انتخابی دھاندلی ،عمران خان اور طاہر القادری

بات کا آغاز 23دسمبر2012سے کرتے ہیں جب ڈاکٹر طاہر القادری تقریباً 7سال کے بعد پاکستان واپس آئے اور مینار پاکستان میں تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ کر دکھایا ،مجھ سمیت عوام کی ایک کثیر تعداد ان سے کسی مذہبی و اصلاحی تقریر کی توقع کر رہے تھے مگر جب انہوں نے ’’نظام انتخاب اور حقیقی جمہوریت کے قیام‘‘پر آئین کو سامنے رکھ کر حکومتی ڈھانچے پر انتہائی جامع اور دقیق تنقید کی تو جہاں عام ذہنوں کیلئے یہ بات غیرمعمولی نظر آئی وہیں حکومتی مشینری کو بھی طاہر القادری کی ذاتی شخصیت کے خلاف ایکٹو کیا گیا ،الیکٹرانک ،پرنٹ اور سوشل میڈیا پر طاہر القادری کی ذات پر پے در پے حملے کرنے والے ان کے سیاسی و مذہبی ناقدین اور مسلم لیگ ن اور دیگر جماعتوں کے Paid Workersکو انکے حلیے اور Dual Nationality کے سوا کچھ ایسی ٹوس اور کڑی خرابی نظر نہ آئی کیونکہ ان کا ہر جملہ ملک پاکستان کے آئین سے مطابقت رکھتا تھا اور ان کی ہر ڈیمانڈ ملکی سلامتی اور عوامی خوشحالی کی ضامن تھی مگر جب حکومت نے ان کے مطالبات کو تسلیم کرنے کیلئے کسی قسم کی لچک نہ دکھائی تو طاہر القادری نے14جنوری 2013کو دھرنے کا اعلان کر دیا پاکستان کی تاریخ کا وہ دھرنا بلا شبہ ایک یادگار دھرنا تھا جس میں ہزاروں عوام سمیت شریک ڈاکٹر طاہر القادری کے مطالبات کی Hit Listپر الیکشن کمیشن آف پاکستان تھا۔طاہر القادری شاید اس بات کو سمجھ اور پرکھ چکے تھے کہ افغانستان سے اربوں ڈالر کی Natoسپلائی نکالنے کا واحد راستہ پاکستان ہے اس لئے عالمی طاقتیں اور امریکہ بہادر کی یہ کوشش ہوگی کہ پاکستان میں ایک ’’طالبان دوست‘‘حکومت کے قیام کو یقینی بنا یا جائے ،اور اس حوالے سے عالمی و قومی ۔۔۔سب کی آنکھوں کا تارا تھا ۔۔۔الیکشن کمیشن آف پاکستان اور جب طاہر القادری نے حکومتی مک مکا کی سب سے بڑی رگ پر پاؤں رکھا اور کہہ ڈالا کہ الیکشن کمیشن کیسے شفاف انتخابات کا متحمل ہوسکتا ہے کہ جب اس کی اپنی تشکیل ہی آئین کے سراسر خلاف ہوئی ہے ۔تب جاکر مقتدر پارٹیوں کو احساس ہوا کہ اب طاہر القادری ان کیلئے وبا ل جان ثابت ہوسکتے ہیں ۔اور یہ بات حقیقت تھی کہ اگر طاہر القادری کو چند دن اور اسلام آباد کی کڑاکے کی سردی اور یخ بستہ ہواؤں میں بیٹھنے دیا جاتا تو وہ پچھلے 70سال سے مسلط فرسودہ اور جاگیردارانہ نظام کیلئے خطرناک ترین حد تک عوامی پاور ثابت ہوسکتے تھے۔اس سے لئے ان کے تمام مطالبات کو تسلیم کر لیاگیا اور ایک مذاکراتی ٹیم ان کے پاس تشریف لائی چونکہ طاہر القادری صاحب بذات خود امن کو فروغ دینے والے شخص ہیں اس لئے بجائے انار کی اور انتشار بڑھانے کے انہوں نے مذاکراتی ٹیم کو ویلکم کیا ۔اور یوں دھرنا اپنے اختتام کو پہنچا ،مگر بعد ازاں تمام ممبران اپنے روایتی عادت’’دھوکے‘‘پر قائم رہے اور یوں شفاف مینڈیٹ عوامی مقدر سے Deleteکر دیا گیا اور جیسا کہ ڈاکٹر صاحب نے کہا تھا کہ تاریخ کی بدترین دھاندلی اور متنازعہ ترین الیکشن وجود میں آئے ، بالآخر نواز شریف صاحب کے اربوں کے خرچے کے بعد ان کی حکومت قائم ہوئی ۔اس ساری گفتگو کا مقصد دراصل موجودہ سیاسی صورت حال کی سمری پر تبصرہ کرنا ہے ۔این اے125اور این اے122میں تحریک انصاف کی کامیابی کے بعداین اے154کا فیصلہ آیا ،مسلم لیگ ن کے امیدوار صدیق خان بلوچ نے86ہزار177ووٹ لیکر تحریک انصاف کے سب سے بڑے ڈونر جہانگیر خان ترین جنہوں نے75ہزار955ووٹ حاصل کیے تھے کو شکست دی تھی ۔مسلم لیگ ن کے ستارے شاید شدید گردش میں ہیں کہ تیسرے حلقے میں بھی ان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا،منظم دھاندلی ثابت ہوئی ۔اس کا اندازہ اسی سے لگا لیں کہ کل ووٹوں کی تعداد 2لاکھ 18ہزار56تھی ۔جن میں سے20ہزار60غیر تصدیق شدہ ووٹ برآمد ہوئے ۔587ووٹوں کی کاؤنٹر رسیدوں پر انگوٹھے کے نشانات ہی نہیں تھے ۔حتیٰ کہ 121ووٹ حلقے کے ہی نہیں تھے 33فیصدووٹوں کی ہی تصدیق ہوسکی ،مسلم لیگ ن کے خلاف اپنی شاندار جیت پر عمران خان صاحب کی عزت دوبارہ بحال ہوئی جو کہ جوڈیشنل کمیشن کے فیصلے کے بعد مجذوبی کی سی کیفیت میں تھی ۔آج خان صاحب الیکشن کمیشن کے جن چار اراکین کے استعفوں کا مطالبہ کر رہے ہیں اور انتخابی دھاندلی اور حکومتی مک مکا پر تقریرں کر رہے ہیں وہ طاہر القادری کی ان باتوں کی ایگزیکٹ وائس کاپی لگتی ہیں جو وہ لانگ مارچ2013کے دوران کر رہے تھے ۔عمران خان صاحب نے کچھ روز قبل الیکشن کمیشن کو انتخابی دھاندلی کے نکات پر مبنی ایک خط لکھا تھا جس کا جواب انہوں نے بروز 27اگست 2015کو کچھ اس انداز میں دیا ’’الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے اور وہ کسی سیاسی پارٹی کے سامنے جوابدہ نہیں‘‘اس جواب کے بعد عمران خان صاحب کا ردعمل سامنے آیا وہ حکومت کیلئے ایک بار پھر ٹف ٹائم ثابت ہوسکتا ہے ۔خان صاحب کا کہناہے کہ اب وہ ساری پارٹیوں کو اکٹھا کر کے حکومت کے پاس جاکر مڈ ٹرم الیکشن کا مطالبہ کریں گے اور اگر حکومت نے حامی نہ بھری تو پھر سے دھرنا مہم کا اعلان کر یں گے ۔میں بطور ایک پاکستانی ان کی اس تحریک کے سوفیصد حق میں ہوں یہ بات اب عوام کو سمجھنی چاہییئے کہ جہاں عمران خان جیسے شخص کو انصاف اربوں روپے لگا کر بھی ڈھائی سال کی مدت اور مالی و جانی قربانیوں کے بعدملا وہاں ایک عام لاچار اور بے سہارہ پاکستانی کو انصاف کی امید کیونکر رکھنی چاہیے ؟؟عوام حکومت سے نہیں بلکہ حکومت عوام کے دم سے ہے اس لئے عوام کو اپنی طاقت کا اندازہ ہونا چاہیئے ۔مگر آخر میں میراعمران خان صاحب سے ایک سوال بھی ہے ؟جس الیکشن کمیشن کی آئینی تشکیل کیلئے طاہر القادری نے2013کے لانگ مارچ میں بارہا آپ کا ۔۔۔۔صرف آپ کا نام لیکر آپ کو شرکت کی دعوت دی ۔مگر اس وقت آپ کو یہ دھرنا تحریک جمہوریت کی ڈیل ریل منٹ اور آئین کے خلاف لگی آج کس بنیاد پر وہ تحریک آئینی و جمہوری تقدس کی ضامن بن گئی ؟؟یا پھر ہم یہ سمجھیں کہ جو بات آپ کو آج سمجھ آئی طاہر القادری وہ بات آج سے 2سال پہلے سمجھ چکے تھے ۔
Muhammad Shehroz
About the Author: Muhammad Shehroz Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.