عید قرباں

عید الاضحی کا مذہبی تہوار آپس میں پیار و محبت اور ایثار و ہمدردی کا درس دیتا ہے۔ عید قربان کے موقعے پر مسلمان ایثار و قربانی کے مظاہرے کی تجدید کرتے ہیں اور اپنے مال اور اپنی خواہشات کو اللہ کی رضا پر قربان کرنے کا عہد کرتے ہیں اور ہر بار عید قرباں فلسفہ ایثار و محبت کو سمجھنے کی دعوت دیتے ہوئے ہم سے رخصت ہو جاتی ہے۔ جذبہ ایثار کے بغیر قوموں کا ترقی کرنا محال ہے۔ وہی قومیں بقا پاتی ہیں، جو باہمی ایثار و قربانی جیسے جذبات سے سرشار ہوتی ہیں۔ ہر شخص میں کسی نہ کسی درجے میں قربانی و محبت کا جذبہ پایا جاتا ہے، انسان زندگی میں مختلف قسم کے ایثار و قربانی کا عملی مظاہرہ کرتا ہے۔ کبھی اسے جسم و جان کی اور کبھی مال کی قربانی اور کبھی خواہشات کی قربانی دینی پڑتی ہے۔ عید قرباں کا مقصد بھی یہ ہے کہ جانور کی قربانی کے ساتھ اپنے نفس، اپنی روح کو احکام الٰہی کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی جائے۔

اپنی خواہشات و انانیت کو قربان کیا جائے۔ ناراضگیاں ہر گھر میں کسی نہ کسی سطح پر ہو ہی جاتی ہیں، مگر عید کا یہ دن ہم سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ اس ان کے توسط سے ہم اپنی ذاتی رنجشوں، ناراضگیوں اور ایک دوسرے کی غلطیوں و خامیوں کو نظر انداز کر کے کھلے دل سے ایک دوسرے کو گلے لگا لیں۔ اگر انسان اس مبارک موقعے پر ”انا“ کی قربانی کر لے تو نہ صرف بہت سی مشکلات سے چھٹکارہ پا سکتا ہے، بلکہ خدا کی بہت قربت بھی حاصل کر سکتا ہے، کیونکہ یہ ”انا“ ہی بہت سے مسائل کی جڑ ہے۔ اس کی وجہ سے انسان کی زندگی اجیرن ہوتی ہے۔ انانیت کا پجاری کوئی بھی شخص ہمیشہ بے چین رہتا ہے، کیونکہ اس کو ہمیشہ اپنی ناک کٹنے کی فکر دامن گیر رہتی ہے اور وہ اپنی ناک کو سلامت رکھنے کے لیے جائز ناجائز ہر طرح کے جتن کرتا ہے۔ بہت سی خونریزیاں انا کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ انا کی خاطر انسانوں کا قتل عام کیا جاتا ہے۔ ”انا“ بہت سے عزیز لوگوں کو چھین لیتی ہے۔ بہت سے رشتے ”انا“ کی بھینٹ چڑھتے ہیں۔ اس ”انا“ کی خاطر انسان خود بہت سے نقصان اٹھاتا ہے اور دوسروں کو بہت سے نقصان دیتا ہے۔ اگر عید کے مقدس تہوار پر انسان ”انا“ کی قربانی بھی کر لے تو قربانی کی حقیقی روح کو پا سکتا ہے۔

عید کے موقعے پر اخلاص کے ساتھ پسند کا جانور قربان کرنا خدا تعالیٰ کی قربت کا سبب ہے۔ اس دن اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے جتنی زیادہ قربانی کی جائے، اتنی ہی قربت حاصل ہو گی، لیکن بدقسمتی سے قربانی کے اس اہم فریضے کو محض ایک دنیاوی تہوار بنا دیا گیا ہے، جس سے اس فریضے کی ادائیگی کا مقصد پورا نہیں ہو پاتا۔ اگرچہ اچھے سے اچھے جانور کی قربانی کرنا افضل ہے، لیکن آج کل نمود و نمائش کے لیے قربانی کے انتہائی مہنگے جانوروں کی قربانی کرنا ایک فیشن بن چکا ہے۔ روح عبادت پر نمود و نمائش غالب آ گئی ہے۔ بہت سے لوگ نمود و نمائش اور تفاخر کے لیے قربانی کرتے ہیں۔ قربانی کو ایک دکھلاوا اور دولت کی نمائش بنا دیا گیا ہے۔ جس مقصد کے لیے یہ قربانی ہم پر فرض کی گئی، وہ مقصد ہم نے پس پشت ڈال دیا ہے۔ نمود و نمائش کے لیے قربانی کے انتہائی مہنگے جانوروں کی خریداری سے گریز کرنا چاہیے، کیوں کہ اس سے ایک طرف مالی طور پر کمزور لوگوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے تو دوسری جانب ریاکاری قربانی کا اجر و ثواب بھی ضایع کر دیتی ہے۔ بہت سے لوگ کئی کئی انتہائی قیمتی ایسے جانور قربانی کے لیے لے کر آتے ہیں، جن کا مقصد محض اپنے علاقے میں اپنی امیری کا چرچا کرنا ہوتا ہے۔ حالانکہ اگر وہ لوگوں کو دکھانے کی غرض سے لاکھوں میں جانور خریدنے کی بجائے کچھ کم قیمت پر جانور خرید لے اور باقی پیسوں سے کسی غریب کی ضرورت پوری کر دے تو یہ عمل خدا کے نزدیک زیادہ محبوب ہو گا۔ ایک طرف تو 20، 25 لاکھ روپے کا جانور ذبح کیا جا رہا ہوتا ہے، جب کہ دوسری جانب اسی گھر میں کام کرنے والی ملازمہ کے پاس اپنے بیٹے کی تعلیمی فیس ادا کرنے کے لیے پیسے نہیں ہوتے۔ دفتر کا چوکیدار اپنی بیوی کی ڈلیوری کے لیے کسی سے20,25 ہزار روپے قرض لیتا ہے اور پھر کئی مہینے تک اپنی تنخواہ میں سے بچا بچا کر اسے چکاتا رہتا ہے۔ یہ صاحب ”اللہ کی رضا“ کی خاطر منڈی میں سے سب سے مہنگا جانور خرید کر میڈیا کی زینت بن رہے ہوتے ہیں، جب کہ اسی کے محلے میں کتنے ہی بچے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے عید پر بھی نئے کپڑوں سے محروم رہتے ہیں۔ کتنے ہی گھرانے پائی پائی کے محتاج ہوتے ہیں، کتنی ہی بچیوں کی شادیاں پیسے نہ ہونے کی وجہ سے نہیں ہو رہی ہوتیں اور یہ سفید پوش کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلا سکتے اور نہ ہی کوئی ان کی طرف توجہ دیتا ہے۔ اگر تو کوئی شخص محض اللہ کی رضا کے لیے قربانی کرتا ہے تو یہ اس کی خوش بختی ہے اور اگر شہرت کے لیے کرتا ہے تو خدا کے نزدیک اس کا کوئی فائدہ نہیں۔

ہمارا دین غریبوں اور ناداروں کی مدد کرنے پر خصوصی زور دیتا ہے۔ عید قرباں اسی مقصد کو پورا کرنے کا بھی ایک ذریعہ ہے، لیکن بہت سے لوگ مہینوں اپنے فریج کو قربانی کے گوشت سے بھر کر رکھتے ہیں۔ ماضی میں لوگ بڑی محبت سے ایک دوسرے کے گھروں میں اہتمام کے ساتھ گوشت پہنچایا کرتے تھے، لیکن اب معاملہ جدا ہے۔ بعض گھرانوں میں خواتین صرف انھی لوگوں کے گھر گوشت بھجواتی ہیں، جہاں سے ان کے گھر گوشت آتا ہے یا پھر ایسے گھروں میں اعلیٰ قسم کا گوشت بھجوایا جاتا ہے، جہاں مطلب ہوتا ہے، حالانکہ ایسے گھرانے جو گوشت کھانے سے محروم ہوتے ہیں یا ان کی مالی حیثیت کمزور ہوتی ہے، وہاں گوشت بھجوا کر ہی صحیح معنوں میں حقِ قربانی ادا کیا جا سکتا ہے۔ صرف اپنے ہم پلہ گھرانوں سے میل جول رکھنا اور غریب رشتے داروں کو نظر انداز کرنا اس مذہبی تہوار کی اصل روح کی خلاف ورزی ہے۔

عید قرباں صرف جانور ذبح کرنے کا حکم نہیں دیتا، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ اس بات کا بھی تقاضا کرتا ہے کہ ہم اپنے اندر کی لا محدود خواہشوں کو لگام دیں اور اپنے دل میں دوسروں کے لیے گنجائش پیدا کریں۔ آج ہمارا معاشرہ آپس میں اختلافات، تعصبات اور افرا تفری اور انتشار کا شکار ہے، اپنے علاوہ کوئی کسی دوسرے کی بات تک کو تحمل و برداشت سے سننا نہیں چاہتا۔ اس کا واحد سبب ہمارے نفس کی سرکشی ہے اور یہ تہوار ہمیں اپنے نفس کو دوسروں کے لیے قربانی دینے کا درس دیتا ہے۔ عیدالاضحی ہمیں آپس میں پیار و محبت اور اتحاد و یک جہتی کے ساتھ رہنے کا درس دیتی ہے اور یہ پیغام دیتی ہے کہ سب ایک دوسرے کے حقوق کی پاس داری کریں۔ اچھے برے وقت میں کام آئیں، دوسروں کو بھی آپس کے اختلافات اور نفرتوں کو بھلانے کا درس دیں اور ایسا معاشرہ تشکیل دیں، جس کا تقاضا ہمارا دین کرتا ہے۔ ایک بار پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں عیدالضحیٰ کو بھرپور انداز سے منانے کا موقع دیا ہے۔ آئیے! ہم سب مل کر یہ عہد کریں کہ عید قرباں کی اصل روح کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 636220 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.