پاکستان میں تعلیم کا بحران اور الف اعلان کا کردار

سال 2010 میں جب پاکستان کے آئین میں اٹھارہویں ترمیم کی گئی تو اس وقت آئین کے آرٹیکل 25 (a) میں یہ بات واضح طور پر لکھی گئی کہ تعلیم ہر بچے کا بنیادی حق ہے یعنی ہر بچے کو مفت تعلیم فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے- لیکن بدقسمتی سے آئین کی اس شق پر اس طرح عملدرآمد نہیں ہورہا جیسا کہ ہونا چاہیے تھا اور آج بھی ہم تعلیم کے حوالے سے بحران کا شکار ہیں- “ الف اعلان “ ایک ایسا ادارہ ہے جو پاکستان کو تعلیم کے بحران سے نکالنے کے لیے کوشاں ہے اور اس سلسلے میں اپنا ایک اہم کردار ادا کررہا ہے- ہماری ویب نے الف اعلان کے نیٹ ورک کوآڈینٹر عندیل علی سے خصوصی ملاقات کی- اس ملاقات میں پاکستان میں تعلیم کے بحران کی وجوہات اور اس کے خاتمے کے حوالے سے الف اعلان کے اقدامات کے بارے میں بات کی گئی- کیا کہتے ہیں عندیل علی اس بحران کے حوالے سے آئیے آپ کو بتاتے ہیں-

الف اعلان کے نیٹ ورک کوآڈینیٹر عندیل علی اپنے ادارے کے منفرد نام کی وجہ کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ “ چونکہ ہم تعلیم کے حوالے سے کام کر رہے ہیں اس لیے ہم نے سوچا کہ نام تعلیم سے متعلق ہی ہونا چاہیے-“ الف “ حروف تہجی کا پہلا حروف ہے اور ہمارے ادارے کا نام الف سے ہی شروع ہوتا ہے جبکہ ہم پورے پاکستان میں تعلیم کا “ اعلان “ کررہے ہیں اس لیے ادارے کا نام الف اعلان رکھا گیا“-
 

image


عندیل کا کہنا ہے کہ “ ہم فروری 2013 سے کام کر رہے ہیں اور اکتوبر 2016 تک پاکستان میں کام کرتے رہیں گے- الف اعلان ایک سیاسی مہم ہے اور یہ ایک روایتی این جی او کی مانند کام نہیں کرتی“-

“ ہم سیاستدانوں٬ والدین اور تعلیم مہیا کرنے والوں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں تاکہ بچوں تک تعلیم مکمل اور درست انداز میں پہنچ سکے“-

“ ہم نے والدین کو سمجھایا ہے جن کے بچوں کے مستقبل کا سوال ہے کہ گورنمنٹ اسکول ان کے بچوں کے لیے کتنے ضروری ہیں کیونکہ ہر کوئی پرائیوٹ اسکول میں اپنے بچے کو داخل کروانے کی استطاعت نہیں رکھتا“-

“ اس کے علاوہ ان سیاستدانوں سے بھی رابطے کیے جو اپنے حلقے کی عوام سے وعدہ کرتے ہیں کہ وہ ان کا بھلا کریں گے اور ان سے ووٹ لیتے ہیں- سیاستدانوں کو پابند کیا کہ وہ اپنی عوام کو وہ سب کچھ مہیا کریں جس کا انہوں نے وعدہ کیا ہے“-

عندیل کا کہنا تھا کہ “ ہم پاکستان کے 70 اضلاع میں کام کر رہے ہیں جبکہ 35 اضلاع میں ہمارے براہ راست نیٹ ورک کوآڈینیٹر موجود ہیں- یہ نمائندے آس پاس کے اضلاح کو بھی دیکھتے ہیں اور وہاں جا کر تعلیم کے مسائل سے متعلق معلومات حاصل کرتے ہیں- اس کے علاوہ بیوروکریٹ٬ سیاستدانوں اور والدین وغیرہ سے میٹنگ بھی کرتے ہیں“-

پاکستان میں تعلیم کی صورتحال کے حوالے سے عندیل کا کہنا تھا کہ “ یہاں تعلیم کی صورتحال کوئی حوصلہ افزا نہیں ہے- پاکستان میں ڈھائی کروڑ بجے اسکول نہیں جاتے اور یہ ایک تشویشناک صورتحال ہے کیونکہ دنیا کے کئی ممالک کی کُل آبادی بھی ڈھائی کروڑ سے کم ہے“-
 

image

“ جو بچے اسکول نہیں جاتے وہ یا تو کہیں کام کر رہے ہوتے ہیں یا پھر کچھ اور- کام کرنا بھی بچوں کے لیے صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ بچے بعض اوقات ایسی محنت طلب جگہ پر کام کر رہے ہوتے ہیں جہاں ان کی خود کی زندگی کو بھی خطرہ لاحق ہوتا ہے- اس کے علاوہ ان بچوں نشو و نما بھی رک جاتی ہے“-

“ اس کے علاوہ پاکستان نے اقوام متحدہ کے ساتھ ایک ایسا چارٹرڈ بھی دستخط کر رکھا ہے جو بچوں کو ان کے تمام حقوق دینے کی بات کرتا ہے- ہم پر یہ بات لاگو ہوتی ہے کہ ہم اپنے بجوں کو تعلیم اور محفوظ ماحول فراہم کریں“-

“ اس کے علاوہ پاکستان کے آئین کی شق 25 بھی ریاست کو اس بات کا پابند بناتی ہے کہ 6 سے 16 سال کی عمر تک کے بچوں کو لازمی تعلیم دی جائے لیکن ایسا کیا نہیں جارہا بلکہ ہمارے گورنمٹ بھی اتنے نہیں ہیں جتنے کہ ہونے چاہئیں اور اس وجہ سے بھی کئی بچے اسکولوں سے باہر ہیں“-

عندیل کے مطابق جو گورنمنٹ اسکول موجود بھی ہیں ان کا انفرااسٹرکچر بھی ایسا نہیں ہے کہ بچے وہاں آرام سے تعلیم حاصل کرسکیں- کہیں جھت نہیں ہے تو کہیں چار دیواری ہی غائب ہے- اس وجہ سے بچوں کا دل اسکول میں نہیں لگتا اور یوں جو بچے اسکول جا بھی رہے ہوتے ہیں وہ بھی اسکول جانا چھوڑ دیتے ہیں-

عندیل کہتے ہیں کہ “ الف اعلان کا مقصد یہی ہے کہ بچوں کو اسکول کی جانب لایا جائے اور جو بچے اسکول چھوڑ کر جارہے ہیں انہیں بھی روکا جائے“-

“ پاکستان کے تقریباً 50 فیصد اسکول ایسے ہیں جن کا انفرا اسٹرکچر درست نہیں یا پھر ایسا نہیں ہے جیسا کہ ہونا چاہیے- تقریباً 18 فیصد ٹیچر روزانہ اسکول سے غیر حاضر ہوتے ہیں- اس غیر حاضری کی وجہ چاہے جو بھی ہو لیکن بچے پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں- دوسری جانب اگر دوسرے ٹیچر کا غیر حاضر ٹیچر کی کلاس لینا پڑے تو وہ بھی دباؤ کا شکار ہوتا ہے“-

عندیل تعلیم کے بحران کی ایک وجہ کم تعلیمی بجٹ کو قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ “ پاکستان کے ہر صوبے میں 1.8 سے 2 فیصد تک تعلیم کا بجٹ رکھا جاتا ہے جبکہ ہماری جی ڈی پی کا 4 فیصد حصہ تعلیم کے بجٹ کے طور پر مختص ہونا چاہیے“-

“ ہمارا مقصد یہ ہے کہ پاکستان میں تعلیم کے بجٹ میں اضافہ کیا جائے اور ساتھ ہی اس بجٹ کے درست استعمال کو بھی یقینی بنایا جائے“-
 

image

“ صوبائی حکومتیں جتنا بھی تعلیمی بجٹ مختص کرتی ہیں اس کا 80 سے 90 فیصد تو تنخواہوں کی مد میں ہی خرچ ہوجاتا ہے جبکہ اسکولوں کی تعمیر یا بحالی پر صرف 10 سے 15 فیصد خرچ ہوتا ہے اور اس میں بھی کئی قسم کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے- یہی وجہ ہے کہ اکثر گورنمنٹ اسکول ٹوٹ پھوٹ کا شکار یا پھر بغیر فرنیچر کے دکھائی دیتے ہیں“-

“ ہم چاہتے ہیں کہ صحیح وقت پر رقم مہیا ہو اور اتنی ہو کہ اسکول کی مرمت کی جاسکے یا پھر جہاں اسکول موجود نہیں ہیں وہاں اسکول تعمیر کیے جاسکیں“-

“ کئی جگہوں پر تو گورنمنٹ اسکول گھر سے دور ہوتے ہیں جبکہ وین وغیرہ کے اخراجات بھی صرف پرائیوٹ اسکول کے بچے ہی برداشت کرپاتے ہیں تو ایسے حالات میں بھی اکثر بچے اسکول نہیں پہنچ پاتے“-

“ اس کے علاوہ اگر بچے کو دور کے اسکول میں والدین نے پہنچانا ہے لیکن وہ دونوں بھی ملازمت پیشہ ہیں اور انہیں اپنی نوکریوں پر پہنچنا ہے تو بھی بچے کا اسکول تک پہنچنا مشکل ہوجاتا ہے“-

“ اسی لیے ہم تعلیم کے بجٹ میں اضافہ چاہتے ہیں تاکہ وہ بجٹ ٹیچر کی ٹریننگ٬ اسکولوں کی مرمت و تعمیر اور بچوں کو سہولیات فراہم کرنے کے لیے خرچ کیا جاسکے“-

“ اگر ہم صرف ایشیائی ممالک کے ہی تعلیمی بجٹ کا جائزہ لے لیں تو ہمیں نظر آئے گا کہ وہاں ملک کی جی ڈی پی کا 4 سے لے کر 8 فیصد تک کا بجٹ تعلیم پر خرچ کیا جاتا ہے- اور وہ اس معاملے میں دور اندیشی سے کام لیتے ہیں کیونکہ جب بچہ جوان ہوگا اور وہ اگر تعلیم کے بغیر ہوگا تو زیادہ سے زیادہ مزدوری ہی کرسکے گا جس سے نہ وہ اپنی زندگی بہتر بنا سکے گا٬ نہ اپنے گھر والوں کی اور نہ ہی ملک کو کوئی فائدہ پہنچا سکے گا- لیکن اگر اس کے برعکس اگر وہ نوجوان تعلیم یافتہ ہوگا تو اپنی اچھی نوکری کے ساتھ ساتھ حکومت کو بھی بہتر ٹیکس ادا کرسکے گا جس سے ملک کو بھی فائدہ ہوگا“-

عندیل کہتے ہیں کہ “ چند سال قبل برٹس کونسل نے ایک تحقیق کی تھی اور ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ان خوش قسمت ممالک میں سے ایک ہے جہاں نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے“-

“ سوچیے اگر یہی نوجوان تعلیم یافتہ ہوں تو ان کی اپنی زندگی تو بہتر انداز میں آگے بڑھے گی ہی نہیں بلکہ یہ نوجوان ملک کی تعمیر و ترقی میں بھی حصہ لے سکیں گے لیکن غیر تعلیم یافتہ ہونے کی صورت میں ان کی اپنی زندگی تنگ ہونے کے علاوہ ملک کے لیے کئی مسائل پیدا ہوں گے“-

“ لازمی بات ہے کہ جب نوجوان تعلیم یافتہ نہیں ہوگا تو وہ بیروزگار بھی ہوگا- بیروزگاری کا براہ راست تعلق غربت سے ہوتا ہے اور پھر یہ نوجوان غربت کی وجہ سے جرائم کی جانب بھی راغب ہوسکتے ہیں“-

“ اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ تعلیم پر کام کیا جائے کیونکہ ملک کی ترقی کا راز تعلیم میں پنہاں ہے- اور ہم اس پر کام کر رہے ہیں کہ کسی طرح پاکستان میں تعلیم کی صورتحال کو بہتر بنایا جائے“-

عندیل کہتے ہیں کہ “ ہم لوگوں کی آواز کو حکامِ بالا تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں- ہم جب بھی کوئی نئی مہم شروع کرتے ہیں تو لوگوں سے کہتے ہیں کہ آپ ہم سے ایس ایم ایس یا ای میل کے ذریعے رابطہ کرسکتے ہیں اور ہم ان لوگوں کے خطوط کو آگے تک پہنچاتے ہیں“-

“ جیسے کہ ہم نے اپنی حالیہ مہم کا آغاز بجٹ کے دوران کیا تھا اور اس میں ہم نے لوگوں سے کہا کہ وہ وفاقی وزیرِ خزانہ کے نام خط لکھیں کہ آپ جی ڈی پی کا 4 فیصد تعلیم کے لیے مختص کریں“-

“ ہم نے اپنی ویب سے سائٹ ایک فارم تخلیق کیا اور لوگوں سے کہا کہ وہ یہاں موجود خط پڑھیں اور اگر انہیں درست لگتا ہے تو اپنے ای میل ایڈریس کے ساتھ اس فارم کو Approve کریں- ہم اس طرح سے لوگوں کی مدد کرتے ہیں- اس کے علاوہ جہاں انٹرنیٹ کی سہولت موجود نہیں وہاں ہم خود جا کر لوگوں سے دستخط لیتے ہیں اور پھر ان کو آگے بھیجتے ہیں“-

الف اعلان کا قوم کو پیغام:
آپ کو چاہیے کہ آپ اپنے منتخب کردہ نمائندوں ایم این اے یا ایم پی اے کے پاس ضرور جائیں اور ان سے بات کریں٬ وہ آپ کی بات ضرور سنیں گے اور یہ ویسے بھی ایک بہترین موقع ہے کیونکہ بلدیاتی الیکشن قریب ہیں- آپ ان نمائندوں سے نوکری وغیرہ طلب کرنے کے بجائے اپنے بچوں کے لیے تعلیم مانگیں- اگر آپ کا بچہ تعلیم یافتہ ہوگا تو وہ اپنا مستقبل خود ہی سنوار لے گا- اس کے علاوہ خود بھی لوگوں تک تعلیم پہنچائیں اور کم از کم کسی ایک انسان کو ضرور تعلیم یافتہ بنائیں اور پاکستان کا ایک ذمہ دار شہری بنیں-
 
 

YOU MAY ALSO LIKE:

Hamari Web team has recently visited Alif Ailaan team to conduct an interview with Network Coordinator Mr. Andeel Ali. The organization works to improve the standards of education in the country. They motivate parents to send their children to schools and play their part to improve the standards of education in the country.