پاکستان کی شنگھائی تعاون تنظیم میں شمولیت

پاکستان اور بھارت کو شنگھائی تعاون تنظیم کی مستقل رکنیت دیدی گئی ہے۔ روس، چین، قزاقستان، کرغزستان، تاجکستان اور ازبکستان کے سربراہوں نے پاکستان اور بھارت کو تنظیم کی رکنیت دیئے جانے کی دستاویز پر دستخط کئے اور روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے بھارت اور پاکستان کو شنگھائی تعاون کونسل میں شامل کرنے کا باقاعدہ اعلان کیا۔ شنگھائی تعاون تنظیم میں پاکستان اور بھارت کی شمولیت یقینا خطے کی تاریخ میں ایک اہم ترین موڑ ہے۔ تنظیم کے اراکین نے امید ظاہر کی کہ ایران بھی جلد تنظیم کا مکمل رکن بن جائے گا لیکن اس سے قبل تہران کو اپنے جوہری پروگرام کے حوالے سے بین الاقوامی سمجھوتے پر پہنچنا ہو گا۔ صدر پیوٹن نے اپنے خطاب میں کہا کہ اس خطے کو افغانستان کی صورت حال کی وجہ سے سلامتی کے لیے خطرات درپیش ہیں کیونکہ وہاں پر دہشت گردوں کی سرگرمیوں میں کمی دیکھنے میں نہیں آ رہی۔ سربراہ اجلاس سے وزیراعظم نواز شریف نے خطاب کرتے ہوئے انتہا پسندی‘ دہشت گردی اور منشیات کی اسمگلنگ کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورت پر زوردیا۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان ہر قیمت پر انتہا پسندی کا خاتمہ چاہتا ہے ۔ ایس سی او کا فورم جنوبی ایشیا اور افغانستان میں امن و امان کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کرے گا۔ انھوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ علاقائی استحکام اقوام کی اقتصادی ترقی کے لیے بہت ضروری ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم میں شمولیت سے پاکستان اپنے مفادات کو ماسکو سے بیجنگ تک پھیلا سکتا ہے اور اس خطے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

شنگھاَئی تعاون تنظیم کی بنیاد اس وقت پڑی جب 1996ء میں چین، روس، ازبکستان اور قازقستان نے دفاعی تعاون کیلئے شنگھائی فائیو کے نام سے ایک گروپ تشکیل دیا جسے بعد ازاں شنگھائی تعاون تنظیم میں تبدیل کردیا گیا۔ کرغزستان نے 2001ء میں تنظیم میں شمولیت اختیار کی جبکہ پاکستان کو 2006ء میں تنظیم میں مبصر کا درجہ ملا۔ ایران، منگولیا اور افغانستان بھی شنگھائی تعاون تنظیم میں مبصر ہیں۔ بیلارس ،سری لنکا اور ترکی اس کے مذاکراتی پارٹنر ہیں۔شنگھائی تعاون تنظیم کے اصول بالخصوص نو آزاد ممالک اور ترقی پزیر ممالک کے لیے نہایت پرکشش ہیں جو اپنی آزادی و خود مختاری کا پرجوش انداز سے تحفظ کرتے ہیں۔اس کے منشور میں اس تنظیم کے بڑے مقاصد کی یوں تعریف کی گئی ہے کہ اس کے ذریعے باہمی اعتماد کو مستحکم بنایا جائے گا۔ رکن ممالک میں اچھے ہمسایوں جیسے دوستانہ تعلقات سیاسی امور میں موثر تعاون ،معیشت،تجارت،سائنس وٹیکنالوجی ثقافت تعلیم،توانائی، ٹرانسپورٹ اور ماحولیاتی تحفظ میں باہمی تعاون کو فروغ دیا جائے گا۔ یہ کہ تمام ممالک علاقائی امن و سلامتی و استحکام کے لیے مل جل کر کام کریں گے۔ تنظیم کے منشور میں برابری کی بنیاد پر ریاستوں میں تعلقات کو فوقیت دی گئی ہے اور عالمی امور میں بالادستی کے تصور اور جبر و استبداد کی نفی کی گئی ہے۔ یہ ایک ایسے علاقے کے قیام کی خواہش مند ہے جس میں ہم آہنگی ہو، جو شنگھائی جذبے کی روح سے مطابقت رکھتا ہو، جن کا مطمح نظر باہمی اعتماد،باہمی مفاد، مساوات، مشاورت،متنوع تہذیبوں کا احترام اور مشترکہ ترقی کے مقاصد کا حصول ہو۔ تنظیم کی توجہ زیادہ تران مسائل پر ہے جو رکن ممالک کو براہ راست متاثر کرتے ہیں۔ان میں سب سے اہمیت معاشی ترقی کو دی گئی ہے۔ ایس سی او، ان سیکیورٹی چیلنجز پر بھی توجہ دیتی ہے جن کو تین لعنتیں قرار دیا گیا اور وہ لعنتیں ہیں دہشت گردی،علیحدگی پسندی اور مذہبی انتہا پسندی۔ ایس سی او کے پرچم تلے اس کے خاتمہ کے لیے تاشقند میں علاقائی سطح پر انسداد دہشت گردی کا ڈھانچہ قائم کیا گیا ہے۔ ایک دوسرا اہم شعبہ علاقائی اقتصادی و ثقافتی تعاون کا ہے جس میں توانائی ،ذرائع نقل وحمل،انسداد دہشت گردی ،ماحولیاتی ، سماجی تحفظ میں تعاون پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کے دوسرے ممالک کو توانائی کے بحران کا سامنا ہے جبکہ وسطی ایشیائی ممالک اس سے مالا مال ہیں۔ ایس سی او کے لیے ان دونوں خطوں کوآپس میں ملانا ایک بڑا چیلنج ہو گا۔ اس وقت سے یہ تنظیم اپنے ادارہ جاتی ڈھانچہ کو فروغ دینے کے سلسلے میں ایک طویل مسافت طے کر چکی ہے اور پاکستان اور بھارت جیسے اہم ترین ممالک کی شمولیت سے یقینا یہ نہ صرف خطے بلکہ دنیا کی اہم ترین تنظیموں میں شمار ہو گئی ہے۔ نئے رکن ممالک سے رکن ممالک اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ مبصر کی حیثیت سے شامل ممالک اور ڈائیلاگ پارٹنر کو تنظیم کے ڈھانچے کے اندر رہتے ہوئے بڑے پیمانے پر عملی امور میں شامل کیا جانا چاہئے۔ پاکستان پہلے سے ہی یہ واضح کرچکا تھا کہ اس کا مفاد ایس سی او کی مکمل رکنیت کے حصول سے وابستہ ہے۔ پاکستان دراصل پہلا مبصر ملک تھا جس نے ایس سی او کی رکنیت کے لیے باقاعدہ طور پر درخواست دی۔ کیونکہ یہ اس کی خارجہ پالیسی کے بڑے مقاصد سے مطابقت رکھتی ہے۔ پاکستان کا مقصد یہ ہے کہ انتہا پسندی کو روکا جائے اور ایس سی او کے منشور کے مطابق بارڈ سیکورٹی کو بڑھا یا جائے کیو نکہ پاکستان کو انتہا پسندی اور بارڈرسیکورٹی کے دونوں طرح کے مسائل کا سامنا ہے اور وہ اس مسئلہ پر قابو پانے کے لیے ایس سی او کے رکن ممالک کے تجربات سے فائدہ اٹھائے گا۔ پاکستان مستقبل میں انسداد دہشت گردی کی مشقوں میں حصہ لینے اور انٹیلی جنس میں تعاو ن و اشتراک بڑھانے میں بھی گہری دلچسپی رکھتا ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے قیام کے سمجھوتے ،گوادر بندرگاہ کی ترقی اور ترکمانستان،افغانستان ،پاکستان بھارت(TAPI)گیس پائپ لائن علاقائی تعاون کی نمایاں مثالیں ہیں جن میں پاکستان سرگرمی سے حصہ لے رہا ہے۔

پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم کی مکمل رکنیت ملنے کے بعد علاقے میں گروپ کی سرگرمیوں میں بھر پور حصہ لینے کے قابل ہو گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایس سی او کی پالیسیاں اورپروگرامز پاکستان کے طویل المیعاد مقاصد سے ہم آہنگ ہیں۔ یہ کہنابے جانہ ہوگا کہ ایس سی او پاکستان کے لیے ایک مفید فورم ہے جس کے ذریعے وہ علاقے میں امن و استحکام کو فروغ،دہشت گردی کے خاتمہ میں مدد دے سکے گا اور مستقبل میں مضبوط اور وسیع تر تعاون پر مبنی تعلقات کے لیے دیگر رکن ممالک کے ساتھ مل کر کا م کر سکے گا۔ پاکستان کے افغانستان میں امن کے قیام میں اہم کردار اور تجارتی و توانائی کے لیے راہداری کے طور پر انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ علاقے میں طویل المیعاد استحکام کے لیے دہشت گردی اور سمگلنگ کی روک تھام کی جنگ میں بھی اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ ایس سی او کے رکن ممالک اور مبصر کا درجہ رکھنے والے ممالک کو علاقے میں استحکام بر قرار رکھنے کے لیے تجارت،صنعت،ٹیکنالوجی اور زرعی شعبوں میں باہمی تعاون پر توجہ دینا ہوگی۔ چین افغانستان میں استحکام کو یقینی بنانے کے لیے علاقائی اور عالمی کاوشوں کا ساتھ دینا چاہتا ہے اس ضمن میں پاکستان کا تعاون بھی اسے حاصل رہے گا۔ پاکستان شروع سے ہی افغانستان میں امن و استحکام کا حامی رہا ہے جس کے لیے اس کی کا وشیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ رکن ممالک اور مبصر ممالک کے لیے افغانستان میں سرمایہ کاری کے وافر مواقع ہیں۔ وہ نہ صرف کان کنی میں سرمایہ کاری کر سکتے ہیں بلکہ دوسرے شعبوں میں بھی ان کے لیے سرمایہ کاری کے امکانات روشن ہیں۔ چین ریل کے جن منصوبوں پر عمل پیرا ہے وہ ایک دن افغانستان،تاجکستان اور پاکستان کو باہم مر بو ط کر دیں گے جس سے علاقائی تجارت اور اقتصادی تعلقات کو زبردست فروغ ملے گا۔اس تناظر میں بین الاقوامی تعلقات کو وسعت دینے کے لیے جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان دوسرے ممالک سے زیادہ سے زیادہ معاشی فوائد حاصل کر کے اپنے عوام کو ترقی و خوشحالی کی منزل سے ہمکنار کر سکے۔ لیکن یہ تعلقات باہمی احترام،باہمی مفادات اور باہمی فوائد پر مبنی ہونے چاہیں۔ تنظیم کا دعویٰ ہے کہ اسے علاقائی نظام میں کردار ادا کرنے کے لیے اس اپروچ سے تحریک ملی ہے اور اس نے مستقبل کے بین الاقوامی تعلقات میں قائد انہ کردار ادا کرنے کا تہیہ کر لیا ہے۔ایس سی او کو علاقائی ضرورتوں اور صلاحیتیوں کے پیش نظر طویل المیعاد مقاصد اور پائیدار کثیر الجہتی تعاون کے حصول کے لیے بیک وقت کئی محاذوں پر سرگرم عمل ہونا پڑے گا۔ پاکستان اور بھارت کا ایس سی او کا رکن بننا خطے کی مجموعی صورتحال پر انتہائی مثبت اثرات کا حامل ہوگا۔ دونوں ممالک روس اور چین کی موجودگی میں اپنے اختلافات کو کافی حد تک منطقی انجام تک پہنچانے میں سنجیدگی اختیار کریں گے۔ خاص طور پربھارت بہت سے امور کے سلسلے میں اپنی ہٹ دھرمی سے باز رہے گا۔
Amna Malik
About the Author: Amna Malik Read More Articles by Amna Malik: 80 Articles with 68029 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.