راجہ رحمت صاحب کو اﷲ جلد صحتیاب کرے ،آمین

راجہ رحمت ۔۔دل کے راجہ اور اپنے چاہنے والوں کی محبت کا مرکزراجہ رحمت صاحب پچھلے کافی عرصے سے علیل ہیں ،اب سے دو تین ماہ قبل میں جب سعید احمد صدیقی بھائی کے ساتھ عیادت کے لیے ان کے گھر گیا تو وہ بستر پر لیٹے ہوئے تھے اور یورین پاس کرنے کے لیے تھیلی لگی ہوئی ،چہرے پر بیماری کی تکلیف اور نقاہت نمایاں تھی لیکن اس کے باوجود انھوں نے لیٹے لیٹے اپنی روایتی ہلکی سی قہقہیوں والی مسکراہٹ سے استقبال کیا اور بڑی گرم جوشی سے مصافحہ کیا ۔انھوں نے کہا کہ آغا خان میں ایک ڈاکٹر سے وقت طے ہے مجھے ابھی جانا ہے بچہ گاڑی لے کر آتا ہو گا ،ہم نے کہا آپ جایے ہم تو صرف آپ کو دیکھنے آئے تھے انھوں نے روایتی اسٹائل میں کہا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ لوگ چائے پئے بغیر چلے جائیں اور پھر اپنے بچے سے کہا کہ جاؤ چائے بناکر لاؤ ۔ہم نے کہا راجہ صاحب ساری زندگی آپ کی چائے پی ہے آئندہ بھی ان شاء اﷲ پیتے رہیں گے ۔ہم تو بس آپ سے ملنے ،عیادت کرنے آپ سے دعائیں لینے آئے تھے ،آپ اطمنان سے اسپتال جائیں ہم پھر آجائیں گے ،انھوں نے کہا نہیں ابھی تو گاڑی آنے والی جب تک چائے بھی آجائے گی لیکن چونکہ ہمارا وقت ہورہا ہے اس لیے جیسے ہی کار آئے گی میں آپ لوگوں سے پیشگی اجازت لے کر چلا جاؤں گا لیکن آپ چائے پی کر جایے گا ۔اتفاق سے چائے اور راجہ صاحب کی گاڑی ایک ساتھ آئی اپنے بیڈ سے وہیل چیئرکے ذریعے کار تک پہنچنے اور پھر کار میں میٹھنے میں جتنا وقت لگا اتنے ہی وقت اپنی چائے ختم کر کے ہم نے راجہ صاحب کو اسپتال کے لیے رخصت کیا اور پھر خود بھی ان کے گھر کے کارکنوں سے ہاتھ ملا کر واپس ہو لیے۔

پچھلے دنوں اخبار میں ان کے دعائے صحت کی اپیل شائع ہوئی توپھر مجھے یاد آیا کہ میں نے راجہ صاحب کے بارے کچھ لکھنے کا سوچا تھا لیکن مصروفیت میں بھول گیا بہر حال کسی دوست یا جان پہچان کے کسی فرد کی بائیو گرافی لکھنا آسان کام نہیں بہت زیادہ تعریف کرنا بھی لکھنے والے کو مشکوک بناتا ہے اور تنقید کی جائے تو جس پر لکھا جارہا ہے اس کی پوزیشن متاثر ہوتی ہے اسی لیے کسی شخصیت کے بارے میں تنقید اور تعریف میں توازن قائم رکھنا بہت ضروری ہے ۔1970 کے عشرے میں جب جماعت سے عملی وابستگی ہوئی اس وقت ہی سے جماعت کے حلقوں میں راجہ رحمت صاحب کا نام سننے کو ملا ۔ہم جب ان کی عیادت کرکے نکل رہے تھے تو جناب سعید صدیقی بھائی نے بتایاکہ میں اس گھر میں پہلی بار اب سے 45برس قبل اپنے والد صاحب کے ساتھ آیا تھا ،اور اس گھر میں پروفیسر غفور صاحب کا انتخابی دفتر بنا تھا ۔ظاہر ہے اس سے بہت پہلے سے راجہ صاحب کا جماعت سے تعلق قائم ہوگا ۔جماعتی حلقوں میں جب پولیس تھانوں کا کوئی کام ہوتا تو ہر فرد کی زبان پر ازخود راجہ رحمت صاحب کا نام آجاتا کے راجہ صاحب کے پا س چلو ان سے یہ مسئلہ حل ہو جائے گا ۔اور یہ بات کسی درجہ میں درست بھی تھی اور اب بھی ہے لیکن اب چونکہ راجہ صاحب بستر علالت پر ہیں اس لیے اس طرح فعال تو نہیں ہو سکتے ۔

راجہ رحمت صاحب کے بارے میں میں جو کچھ لکھ رہا ہوں وہ میرے اپنے تجربات اور مشاہدات ہیں ،ضروری نہیں ہے کہ سب ساتھیوں کے ساتھ اسی طرح کا معاملہ رہا ہو،ہم جب کسی بھی کام سے راجہ صاحب کے پاس جاتے تو سب سے پہلے جو چیز میں نے محسوس کی یہ کہ وہ ہر ایک سے بڑی عزت سے ملتے ۔طاہر ریسٹورنٹ جاتے تو وہ بیٹھنے کے لیے کرسی پیش کرتے اور اگر وہاں کرسی نہ ہوتی تو منگواتے ،عزت سے بٹھانے کے بعد چائے کا آرڈر دیتے اس کے بعد پھر پوچھتے ہاں بتایے آپ لوگوں کا کیسے آنا ہوا ہم اپنا مسئلہ بتاتے وہ پھر مسئلے کی نوعیت اور حساسیت کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کرتے کہ کیا کرنا ہے اگر اسی وقت جانے کی بات ہوتی تو فوراَ چل دیتے کہیں فون کرنے کا مسئلہ ہوتا تو فون کر دیتے ،دوسرے دن چلنے کی بات ہوتی تو اپنے ہوٹل بلالیتے یا جس دفتر کی بات ہوتی اس دفتر میں کسی جگہ ملنے کاوقت طے کرلیتے اس میں سب سے اہم اور دلچسپ بات یہ ہے کہ راجہ صاحب اپنی جیب سے پیسے بھی خرچ کرتے ۔اﷲ تعالی ٰنے راجہ صاحب کو نوازا ہوا ہے اور جتنا نوازا ہے اتنا ہی دل بھی دیا ہوا ہے ۔کراچی میں محنت مزدوری سے اپنا کام شروع کرنے والے راجہ صاحب کو اﷲ تعالیٰ نے دولت بھی دی اور دریا دلی بھی دی ۔راجہ صاحب نے کراچی میں اپنا کاروبار بھی خوب چمکایا اور پھر اپنے رب سے بھی بہت نفع بخش تجارت کی ۔وہ جو اﷲ میاں نے کہا ہے کہ ہم نے مومنوں کی جان و مال جنت کے بدلے خرید لی ہے یہی سودا راجہ صاحب نے بھی کسی حد تک اپنے رب سے کیا ہے ۔ایک بات یہ بھی کہ آدمی اﷲ تبارک تعالیٰ تک اﷲ کے بندوں کے ذریعے ہی پہنچتا ہے یعنی اﷲ کی رضا حاصل کرنے کے لیے اﷲ کے بندوں کی خدمت کی جائے ،اور ایک حدیث بھی ہے کہ افضل الاشغال خدمت الناس ۔ یعنی بہترین کام لوگوں کی خدمت کرنا ہے ۔ایک اور حدیث قدسی میں اﷲ تعالی فرماتا ہے کہ جو بندہ میرے کسی بندے کے کام میں لگا رہتا ہے میں اس کے کام میں لگا رہتا ہوں ہم نے ساری زندگی راجہ صاحب کو خدا کے بندوں کی خدمت ہی کرتے دیکھا ہے ۔
اس زمانے میں ایک بات یہ بھی قابل ذکر تھی اور اب بھی کسی حد تک ہو سکتی ہے کہ آپ کراچی کے کسی تھانے میں چلے جائیں ہر پولیس والا جماعت اسلامی کے اندر راجہ صاحب کو جانتا ہے ۔ہمارے پولیس ڈپارٹمنٹ میں اکثریت صوبہ پنجاب کے لوگوں پر مشتمل ہے راجہ صاحب کا تعلق بھی پنجاب کے شہر جہلم سے ہے لیکن اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ راجہ صاحب کا تعلق چونکہ جماعت اسلامی سے ہے اس لیے ہر پولیس والا ان سے اس لیے تعلقات بنا کر رکھتا ہے کہ اگر کہ کوئی مسئلہ جماعت اسلامی کے ساتھ اٹک جائے تو راجہ صاحب کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں ۔میں جب کونسلر تھا ایک دن میں گھر سے اپنے دفتر آیا تو دیکھا کہ راجہ صاحب بیٹھے میرا انتظار کررہے ہیں میں نے کہا راجہ صاحب آپ مجھے گھر سے بلوا لیتے کہنے لگے نہیں آپ دفتر سے ابھی تو گھر آئیں ہوں گے میں نے سوچا تھوڑا انتظار ہی کر لیا جائے ان کے ساتھ لیاقت آباد تھانے کا ایک اے ایس آئی تھا جس کا کوئی مجھ سے کوئی کام تھا میں نے کہا راجہ صاحب آپ نے زحمت کی مجھے بلوا لیتے ،ارے نہیں اسی بہانے آپ کا گھر اور دفتر دیکھ لیا یہ کہہ کر انھوں نے رخصتی مصافحہ کیا اور چلے گئے ۔

ایک دفعہ ان کے ساتھ کسی تحریکی کام کے سلسلے میں سٹی کورٹ جانا ہوا تو معلوم ہوا کہ بڑے بوڑھے یہ کیوں کہہ گئے کہ کورٹ کچہری کے لیے سونے کے ہاتھ اور لوہے کے پیر چاہیے راجہ صاحب جس طرح پانی کی طرح پیسہ بہا رہے تھے اس نے تو حیران کردیا اس وقت یہ وجہ بھی معلوم ہوئی کہ راجہ صاحب کے پولیس میں اتنے جاننے والے کیسے ہیں جس عدالت میں جاتے وہاں کا پیش کار دیکھتے ہی زوردار سلام کرتا ۔جب واپس جارہے تھے تو ایک زوردار آواز آئی کے راجہ صاحب السلام علیکم ایک لڑکا جس کے ہاتھ میں ہتھکڑی لگی ہوئی تھی دو پولیس والے ساتھ تھے وہ بندہ جیل سے تاریخ پر آیا ہوا تھا راجہ صاحب نے اس سے سلام دعا کی پھر چلتے وقت اس کی جیب میں ہزار یا پانچ سو کی نوٹ ڈال دیا ،بعد میں راجہ صاحب نے بتایا کہ جب میرے پمپ پر ایک تنظیم کے لڑکوں حملہ کیا تھا تو اس کو جب پتا چلا تو یہ روز میرے پمپ پر مسلح ہو کر پہرہ دیتا کہ اب کوئی آیا تو اسے دیکھ لیں گے ۔راجہ صاحب کی خدمات اتنی ہے کہ اس کا احاطہ کرنا مشکل ہے ،آپ اخلاص کے ساتھ جماعت کا جماعت کے لوگوں کا کام کرتے تھے ۔میں نے یہ اندازہ لگایا کہ راجہ صاحب کو مولانا مودودی سے بے پناہ عشق ہے اسی لیے جماعت اسلامی کی عاشقی میں تو پوری عمر ہی گزار دی اور اسی حوالے سے جماعت اسلامی کے لوگوں سے بھی وہ محبت کرتے ہیں لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ جتنا پیار انھیں اسلامی جمعیت طلبا سے رہا ہے اور اب بھی ہے اس کا ٹھیک سے اندزہ لگانا مشکل ہے وہ سمجھتے ہیں کہ یہ نوجوان ہی اس تحریک کا سرمایہ ہیں جمعیت کے لڑکے کالج کی انتخابی مہم میں ان سے بھر پور مالی معاونت حاصل کرتے یہاں تک کے ان کی کار بھی لے جاتے اور اکثر اس کے شیشے ٹوٹے ہوئے آتے لیکن کبھی بھی راجہ صاحب کی پیشانی شکن آلود نہ ہوئی ۔
راجہ صاحب کے ساتھ کہیں جارہے ہوں راستے میں کھانے کا وقت ہو جائے تو چاہے دو افراد ہوں یا بیس لوگ ہوں وہ سب کو ساتھ لے کر کھانا کھاتے اور یہ مجال نہیں کہ کوئی اور پیسے دیدے،ایک دفعہ رجب صاحب مرحوم نے بتایاکہ ہم کسی اجتماع میں کراچی سے باہر جارہے تھے یا آرہے تھے حیدراباد کے ایک ہوٹل ہم اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے ،اسی ہوٹل میں دیکھا کہ راجہ صاحب بھی کچھ دوستوں کے ساتھ بیٹھے ہیں راجہ صاحب اور ان کے ساتھی کھا پی کر جانے لگے تو راجہ صاحب ہمارے پاس آئے اور کہا کہ آپ لوگوں کے پیسے دے دیے ہیں آپ نہ دیجئے گا ۔ایک دفعہ کسی نے پوچھا کہ راجہ صاحب آپ دن بھر جو خرچ کرتے ہیں اس کا حساب کتاب بھی رکھتے ہیں انھوں نے جواب دیا کہ جب اﷲ تعالیٰ مجھے بے حساب دے رہا ہے تو میں خرچ کرنے میں حساب کتاب کیوں رکھوں ۔

بہرحال بہت ساری باتیں ہیں جو ہم نہ لکھ سکے مختصر سے مضمون میں ساری باتوں کا احاطہ کیا بھی نہیں جاسکتا ہر انسان خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ ہوتا ہے اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ راجہ صاحب کی خوبیاں ان کی خامیوں پر حاوی ہیں جماعت میں وہ ایک عرصے تک کارکن رہے پھر حلف رکنیت بھی اٹھا لیا ہماری دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ انھیں جلد از جلد صحتیاب کرے اور ایک دفعہ پھر وہ پہلے کی طرح چاق و چوبند ہو جائیں اورہم تادیر ان کی سایہ ء شفقت کا لطف اٹھاتے رہیں۔آمین
Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 80 Articles with 50258 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.