حرم شریف پردہشتگردانہ حملوں کی تاریخ

خانہ کعبہ دنیا بھر کے مسلمانوں کےلئے انتہائی مقدس ،بابرکت اور اہم مقام ہے جہاں ہر سال پوری دنیا سے ہر نسل،ہر فرقے اور رنگ کے مسلمان اکٹھے ہو کر فریضہ حج ادا کرتے ہیں۔جہاں لاکھوں کا مجمع ہو وہاں ذرا بدنظمی بڑے بڑے سانحات کو جنم دے دیتی ہے۔ ماضی میں بھی حج کے موقع پر منٰی میں حادثات پیش آتے رہے ہیں اور ان حادثات میں ابتک سب سے زیادہ جانی نقصان دوجولائی انیس نوے میں مچ جانے والی بگھڈر سے ہوا جس میں چودہ سو چھبیس حجاج کرام سفر آخرت پر روانہ ہوئے ۔رواں سال خطہ کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں سعودی وزارت داخلہ کے پاس ایسی اطلاعات موجود تھی کہ کچھ شرپسند عناصر دوران حج کوئی تخریب کاری کرسکتے ہیں ۔لہذا حج سے قبل ولی عہد محمد بن نائف بن عبدالعزیز نے سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے اورکسی بھی ممکنہ دہشت گرد حملے سے نمٹنے کے لیے انسداد دہشتگردی کی مشقوں کا عملی مظاہرہ بھی کیا گیا ۔ بہر کیف عازمین حج دہشتگردی سے نہیں لیکن دو مختلف حادثات کی نذر ہوئے جن میں کم بیش نو سو کے قریب قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا۔اور سیکیورٹی اور نظم وضبط کے تمام انتظامات دھرے کے دھرے رہ گئے۔

کعبہ کی عظمت کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد باری تعالٰی ہے کہ
بیشک سب میں پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کو مقرر ہوا وہ ہے جو مکہ میں ہے ۔برکت والا سارے جہان کا راہنما ۔ اس میں نشانیاں ہیں کھلی ہوئی مقام ابراہیم اور جو اس میں داخل ہوا امن والا ہو گیا۔ یعنی حکم الہی کے مطابق جو حرم میں داخل ہوگیا وہ امن کے سائے تلے آگیا۔

لیکن تاریخ شاہد ہے کہ حکم الہی کے باجود دشمنان اسلام نے اس امن والے شہر کا امن سبوتاژ کرنے کیلئے مختلف ادوار میں کوئی نہ کو ئی سازش گڑتے رہےہیں۔اللہ کا وہ گھرجوجائے امن و امان ہے، جہاں کسی جانور کو بھی مارنے کی اجازت نہیں ، جہاں گھاس اور پودے اکھاڑنا جائز نہیں،وہی مقدس مقام خطرناک دہشت گردانہ حملوں کی زد میں آیا اور اس کی حرمت و پاکیزگی کو ایک بار نہیں کئی بار پامال کیا گیا۔

تاریخ اقوام عالم کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ جب کسی قوم کی عظمت عروج پر ہوتی ہے اور اسی بیچ وہ ذلت کے دور سے بھی گذر رہی ہوتی ہے۔بنو امیہ اور بنو عباسیہ کے عہد حکومت میں جب مسلمان ساری دنیا میں ایک طاقت ور ترین قوم سمجھے جاتے تھے اور ان کے نام سے قیصران وقت کانپتے تھے ٹھیک اسی دور میں اسلام کے مقدس ترین شہر مکہ معظمہ اور مدینہ طیبہ کی حرمت پامال کی گئی اور بردار کشی کی ایسی تاریخ رچی گئی جس کی مثال عالمی تاریخ میں شاید ہی ملے۔ کلمہ اسلام پڑھنے والوں اور ایک اللہ و ایک رسول کا نام لینے والوں نے ایسی حرکات کا ارتکاب کیا جس کے تصور سے کافر کی روح بھی کانپ اٹھے۔ ایسے کئی مواقع آئے جب خانہ کعبہ پر حملے ہوئے اور حرم مقدس میں قتال وجدال ہوا۔ اس کی مختصر تاریخ پر اکتفا کرتے ہیں۔
یمن کے بادشاہ ابرہہ نے مکہ پر حملہ کیا اور خانہ کعبہ کو مسمار کردینا چاہا۔ اسے کعبہ کے تقدس سے حسد تھی کیونکہ اہل عرب یہاں حج کے لئے آتے تھے اور اس نے اپنے ملک میں ایک مندر بنایا تھا جو بہت عالیشان تھا مگر اس کی طرف کوئی بھی احترام و عقیدت سے نہیں جاتا تھا لہٰذا اسے خیال آیا کہ اگر کعبہ کو مسمار کردیا جائے تو ممکن ہے اہل عرب اس کے مندر کی طرف آنے لگیں۔ اسی خام خیالی میں وہ ہاتھیوں کے ایک لشکر عظیم کے ساتھ مکہ کی طرف بڑھا۔ جب مکہ کے قریب خیمہ زن ہوا تو اہل مکہ اپنے اپنے گھر بار چھوڑ کر شہر سے باہر چلے گئے۔ اللہ کی طرف سے کعبہ کی حفاظت کا انتظام کیا گیا اور ابابیلوں کا ایک لشکر آسمان پر نمودار ہوا۔ جس نے ابرہہ کے ساتھ ساتھ اس کا لشکر بھی تباہ و برباد کردیا۔

بنو امیہ کے حکمراں یزید بن معاویہ کو تاریخ میں ایک ظالم و جابر اور دشمن اہل بیت کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس نے نواسۂ رسول حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اوران کے اہل بیت کا نا صرف خون بہایا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس نے مکہ اور مدینہ کی حرمت کو بھی پامال کیا۔ اسی کے عہد حکومت میں اللہ کے مقدس گھر کعبہ پر پتھروں کی بارش کی گئی جس سے کعبہ کی دیواریں مخدوش ہوگئیں۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حجاز میں حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے یزیدی اقتدار کے خلاف بغاوت کا پرچم بلند کیا تو مکہ و مدینہ سمیت پورے حجاز کے لوگوں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہوئے انھیں خلیفہ تسلیم کرلیا۔ اسی دوران یزیدی لشکر مکہ پر حملہ آور ہوا اورشہر کا محاصرہ کر کے آس پاس کی پہاڑیوں پر منجنیقیں نصب کرکے خانہ کعبہ پر پتھروں کی بارش شروع کردی۔ روئی اور گندھک کے بڑے بڑے گولے بنائے گئے جن میں آگ لگاکر بیت اللہ پر پھینکا گیا۔یزیدی لشکر کی اس حرکت سے غلافِ کعبہ میں آگ لگ گئی اور کعبہ کی دیواریں جل کر سیاہ اور شکستہ ہوگئیں۔

ابھی یہ سلسلہ جاری تھا کہ یزید کی موت کی خبر آئی اور حملہ آوروں کو محاصرہ اٹھانا پڑا۔

بنو امیہ کے عہد میں ہی خانہ کعبہ پر دوبارہ حملہ کیا گیااور دوسری بار نہ صرف کعبہ کو نقصان پہنچایا گیا بلکہ حدودحرم میں قتل و غارت گری بھی کی گئی۔ حجاج بن یوسف جو کہ انتہائی ظالم و جابر فطرت کا انسان تھا ۔اس نے عین رمضان المبارک کے مہینے کعبہ کا اطراف کا محاصرہ کرکے سنگ باری شروع کردی ۔ پتھروں کی بارش اس قدر شدید تھی کہ لوگ مکہ چھوڑ چھوڑ کر بھاگنے لگے۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد مکہ معظمہ پر حجاج بن یوسف کا قبضہ ہوگیا۔ ایک روایت کے مطابق حضرت عبداللہ بن زبیر کا سر کاٹ کر اسے کعبہ کے پرنالے میں لٹکادیا گیا ۔

تاریخ اسلام میں ایک ایسے فرقے کا ذکر ملتا ہے جو حضرت محمدبن الحنفیہ کو رسول مانتا تھا اور اس نے اذان میں’’ اشہد ان محمد بن الحنفیہ رسول اللہ‘‘کا اضافہ کردیا تھا۔ اس فرقے کے لوگ صبح اور شام کو دو وقت کی نماز پڑھتے تھے اور سال میں دو دن روزے رکھتے تھے۔ ان کے یہاں شراب جائز تھی اور کھجور کے جوس کو ناجائز قرار دیتے تھے۔ انھوں نے اپنا قبلہ کعبہ کے بجائے بیت المقدس کو قرارا دے رکھا تھا۔اس فرقہ کو قرامطہ کہا جاتا تھا اور ایک زمانے میں ان کا اثر اس قدر بڑھ گیا تھا کہ کعبہ پر حملہ آور ہوگئے اور حاجیوں کے ساتھ مارپیٹ کر کے ان کے سامان کو لوٹ لیا۔ انھوں نے کعبہ کے اندر حاجیوں کو قتل کر کے ان کی لاشیں زمزم کے کنواں میں ڈال دیں، اور کعبہ کی عمارت کو توڑ ڈالا۔اس کے سردار طاہر نے حجر اسود کو گرز مارکر توڑ ڈالا اور اٹھاکر یمن لے گیا جہاں اس کی حکومت قائم ہوگئی تھی۔ وہ یہ بھی اعلان کرتا گیا کہ آئندہ حج مکہ میں نہیں یمن میں ہوا کرے گا۔ بیس سال تک حجر اسود کعبہ سے دور رہا۔کعبہ کی حالیہ تاریخ میں بھی ایک المناک سانحہ پیش آیا۔یکم محرم الحرام بامطابق بیس نومبر انیس سو اناسی میں حرم شریف پر مرتدین قابض ہونے کی وجہ چودہ دن تک طواف کعبہ معطل رہا ۔مرتدین کے حملے کے وقت حرم شریف میں ایک لاکھ کے قریب نمازی موجود تھے۔ان حملہ آوروں کا سرغنہ ستائیس سالہ محمد بن عبد اللہ قحطانی اور اس کا دست راست جہیمان بن سیف العتیبہ تھا۔ ان لوگوں نے بڑی باریک بینی سے پلاننگ کر کے کامیابی سے اسلحہ حرم شریف تک پہنچایاتھا ۔جب تمام تیاریاں مکمل ہو گئیں تو اچانک حرم کے تمام دروازے بند کر کے ان پر اپنے مسلح افراد کھڑے کر دئیے۔ایک آدمی نے عربی میں اعلان کیا کہ مہدی موعود جس کا نام محمد بن عبدا للہ ہے آ چکا ہے۔نام نہاد مہدی نے بھی مائیک پر اعلان کیا کہ میں نئی صدی کا مہدی ہوں میرے ہاتھ پر سب لوگ بیعت کرینگے۔اس گمراہ ٹولے نے مقام ابراہیم کے پاس جا کر گولیوں اور سنگینوں کے سائے میں لوگوں کو دھمکاتے ہوئے بیعت شروع کروا دی۔

سعودی فرمانروا شاہ خالد نے علماء پر مشتمل سپریم کونسل کا اجلاس فوری طور پر طلب کر لیا۔اور ان کے فتوے کی روشنی میں بیت اللہ کے تقدس کے پیش نظر بھاری اسلحہ استعمال کرنے سے گریز کرتے ہوئے ۔ مرتدین کا مکمل صفایا کرنے کے بعد دسمبر انیس سو انااسی میں دوبارہ حرم شریف کو عبادت کیلئے کھول دیا گیاا۔ اس لڑائی میں پچتھر باغی مارے گئے اورنیشنل گارڈز کے ساٹھ فوجی شہید ہوئے۔ جبکہ چار پاکستانیوں سمیت چھبیس حاجی شہید اور سینکڑوں افراد زخمی ہوئے۔اللہ ہمارے ان روحانی مراکز مکہ و مدینہ کو ہمیشہ قائم و دائم رکھے۔ اور انہیں حاسدوں کے شر سے محفوظ رکھے۔آمین
 
abad ali
About the Author: abad ali Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.