گرداس پور سے اودھم پور تک آتنک ہی آتنک

گرداس پورحملے کے بعد جموں کشمیر کے اودھم پور میں حملہ ہوا اور ایک پاکستانی دہشت گرد کو زندہ گرفتار کرلیا گیا ہے۔ اجمل قصاب کے بعد یہ دوسرا پاکستانی دہشت گرد ہے جوگرفتار ہوا ہے۔ گرداس پور کے معاملے میں ایوانِ پارلیمان کے اندر وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ نے ایک نہایت دلچسپ بیان دیا تھا۔ انہوں نے فرمایا تھاکہ دہشت گرد سرحد پار سے آئے تھے لیکن پاکستانی انتظامیہ کو اس کا علم نہیں تھا۔ ہمارے ملک کی خفیہ ایجنسیاں غالباً نجومیوں کی مدد سے چلتی ہیں۔ اس لئےدہشت گردوں کے پکڑے یا مارے جانے یا تفتیش سے قبل ہی پتہ چل جاتا ہے کہ وہ کون ہیں ؟ کہاں سے آئے ہیں اورکس نے انہیں کس مقصد کے تحت روانہ کیا ہے؟ راجناتھ سنگھ نے بلاتحقیق پاکستانی انتظامیہ کو جو کلین چٹ دے دی اور گفت و شنید کو جاری رکھنے کا جو عندیہ دیا ہے وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مودی جی کسی صورت اپنے پاکستانی دورے کو منسوخ کرنا نہیں چاہتے ورنہ تعلقات میں کشیدگی کی خاطر یہ واقعات بہت کافی تھا۔

نیا اجمل قصاب چند گھنٹوں کے اندر اپنے تین نام بدل چکا ہے اور عمر بھی کبھی ۲۰ سال تو کبھی ۱۶ بلکہ ۲۲ سال تک ہوجاتی ہے ۔ اس کا بیان ہے کہ وہ فیصل آباد کا رہنے والا ہے۔ اس کے دوبھائی اور ایک بہن ہے ۔ لیکن اپنی آمد سے متعلق بھی وہ طرح طرح کے بیان دے رہا ہے۔ کبھی کہتا ہے گزشتہ ۱۱ دنوں سے یہاں گھوم رہا۔ کبھی کہتا ہے وہ ۵۰ دن قبل آیا تھا اور پھر بتاتا ہے اس کی آمد رمضان میں ہوئی تھی۔ اس نے اپنے آنے مقصد ہندووں کو مزہ لینے کیلئے ہلاک کرنا بتایا اور اس کی وجہ کشمیر ی روزآنہ ہونے والوں کی ہلاکت قرار دیا ۔ نام نہاد عثمان ، قاسم یا نوید نامی بہروپیہ کے بیانات اس قدر متضاد ہیں کہ فی الحال ان سے کسی نتیجہ پر پہنچ جانا جلدبازی ہوگا۔ پاکستان کے انتظامیہ نے بھی بلا کسی تحقیق و تفتیش کےاس کو پاکستانی شہری تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے ۔ اس دہشت گرد کا ساتھی نے بی ایس ایف کے دوجوانوں کو ہلاک کردیا مگر اس کے مارے جانے پر بھی اختلاف ہوگیا۔ بی ایس ایف اور سی آئی ایس ایف نے اس کی ہلاکت کا کریڈٹ اپنے اپنے جوانوں کو دیا ہے ۔ یہ ممکن تو ہے کہ ایک شخص بیک وقت دولوگوں کے ہاتھوں مارا جائے لیکن مشکل ضرور ہے۔

کیا یہ محض اتفاق ہے کہ جس دن پاکستان کے سابق اعلیٰ افسر طارق کھوسا نےڈان اخبار میں ۱۱/۲۶ کی واردات کے اندرنکتہ بہ نکتہ ہندوستان کے موقف کی بھرپور تائید کرتے ہوئے اجمل قصاب کے پاکستانی ہونے کی تصدیق کی اس کے اگلے ہی دن ایک نیا پاکستانی دہشت گرد زندہ گرفتار ہوگیا؟ نفسِ مسئلہ تک رسائی کیلئے ان تانوں بانوں کو جوڑنا بہت ضروری ہے۔ قاسم نامی گرفتار شدہ دہشت گرد کسی بڑی سازش کا حصہ ہوسکتا ہے کیونکہ صرف مزہ لینے کیلئے کوئی اپنی جان کو جوکھم میں نہیں ڈالتا۔ کوئی بعید نہیں کہ وہ ان بین الاقوامی طاقتوں کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی ہو جو یہ نہیں چاہتے کہ ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری آئے اور وزیراعظم نریندر مودی پاکستان کے دورے پر جائیں۔ ایسا چاہنے والا امریکہ بھی ہو سکتا ہے اور چین بھی۔ ایک قیاس یہ بھی ہے کہ پاکستانی فوج بھی ان تعلقات میں بہتری نہیں چاہتی اس لئے وہ بھی اس کارروائی کے پسِ پردہ ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ حزب اختلاف کو دوبارہ ایوانِ پارلیمان میں آنے پر مجبور کرنا اور داخلی مسائل کی جانب سے توجہ ہٹانے کیلئے یہ سب کیا جاسکتا ہے اور کیا جاتا رہا ہے ۔ یوم آزادی کے موقع پر کئے جانے والے خطاب کو کو چٹپٹا بنانے کا نمک مرچ کے طور بھی اس کا استعمال ہو سکتا ہے ۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کی ایک انفرادیت یہ بھی ہے کہ جب وہ اقتدار سےمحروم ہوتی ہے تو پاکستان کے خلاف خوب شور غوغا کرتی ہے اور اسے ملک کا دشمن اعظم قرار دیتی ہےلیکن اقتدار میں آتے ہی اس کا رویہ بدل جاتا ہے اور وہ دوستی کے سریلے نغمہ گانے لگتی ہے۔ بنگلہ دیش کی جنگ کے بعد ہند پاک تعلقات میں جو سردمہری آئی تھی اس کو اٹل جی نے جنتا پارٹی کی سرکار میں وزیرخارجہ بننے کے بعد گرمجوشی میں بدل دیا۔ جب اٹل جی وزیراعظم بنے تو انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان بس سروس کا آغاز کیا اور بذاتِ خود بس میں سوار ہو کر سرحد عبور کرنے کی سعادت حاصل کی۔آگے چل کرسخت گیر سمجھے جانے والے اڈوانی جی بھی اپنے آپ کوپاکستان جانے سے نہیں روک سکے اور قائد اعظم کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کی پاداش میں حزب اختلاف کی رہنمائی سے محروم کردئیے گئے ۔

مودی جی اب کی بار پاکستان جانے کیلئے پر تول رہے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ ممالک جو اپنے یہاں مودی جی کی خاطر سرخ قالین بچھاتے تھے اب ان راہوں میں کانٹے بونے میں لگ گئے ہیں ۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا مودی جی ان کانٹوں پر چل کر پاکستان کا دورہ کرسکیں گےیا حالات سے مصالحت کرکے اپنا ارادہ بدل دیں گے؟ اگر انہوں نے دورہ منسوخ کر دیا تو ہند پاک دوستی کے دشمن کامیاب ہو جائیں گے اور اس پر قائم رہے تو ان کےزعفرانی رائے دہندگان ناراض ہوجائیں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس اگنی پریکشا سے کیسے گزرتے ہیں؟ ابھی تک تو ایسا لگتا ہے کہ ان کے عزائم جوان ہیں ورنہ پاکستان کو اس کی زبان میں جواب دینے کا دعویٰ کرنے والے وزیراعظم کی پراسرار خاموشی اور وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ اودھم پور پر دئیے جانے والے بیان میں پاکستان کے ذکر کا نہ ہو ہونا چہ معنی دارد؟

گرداس پور کے حملے پر تو راجناتھ کا بیان بہت مثبت تھا۔ اودھم پور بھی انہوں تفصیلات بیان کرنے کے بعد مرنے والے جوانوں کو اعزاز و اکرام سے نوازنے اورگرفتار کرنے میں مدد کرنے والوں کی تعریف وتوصیف کے بعد انہیں تحفظ فراہم کرنے پر اکتفاء کیا۔ کانگریس یا کوئی جماعت اگراس صورتحال میں ایسا نرم رویہ اختیار کرتی اور بات چیت کو جاری رکھتی تو سنگھ پریوار اسے دیش دروہی قراردے دیتا۔ اس کی اس حرکت کو مسلمانوں کی دلجوئی بتاتا۔راجناتھ کا اودھم پور والا بیان تو بالکل سادہ تھا مگر گرداسپور کے بعدنفسِ مسئلہ سے توجہ ہٹانے کیلئے انہوں نے بڑی چالاکی کے ساتھ اپنے بیان میں یہ اضافہ کردیا تھاکہ یوپی اے سرکار نے ہندو دہشت گردی کی اصطلاح ایجاد کرکے دہشت گردی کے خلاف ہماری جنگ کو کمزور کردیا ہے۔ اس بیان کے بعد جسٹس منموہن لبراہن نے یہ اعلان کیا کہ ہندو دہشت گردی ان کی اپنی وضع کردہ اصطلاح ہے۔ بابری مسجد شہادت کی تحقیقات کیلئے حکومت نے جو کمیشن قائم کیا تھااس کی ۱۷ سالہ محنت کے بعد مرتب شدہ رپورٹ میں اسے استعمال کیا گیا تھا اور وہ اس پر اب بھی قائم ہیں۔ اس طرح گویا ایک بے سر پیر کے الزام سےکانگریس کی گلوخلاصی ہوگئی ۔دراصل مسئلہ اصطلاح کا یا اس کی ایجاد کا نہیں ہے بلکہ ہندودہشت گردی کے وجود یا عدم وجود کا ہے۔

گاندھی جی رام راجیہ کے قائل تھے اور ہے رام کہہ کر پرلوک سدھار گئے۔ ان پر گولی برسانے والا ناتھو رام گوڈسے بھی رام راجیہ کا دلدادہ تھا اور ممکن ہے اس نے دل ہی دل میں جئے شری رام کا نعرہ لگا کر گولیاں چلائی ہوں لیکن اپنی زبان پر اسے نہیں لا سکا ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنی زعفرانی دہشت گردی کو اسلام کی سبز چادر سے ڈھانپ دینا چاہتا تھا ۔ ناتھو رام گوڈسے جانتا تھا کہ ہندو دہشت گردی کیا ہے؟ اور اس کی پردہ داری کیوں ضروری ہے؟ اسی لئے اس نے مسلمان کا بھیس بدل کر یہ گھناونی حرکت کی تھی ۔ گاندھی جی کے ساتھ اگر اس وقت پونے کے رہنے والے کاکا صاحب گاڈگل موجود نہ ہوتے یا وہ ناتھو رام کو پہچان نہ پاتے تو کوئی بعید نہیں کہگوڈسے کو پاکستان سے آنے والا مجاہد اسلام قراردے دیاجاتا۔

یہ حسنِ اتفاق ہے گاندھی، گوڈسے اور گاڈگل تینوں کے نام ’گ‘ سے شروع ہوتے ہیں اس کے باوجود وہ ایک دوسرے سےیکسر مختلف تھے۔ رام راجیہ پر اتفاق کے باوجود گاندھی اور گوڈسے میں اختلاف ایک ایسی حقیقت ہے جس انکارخود راجناتھ سنگھ نہیں کرسکتے۔ ویسے محض اختلاف کرنے سے کوئی دہشت گردی کے دائرے میں نہیں آجاتا ۔ اپنے سے اختلاف کرنے والے کے ساتھ اختیار کیا جانے والا رویہ یا اقدام یہ طے کرتا ہے کہ آیا وہ دہشت گرد ہے یا نہیں ۔ مہاتماگاندھی اورقائدِ اعظم میں بھی اختلافات تھے لیکن انہوں نے ایک دوسرے کے اوپر گولیاںنہیں برسائیں۔ ڈاکٹر امبیڈکر کا بھی گاندھی جی سے شدید اختلاف تھا مگر ان دونوں نے بھی ایک دوسرے کے خلاف تشدد کا راستہ اختیار نہیں کیا ۔ اس لئے کہ ان تینوں میں سے کوئی بھی دہشت گرد نہیں تھا ۔

اس کے برعکسہندو مہا سبھا کے سربراہ وکرم ساورکر نے ناتھو رام گوڈسے اوراس کے ساتھی نارائن آپٹے کی حوصلہ افزائی کی ۔ ان دونوں کو اپنا آشیرواد دے کر گاندھی جی کا قتل کرنے کیلئے روانہ کیا اور ناتھورام گوڈسے نے یکے بعد دیگرےتین گولیوں سے بابائے قوم کا سینہ چھلنی کردیا ۔ اس لئے کہ اس کے دل میں گاندھی جی کے تئیں سخت نفرت تھی ۔ اس کااندازہ ناتھو رام کے اس بیان سے لگایا جاسکتا ہے جو اس نے آرتھر روڈ جیل میں بابوہری سنگھ نامی پولس افسرکے سامنے دیا تھا۔ اس نے کہا تھا میں چونکہ غیر فطری موت مر رہا ہوں اس لئے میری روح کو نجات نہیں ملے گی ۔ وہ دنیا میں بھٹکتی رہے گی اور میں پونر جنم میں بھی یقین رکھتا ہوں ۔ میری دعا یہ ہے کہ میرا دوبارہ جنم گاندھی جی کے ساتھ ہو اور میں انہیں اگلے جنم میں بھی گولی ماروں ۔

نفرت و عداوت کی یہ آگ جس نارواداری کو جنم دیتی ہے اس کی شدت آگے چل کر دہشت گردی کا روپ اختیار کرلیتی ہے ۔ ناتھو رام گوڈسے کی مذکورہ بیان کا موازنہ اگر یعقوب میمن کے آخری کلمات سے کیا جائے کہ جس میں اس نے اپنے پھانسی دینے والے سپاہی سے کہا تھا کہ میرا خدا جانتا ہے میں بے گناہ ہوں۔ تم اپنی ڈیوٹی کررہے ہو اس لئے میں نے تمہیں معاف کیا تو باآسانی یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ کون دہشت گرد ہے اور کون نہیں ہے؟ بدقسمتی سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر آج کل اسی نفرت کی آگ کو ذرائع ابلاغ اور سرکار ہوا دیتی ہے۔ گاندھی جی کے بہیمانہ قتل کے ۶۶ سال بعد ہندو مہاسبھا والے اتر پردیش میں میرٹھ کے قریب ایک مندر بنا کر اس میں ناتھو رام گوڈسے کی مورتی نسب کرنے کا اعلان کرتے ہیں تاکہ اس کی پوجاپاٹ کی جائے۔ ایسا کرنے والوں کو برسر اقتدار بی جے پی کے رکن پارلیمان کی حمایت بھی حاصل ہو جاتی ہے۔ کیا اس واقعہ کے بعد بھی یہ تحقیق طلب موضوع ہے کہ دہشت گردی کی پشت پناہی کون کررہا ہے اورکے خلاف کون جنگ لڑرہا ہے ؟

فرقہ وارانہ منافرت کے جس بیج کو ہندو مہا سبھا اور سنگھ پریوار نے خون پسینہ بہا کر سینچا۔ اس فصل کو پروان چڑھانے کیلئے ملک بھر میں ہندو مسلم فسادات برپا کئے گئے۔ بابری مسجد کو شہید کیا گیا اوراجمیر شریف سے لے کر مکہ مسجد تک دھماکے کروائے گئے۔راج ناتھ سنگھ جی اگر وزیرداخلہ کی حیثیت سےاپنے راج دھرم کا پالن کرنا چاہتے ہیں تو انہیں دہشت گردی کے شوشے سے نکل کر تشدد کی ذہنیت سے نبرد آزما ہونا پڑے گا ۔ یہ درست نہیں ہےکہ ہندو دہشت گردی کی اصطلاح کے سبب دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کمزوری آئی ہے بلکہ سچ تو یہ کہ زعفرانی دہشت گردوں کے منظر عام پر آنے کے سبب بی جے پی کا یہ موقف کمزور ہوا ہے کہ ’’سارے مسلمان دہشت گرد تو نہیں مگر سارے دہشت گرد مسلمان ضرور ہیں۔‘‘بی جے پی کے سامنے فی الحال سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی میں ملوث اپنے کارکنوں کوقانون کے چنگل سے بچانے کا ہے ۔

راجناتھ سنگھ جی اگر واقعی دہشت گردی کو بلالحاظ مذہب و ملت ختم کرنا چاہتے ہیں تو انہیں بابو بجرنگی، مایاکوندنانی ،اسیمانند اور سادھوی پرگیہ جیسے لوگوں کوتحفظ فراہم کرنے کے بجائے قرار واقعی سزا دلوانی ہوگی لیکن اس دورِ پرفتن میں عدل و انصاف کی خاطراپنے رائے دہندگان کو ناراض کرنے اور اپنے اقتدار کو خطرے ڈالنے کی جرأت بی جے پی اور کانگریس تو درکنار دیگر علاقائی جماعتیں بھی نہیں کرتیں۔ اس لئے یہ اعتراف کرنا ہی پڑتا ہے کہ سیکولر جمہوری نظام میں اکثریتی طبقہ کی دہشت گردی سے نجات کی کوئی صورت فی الحال موجود نہیں ہے ۔ لیکن افسوس کے لوگ اس کے آگے جاکر سوچنا ہی نہیں چاہتے ۔ اس کے متبادل پر غورہی نہیں کرتے۔ اس سیاسی نظام سے جو لوگ لمبی چوڑی توقعات وابستہ کئے بیٹھے ہیں ان سے افتخار راغب کہتا ہے ؎
لگا رکھی ہیں تم نے آس لیکن بھول بیٹھے ہو
کہ قارونی خزانے سے کسی کو کچھ نہیں ملتا
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1224552 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.