیرکے حل کے لیے اپنی پرخلوص کوششیں جاری رکھے گا۔پاکستان کی ایٹمی پالیسی تحمل اورذمہ داری کے اصولوں کے تحت جاری رہے گی۔جنوبی ایشیاء میں سٹرٹیجک استحکام کومحفوظ بناناپاکستان کی بقاء کے لیے ضروری تھا۔نیویارک میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مشیرخارجہ سرتاج عزیز نے کہا پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے پیچھے بھارت کاہاتھ ہے۔ورکنگ باؤنڈری اورکنٹرول لائن پرسیزفائرکی مسلسل خلاف ورزی کی جارہی ہے۔ہم مذاکرات کرناچاہتے ہیں لیکن بھارت الزام تراشی کررہا ہے۔پندرہ ممالک کوبھارتی جارحیت سے آگاہ کردیا ہے۔اوفامیں طے پایاتھا کہ تمام معاملات میں مذاکرات ہوں گے لیکن بھارتی حکومت چاہتی ہے بات چیت ان کی مرضی کے مطابق ہو۔پاکستان افغانستان میں مفاہمتی عمل کی حمایت کرتا ہے۔بھارتی وزیرخارجہ کے ترجمان وکاس سوارپ نے وزیراعظم نوازشریف کے جنرل اسمبلی سے خطاب پرردعمل ظاہرکرتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیرسے فوج نکالنامسئلے کاحل نہیں ۔مستقل امن کے لیے خطے سے دہشت گردی کاخاتمہ ضروری ہے۔اپنی جارحانہ ٹوئیٹس میں اس نے ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہ پاکستان بنیادی طوپردہشت گردی کانہیں اپنی پالیسیوں کاشکارہے۔دراصل وہ دہشت گردی کااہم ترین مددگارہے۔اس کے عدم استحکام کی وجہ بھی یہی ہے۔پڑوسیوں پرالزام تراشی کوئی حل نہیں۔پاکستان نے بھارتی وزیرخارجہ کی جنرل اسمبلی میں تقریرپراقوام متحدہ میں جمع کرائے گئے جواب میں کہا ہے کہ بھارت کوعالمی قوانین کااحترام ہے توریاستی دہشت گردی بندکرے ۔ اس کے کشمیرپرناجائزقبضے سے ایک لاکھ کشمیری شہیدہوچکے ہیں۔مذاکرات کوایک نکتے تک محدودکرناغیرسنجیدگی ہے۔بھارت فوج نکال کرکشمیری عوام کوفیصلے کاحق دے۔لبریشن فرنٹ چیئرمین یاسین ملک نے کہا ہے کہ جنوبی ایشیا کوتصادم اورجنگ سے بچانا ہے تومسئلہ کشمیرحل کرناہی پڑے گا۔مستقل اورپائیدارامن واستحکام کے لیے پاکستانی وزیراعظم نوازشریف کی جانب سے اقوام متحدہ کے اجلاس میں پیش کی گئی تجاویزمثبت اورمعقول ہیں۔سینیٹ میں وزیراعظم نوازشریف کے امن فارمولا کی حمایت میں راجہ ظفرالحق کی پیش کردہ خیرمقدمی قراردادمنظورکی گئی ہے۔جس میں وزیراعظم کے خطاب کوسراہا گیا ہے۔میرواعظ عمرفاروق نے کہا ہے کہ نوازشریف نے کشمیرپرجرات مندانہ موقف اختیارکیا۔عالمی برادری دہرامعیارترک کرے۔اقوام متحدہ کے چارٹرپرموجودنہ ہونے کے باوجودسکاٹ لینڈ، مشرقی تیموراورجنوبی سوڈان میں رائے شماری ہوسکتی ہے توکشمیرمیں کیوں نہیں۔

وزیراعظم نوازشریف، سیکرٹری خارجہ اورمشیرخارجہ نے اقوام متحدہ کے اجلاس اورمختلف فورمزسے خطابات اوراہم شخصیات سے ملاقات میں جس جرات کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے کردارکودنیاکے سامنے پیش کیاہے۔ مسئلہ کشمیرکے حل پرزوردیا ہے۔پاکستان میں عدم استحکام اوربدامنی پھیلانے پربھارت کودنیا کے سامنے بے نقاب کیا ہے۔اس پرپاکستان کاہرمحب وطن شہری اورحقائق پرنظررکھنے والاہرشخص وزیراعظم نوازشریف کوخراج تحسین پیش کررہا ہے۔ملک کے سیاسی اورمذہبی راہنماؤں نے بھی نوازشریف کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کی تعریف کی ہے۔پاکستان نے ملک میں عدم استحکام پھیلانے پربھارت کے خلاف ثبوت اقوام متحدہ کودے دیے ہیں۔پاکستان کے موقف کوعالمی برادری نے سنا توہے اورتسلیم بھی کیا ہے یانہیں۔اس کافیصلہ زبانی اقرارسے نہیں عملی اقدام سے کیاجاناچاہیے۔جنرل اسمبلی سے نوازشریف کے خطاب اوربھارت کے خلاف ثبوت پیش کیے جانے کے بعدعالمی برادری پاکستان اوربھارت کے ساتھ کیارویہ اختیارکرتی ہے۔ اس رویہ سے ہی اس کی مسئلہ کشمیر،لائن آف کنٹرول پرجنگ بندی معاہدہ کی خلاف ورزی اورپاکستان میں دہشت گردی کے خاتمہ کے سلسلے میں عالمی برادری کی سنجیدگی اوردلچسپی کاپتہ چلے گا۔وزیراعظم نوازشریف نے مسئلہ کشمیرکے حل نہ ہونے کواقوام متحدہ کی ناکامی قراردے کراقوم متحدہ کے کردارپربہت بڑا سوالیہ نشان لگادیا ہے۔یہ بات بھی غورکرنے کی ہے کہ پاکستان کے موقف کوتوسناگیا ہے اوبامااوربان کی مون سمیت کسی نے بھارت سے نہیں کہا کہ وہ ایسا کیوں کررہا ہے۔وہ ایسا کرنابندکردے۔مسئلہ کشمیرکاحل نہ ہونااقوام متحدہ کی ناکامی ہی سہی اس کے ساتھ ساتھ یہ اقوام متحدہ کی جانبداری،مسلمانوں کے مسائل اوران پرہونے والے مظالم سے نظریں چرانے اوراس کے دہرے معیاروکردارکی زندہ اورواضح مثال ہے۔

Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 394 Articles with 307538 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.