نیک شگون: نریندرمودی کی نوازشریف سے ملاقات

روس کے شہر’ اوفا ‘میں شنگھائی تعاون کونسل کی چوٹی کانفرنس کے موقع پر وزیراعظم نریندرمودی کی ان کے پاکستانی ہم منصب نواز شریف سے 10 جولائی کوایک گھنٹہ طویل ملاقات اوراس کے بعدکا مشترکہ بیان اور مذاکرات کا سلسلہ پھرجوڑنے کا اعلان یہ اشارہ دے رہے ہیں کہ باہم تعلقات کی بہتری کی ضرورت دونوں محسوس کر رہے ہیں۔مسٹرمودی نے پاکستان سفرکادعوت نامہ بھی منظورکرلیا ہے اورآئندہ سال جانے کا عندیہ بھی ظاہرکردیا ہے۔ایسے موقعے کئی آئے جب محسوس ہوا کہ ہم ایک سنہری ڈگر پر چل پڑے ہیں، لیکن ان تضادات پر قابو پانے کی راہ نہیں ملی جو کوتاہ اندیش سیاست دانوں نے خانگی ضرورت کیلئے غیر محتاط بیانات سے اوراپنی دوکان چمکانے کیلئے ٹی وی چینلزنے سطحی مباحثوں سے پیداکردئے ہیں۔

ابھی دوطرفہ مشترکہ بیان سے نظرنہیں ہٹی تھی کہ پاکستان سے کچھ ایسے بیانات کی خبریں آئیں جن کو بنیاد بناکر ٹی وی چینلز پر نہایت غیرسنجیدہ بحثیں شروع ہوگئیں اور خیرسگالی کے اس جذبہ کو نقصان پہنچایا گیا جو اوفاملاقات سے پید اہورہا تھا۔ لیکن اچھا یہ ہوا کہ ہندستان نے فوراً ہی یہ واضح کردیا کہ اس کی غرض مشترکہ بیان سے ہے، وہ ان بیانات کا کوئی نوٹس نہیں لیگا جو بظاہر اس مشترکہ اعلانیہ کی منشاء کے خلاف ہیں۔یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا جب ہند، پاک کے رشتوں کو سدھارنے کی بات چلی اوراس کو سبوتاژ کرنے والے بیانات آئے۔ ہمارے ملک میں بھاجپا، اس کی پیش رو جن سنگھ اوراس کی ہم نوا پارٹیوں اور تنظیموں کی سیاست کا اہم ستون پاکستان کے خلاف عوام کے جذبات کو مشتعل کرنا اور اس کی طفیل ووٹوں کی دھڑے بندی کرنا رہا ہے۔ پاکستان میں ماضی میں یہی کام ذوالفقارعلی بھٹو کے بعض بیانات نے کیا تھا۔ ہندستان کے ساتھ ایک ہزارسال تک جنگ لڑنے کے ان کے بیان نے جو خمار پیدا کردیا تھا، وہ مشرقی پاکستان کو کھو دینے کے باوجود اترانہیں ہے۔ اب بھی بعض لیڈر نیوکلیائی حملے کی بات کرتے ہیں۔

خوش آئند بات یہ کہ پاکستان میں گزشتہ پارلیمانی انتخابات کے دوران اس فضا میں تبدیلی کی آہٹ ملی تھی ۔ اس سے قبل زرداری کے دور حکومت میں بھی کچھ مثبت کوششیں ہوئی تھیں، مگر دونوں طرف کچھ شدت پسندعناصر ایسے سرگرم ہیں جن کو دونوں کے رشتوں میں ہمواری راس نہیں آتی۔سمجھوتہ ایکسپریس کا واقعہ اور 26/11 کا ممبئی حملہ ایسے ہی لوگوں کی کارستانی ہیں۔ یوپی اے کے دورحکومت میں دونوں ممالک کے درمیان ویزا کی شرطیں نرم کرنے کا ایک معاہدہ ہوا تھا، لیکن عین اس روز جب اس پر عمل درامد شروع ہورہا تھا، ایک دہشت گرد حملہ ہوا اور عمل درامد رک گیا۔شدت پسند خونخواردرندے اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے ۔دو حکومتیں ناکام ہوگئیں اوردونوں طرف کے امن پسند عوام دیکھتے رہ گئے۔ اس کے بعد اس معاہدے کا نام تک نہیں لیا گیا۔البتہ اوفا ملاقات کے دوران مذہبی مقامات کی زیارت کو فروغ دینے کی بات آئی ہے جس کو مذہبی سیاحت کا نام دیاجاتا ہے۔لیکن صرف مذہبی سیاحت ہی کیوں؟ عام سیاحت کیوں نہیں؟ اس کے دائرے میں تعلیم اورتاریخی مقامات کی سیر کو بھی لایا جانا چاہئے ۔ طلباء، اساتذہ اوراسکالرس کو بھی سہولت ملنی چاہئے۔دوطرفہ ویزا معاہدہ، جو کئی سال سے ٹھنڈے بستے میں پڑا ہے، نافذ کیا جائے جس میں ایک شق یہ بھی ہے کہ معمرافراد کو ویزاسرحد پر مل جائیگا ۔ان کو پولیس رپورٹنگ سے چھوٹ ہوگی اور تین سے زیادہ مقامات کا سفرکرسکیں گے۔ دہشت پسندوں نے اس سہولت کو نافذ نہیں ہونے دیا۔ان کا یہ گمان غلط ہے کہ عوام کو زحمت میں مبتلا کرنا بھی کوئی ثواب کا کام ہے یا اس سے ان کی من پسند فیصلے کرنے کے لئے سرکاریں مجبور ہوجائیں گی۔ سوال یہ ہے کہ ہندپاک رشتوں کی نوعیت اسلام آباد اورنئی دہلی کے حکمراں طے کریں گے یا وہ انتہا پسند طاقتیں جن کی ڈورکہیں باہر سے ہلتی ہے اورجو نہیں چاہتے کہ اس خطے میں امن چین ہواور تعلقات میں ہمواری آئے۔

’اوفا‘ میں یہ ملاقات اچانک نہیں ہوگئی۔ اس کیلئے رمضان سے قبل 16 جون کو پہل ہندستان کی طرف سے ہوئی جب وزیراعظم مودی نے نواز شریف سے فون پر بات کی۔ آٹھ منٹ کی بات چیت کے دوران انہوں نے ملاقات کی خواہش ظاہر کی جس کو نواز شریف نے فوری طور سے منظورکرلیا۔ شاید مودی کو اب یہ خیال آرہا ہے کہ گزشتہ سال انہوں نے خارجہ سیکریٹری سطح کی مذاکرات کو منسوخ کرکے ٹھیک نہیں کیا تھا، اب اس سلسلے کو پھر جوڑا جائے۔یہ اچھا ہے کہ جس نے توڑا تھا اسی نے جوڑنے کی پہل کی ہے۔
اوفاملاقات کی تفصیل اخباروں میں آچکی ہے۔ اس کو ایک خوشگواراور اچھی پہل ہی کہا جائیگا۔ لیکن اس پر بھی داخلی سیاست کا سایہ پڑ تانظرآتا ہے۔ یوپی اے کے دور حکومت میں جورول بھاجپا ادا کرتی تھی وہ اب کانگریس اداکرنے لگی ہے۔ خبر یہ ہے کہ پارلیمنٹ کے اجلاس میں اس ملاقات پر بھی سرکار کوگھیرا جائے گا۔ ادھرٹی وی چینلوں پر بھی پرانے قصے کہانیاں سناکر ماحول کومکدرکیا جارہا ہے۔ شاید لوگوں کی سوچ یہ ہے کہ مسقتبل کے قدموں میں ماضی کی بیڑیاں پڑی رہیں اورآگے کے سفر کی بات یہ نہ کی جائے۔

یہ بات درست ہے کہ دہلی میں بیٹھ کر مودی کی سمجھ میں یہ بات آنے لگی ہے کہ قومی اورعالمی مسائل بڑبولے پن سے حل نہیں ہوتے، ان کیلئے 56انچ کا سینہ کام نہیں آتا۔ بنگلہ دیش کے ساتھ تاریخی سرحدی معاہدے کے بعد، جس کا سہرااصلاً یوپی اے سرکار کے سر ہے اورجس میں قومی مفاد کے خلاف دوسال کی تاخیربھاجپا کی سیاست کی بدولت ہی ہوئی، اب مودی صاحب کو بجا طور پر پاکستان کی طرف رجوع کرنے کی فکر ہوئی ہے۔ ان کی سمجھ میں شاید یہ بات بھی آنے لگی ہے کہ چین کو شیشہ میں اتارنا اور امریکا کو ’دوست‘ بنانا آسان کام نہیں۔ مفادات کی اس دوڑتی بھاگتی دنیا میں ہرملک کو اپنی فکر خود کرنی ہوتی ہے۔چنانچہ اب یہ بات ان کے پیش نظرہے کہ پاکستان سے رشتے سدھارے جائیں۔پاکستان کا محل وقوع اہم ہے۔ ہمارے سیاست داں اس کو سمجھنے میں چین سے مات کھا گئے۔چین کو، جس نے اسلامی مراسم عبادات پر پابندیاں عائد کررکھی ہیں،شرق ترکمانستان کی مسلم اکثریتی خطے پر ناجائز قبضہ کرکے وہاں کے مسلمانوں پر قیامت برپاکررکھی ہے،حتٰی کہ اس سال سرکاری اداروں میں کام کرنے والے مسلم کارکنوں کو روزے رکھنے پر بھی پابندی عائد کردی ، اس کو پاکستان کی مسلم آبادی سے کوئی دلچسپی نہیں ہوسکتی۔ اس کوپاکستان کے راستے راہ داری درکار تھی وہ اس نے حاصل کرلی۔گوادر کی بندرگاہ کے راستے اس نے اپنی پوزیشن مضبوط کرلی ہے۔ وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارتی رشتے ہندستان کیلئے بھی اہم ہیں۔ لیکن پاکستان سے رشتے خراب ہونے کی وجہ سے افغانستان سے اوراس کے راستے آگے کے ممالک کے ساتھ ہماری تجارتی سرگرمیاں منجمد ہوکر رہ گئی ہیں۔جبکہ چین پاکستان کے راستے سے افغانستان پہنچ گیا ہے اوراس خطے میں ہندستان کاایک بڑاحریف بن گیا ہے۔یہ جموداسی صورت ٹوٹے گا جب پاکستان سے راہداری کھل جائیگی۔اسی صورت میں سارک کا تصور بھی عملی جامہ پہن سکے ہوگااور تمام سارک ممالک میں بے روک ٹوک تجارت کے راستے کھلیں گے۔ مسٹرمودی نے اس ملاقات میں اسی پس منظر میں یورپی یونین کا حوالہ دیا ہے۔ ان ممالک کے درمیان عملاً نہ سرحد باقی رہ گئی اورمال تجارت کی آمد ورفت میں کوئی رکاوٹ آتی ہے۔پھراس خطے میں ایسا کیوں نہیں ہوسکتا؟

ہند پاک رشتوں میں کشمیر کی صورتحال ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ اس پر مودی سرکار کو کو کوئی نہ کوئی ایسی مفاہمت کرنی ہوگی جو پاکستان حکام کو بھی راس آجائے اورکشمیری عوام کو بھی بھاجائے۔ کشمیر کا الحاق بیشک ہندستان کے ساتھ ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے۔ لیکن میڈیا اور سیاست دانوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ کشمیر کا ہندکے ساتھ الحاق ہوا ہے، انضمام نہیں ہوا ہے۔ اس لئے نہ اس کی سرحدیں بدلی جاسکتی ہیں اور نہ حیثیت۔ دونوں فریقوں کوصدق دلی سے اس معاہدے کی پاسداری کرنی چاہئے جو الحاق کے وقت ہوا تھا۔ اس کوکمزورکرنے کے جو اقدام سابقہ حکومتوں نے کئے ہیں ان سے فاصلے بڑھے ہیں، قربت پیدا نہیں ہوئی۔ قربت پیداکرنے کیلئے زورزبردستی کام نہیں آتی۔ ایک دوسرے کے جذبات کا احترام کام آتا ہے۔ ہم سے یہ کوتاہی ہوئی ہے کشمیری عوام کے جذبات کا ہم نے احترام نہیں کیا ہے۔ ان کو ہندستانی شہریت کے بنیادی حقوق سے بھی محروم کرنے کی سازشیں ہوتی رہی ہیں۔ ان کی لاشوں پر ووٹ کی سیاست کی گئی ہے۔پورے ملک میں ایسی فضابنادی گی کہ کشمیری بیرون کشمیر چین سے رہ نہیں سکتا۔ بے خطاکشمیریوں کو دہشت گردی کے الزام میں ملوث کرکے آزارپہچانے کی کئی مثالیں سامنے آچکی ہیں۔ ہمیں یہ روش اوریہ ماحول بدلنا ہوگا۔ کشمیرمیں عسکریت پسندی کے پنپنے کے اسباب کا سدباب کرنا ہوگا۔ ہمیں اعتراف کرنا چاہئے کہ زخم بہت گہرے ہیں مگربھرے جاسکتے ہیں۔ اس کی تدبیر کرنی ہوگی۔

ہندستان نے گزشتہ سال عین وقت پر ایک فرضی بہانا بناکر وزرائے خارجہ کی طے شدہ ملاقات کو منسوخ کرکے جو غلطی کی تھی اس نے دوطرفہ مذاکرات کے عمل کو ایک سال پیچھے دھکیل دیا۔مودی صاحب اگرایک مرتبہ پھر اس سلسلے کوشروع کرنا چاہتے ہیں تواس کی مخالفت قومی مفاد کے خلاف ہے۔ البتہ یہ عمل غیرمشروط ہونا چاہئے۔ دونوں فریقوں کو یہ حق ہے کہ وہ اپنے جس سے چاہیں صلاح مشورہ کریں۔ ہندستان کواس پر اعتراض نہیں ہونا چاہئے کہ پاکستان نے کشمیریوں سے کیوں بات کی؟ کشمیر کی راہ اس وقت تک ہموار نہیں ہوگی جب تک کشمیری عوام کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا۔جب کشمیر پربات ہو تووہاں کے لوگوں کی رائے جان لینا ہندستان اورپاکستان دونوں کے لئے اہم ہے ۔

مسٹرمودی کی نوازشریف سے اس ملاقات کے بعد ایک دلچسپ واقعہ یہ پیش آیا کہ بھاجپا کے ایک لیڈر نے شوسینا کو یہ نصیحت کی ہے کہ وہ پاکستان کے بارے میں اپنا نظریہ تبدیل کرلے اوراس کے ساتھ رشتوں کی ہمواری کی کوششوں پرسیاست نہ کرے۔ کاش یہ بات بھاجپا کی سمجھ میں تب آگئی ہوتی جب وہ مرکز میں اپوزیشن میں تھی۔ یہ بات ان سیاستدانوں کی سمجھ میں بھی بیٹھی رہے جن کے تیوراپوزیشن میں جاکر بدلے بدلے سے نظرآتے ہیں۔

راستہ بات چیت سے ہی نکلتا ہے۔ اس کا ایک تازہ ثبوت نیوکلیا ئی مسئلہ پر یورپی ممالک سے ایران کا سمجھوتہ ہے ۔ اسرائیل، امریکا اوراس کے حلیفوں نے ایران کو دبانے، دھمکانے اورجنگ کی دھونس دینے کی ہزارکوشش کی۔ مگرراستہ مذاکرات کی میزپر بیٹھ کر ہی نکلا۔ افغانستان کے خلاف اورپھرعراق کے خلاف اپنی فوجی طاقت لگا کر امریکا اوراس کے حلیفوں کو منھ کی کھانی پڑی ۔ اس کے باوجود ہمارے بعض ناعاقبت اندیش سیاست داں جنگی زبان میں بات کرتے ہیں ۔ سوئی کو سوئی سے نکالنے کی تدبیر بتاتے ہیں۔ بنگلہ دیش جاکر مودی صاحب نے سقو ط ڈھاکہ کے حوالے سے جو باتیں کہیں، ان کو کہنے کی ضرورت نہیں تھی۔ ان سے علاقائی ماحول خراب ہوتا ہے۔ ان کو وزیراعظم کے منصب سے اپنی پارٹی اور آرایس ایس کی بولی نہیں بولنی چاہئے۔اس طرح کی سیاست نے ملک کا ماحول مکدرکردیا ہے اورایک پوری قوم کو جنون کی کیفیت میں مبتلا کردیا ہے۔جس کی بدولت آگے کی راہیں مسدود ہوگئی ہیں۔ اس کا احساس مسٹرمودی کو بھی ہے جس کا حوالہ انہوں نے اوفاملاقات میں دیا۔ سوال یہ ہے کہ لکھاوی کے مسئلہ پرایسی شدید رائے عامہ کس نے بنائی جواب سرکار کی راہ کاروڑہ بن گئی ہے؟ملک کا مفاد اس میں ہے کہ بین اقوامی امور پر وزیراعظم اوردیگرسیاست داں صرف قومی مفاد اور علاقائی مفاد کی سیاست کریں۔ انہوں نے انتخابی مہم کے دوران بڑے زور و شور کے ساتھ کہا تھاکہ ان کیلئے اولیت ہندستان کی ہے۔مگرابھی تک توایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنی امیج بنانے میں لگے ہیں۔ ہندستان کی امیج یہاں کے ماحول سے بنے گی۔ جس پرقابو پانا ابھی ان کیلئے باقی ہے۔ یہ درست ہے کہ’ لووجہاد‘ اور’گھرواپسی‘ جیسی بیہودہ مہمات اورپارٹی لیڈروں کی اشتعال انگیز بیان بازی رک گئی ہے، مگر ملک کو ایک خاص کلچر کے رنگ میں رنگنے کی جدوجہد ابھی جاری ہے۔ مہاراشٹر کی سرکار نے خاص طورسے ایسے نامعقول اقدامات کئے ہیں جن کو اکثریت کی دھاندلی کے سوا کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ مدارس کے بارے میں فڈناویزسرکار کا حالیہ فیصلہ اور کاشتکاروں کیلئے بوجھ بنے غیرمنفعت بخش مویشیوں کے ذبیحہ پر پابندی ایسے ہی اقدام ہیں۔ مسٹر مودی اوران کی پارٹی کی سرکاریں اکثریتی فرقہ کی بالادستی اور اقلیتوں کی حق تلفی کے لئے زور نہ لگائیں، بلکہ رواداری سے کام لیں اورملک کو آگے بڑھائیں۔ سرکاریں وہی کامیاب ہونگیں جو ہندستان کی ہمہ رنگی کو تقویت پہچاتے ہوئے دیگرمیدانوں میں ترقی کی راہ نکالیں گیں۔(ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 163454 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.