ترکی کا رہنما اور عالم عرب کا ہیرو’رجب طیب اردوغان‘ ۰۰۰ انتخابات کے بعد

ترکی کے انتخابات نے جہاں حکمراں پارٹی کو کسی دوسری پارٹی کے مشترکہ حکومت بنانے کے مجبور کیا ہے وہیں صدر ترکی رجب طیب اردوغان جو ان انتخابات کے بعد صدارتی اختیارات کو مستحکم اور مزید بااثر بنانے کے لئے آئین میں ترمیم کرنے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن عوام نے اپنے اس ہیرو کی خواہش کو شرمندہ تعبیر ہونے نہیں دیا۔ انتخابات میں رجب طیب اردوغان کی حکمراں جماعت جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کو 41فیصد ووٹ حاصل ہوئے یعنی 258نشستوں پر اسے کامیابی حاصل ہوئی جبکہ حکومت تشکیل دینے کیلئے 276نشستوں کی ضرورت ہے۔ حکمراں جماعت 13سال بعد اکثریت سے محروم ہوئی ہے۔ حکمراں جماعت کے وزیر اعظم احمد داؤد اوغلو جو اب انتخابات میں اکثریت سے محروم ہونے کے بعد عبوری وزیر اعظم کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ انہیں پارلیمنٹ میں اکثریت ثابت کرنے کے لئے 45دن کا موقع ہے کیونکہ اب سب سے بڑی جماعت کی حیثیت اسے ہی حاصل ہے ، اگر کسی دوسری اپوزیشن جماعت سے اسے تائید حاصل ہوتی ہے تو یہ رجب طیب اردوغان اور وزیر اعظم کے لئے خوش آئند بات ہوگی۔ دوسری بڑی سیاسی جماعت کی حیثیت سے ریپبلکن پیپلز پارٹی (سی ایچ پی )کو132نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی ہے اسکے رہنما کمال کغدارگلو ہیں، جبکہ دائیں بازو کی جماعت نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی (ایم ایچ پی) کو 80نشستیں حاصل ہوئیں ہیں جس کے رہنما دولت بغیلی ہیں۔ پارلیمنٹ میں پہلی مرتبہ قدم رکھنے والی پارٹی بائیں بازو کی کرد نواز ڈیموکریٹک پیپلز پارٹی (ایچ ڈی پی) ہے جسے 13فیصد ووٹ حاصل ہوئے ہیں ، پارلیمنٹ میں داخلہ کے لئے کم از کم دس فیصد ووٹ حاصل ہونا ضروری تھا ،ڈیموکریٹک پیپلز پارٹی کو بھی 80نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی ہے اس جماعت کے رہنما صلاح الدین دمرتش کو کرد عوام میں کافی مقبولیت حاصل ہے انہیں کردوں کا اوباما کہا جاتا ہے۔ ان دونوں جماعتوں کی کامیابی سے صدر ترکی کے عزائم کو شدید دھکہ لگا ہے۔ اگر ان تینوں جماعتیں ، جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کی مخالفت میں متحد ہوتی ہیں تو حکومت تو تشکیل پاجائے گی لیکن تجزیہ نگاروں کے مطابق اس کا امکان کم دکھائی دے رہا ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق امکان ہے کہ رجب طیب اردوغان کی جماعت جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کی حمایت سی ایچ پی کرسکتی ہے کیونکہ ان دونوں کے درمیان زیادہ اختلافات نہیں ہے۔550رکنی ترکی پارلیمنٹ کے لئے اس مرتبہ 97خواتین نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی جو ترکی تاریخ میں اب تک کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ خیر ترکی کے انتخابات ہوچکے ہیں ، صدر ترکی رجب طیب اردوغان جس طرح ان انتخابات کے بعد آئین میں ترمیم کرتے ہوئے صدارتی اختیارات میں مزید وسعت دینا چاہتے تھے لیکن عوام نے ان کے مقاصد کی تکمیل کیلئے موقع فراہم نہ کیا ۔ عالمی سطح پر نمایاں شخصیت اورعالم عرب میں ہیرو بن کر ابھرنے والے ترکی کے12ویں صدر رجب طیب اردوغان کو ان کے ہی ملک ترکی کے انتخابات میں ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ رجب طیب اردغان2003میں ترکی کے وزیر اعظم بنے اور دس سال سے زائد عرصہ تک وہ وزیر اعظم کی حیثیت سے ملک کی تعمیر و ترقی اور معیشت کے استحکام کیلئے بہترین خدمات انجام دیتے رہے ۔وہ 28؍ اگسٹ 2014سے صدارت کے منصب پر فائز ہیں۔ رجب طیب اردغان کے دورِ وزارت اور دور صدارت میں ایک طرف ترکی کی معیشت مستحکم ہوئی تو دوسری جانب بیرونی ممالک میں مسلمانوں کے ساتھ جو زیادتیاں ہورہی ہیں اس کے خلاف آواز اٹھانے میں انہوں نے پیشرفت کی۔ طیب اردوغان نے 2008 میں غزہ پٹی پر اسرائیل کے حملے کے خلاف سخت ردّعمل کا اظہار اور سخت احتجاج کیایہی نہیں بلکہ اس حملے کے فوری بعد ڈاؤس عالمی اقتصادی فورم میں ان کی جانب سے اسرائیلی صدر شمعون پیریز کے ساتھ دو ٹوک اور برملا اسرائیلی جرائم کی تفصیلات بیان کئے ۔انکے اس احتجاج اور دوٹوک بات چیت کے بعد ڈاؤس فورم کے اجلاس کے کنوینر کی جانب سے انہیں(رجب طیب اردوغان کو) وقت نہ دینے پروہ فورم کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا اور فوری طور پر وہاں سے لوٹ گئے۔ اس واقعہ نے رجب طیب اردوغان کو عالم اسلام اور عرب میں ہیرو بنادیا اوراس وقت ترکی پہنچنے پر عوام نے اپنے ہیرو کا شاندار استقبال کیا۔ رجب طیب اردوغان کو 2004میں جنوبی کوریا اور 2009ء میں ایران نے اعزازی شہریت سے بھی نوازا۔ 2009ء میں دورۂ پاکستان کے موقع پر انہیں پاکستان نے اعلیٰ ترین شہری اعزاز نشانِ پاکستان سے نوازا۔ آج بھی مشرقِ وسطی میں حکمرانوں اور شدت پسندوں کے درمیان ہونے والی دہشت گردانہ کارروائیوں کے خلاف آواز اٹھانے والوں میں رجب طیب اردوغان کا نام سرفہرست دکھائی دیتا ہے ۔ رجب طیب اردوغان کی جماعت اگر پارلیمنٹ میں کسی دوسری جماعت کی تائید سے حکومت تشکیل دیتی ہے تو شائد یہ ترکی کی ترقی کے لئے اور استحکام کے لئے بہتر ہوسکتا ہے لیکن انتخابات سے قبل انکے صدارتی محل کے سلسلہ میں جو خبریں عالمی سطح پر گشت کررہی تھیں اس کا اثر بھی ہوسکتا ہے کہ ترکی کے عوام اپنے ہیرو کو تعیش پسندانہ زندگی گزارنے دینا نہیں چاہتے کیونکہ جو شخص عیش و آرام پسند ہوجاتا ہے وہ عوام کی خدمت کرنے سے قاصر ہوجاتا ہے شائد یہی وجہ ہے کہ ترکی کے عوام نے انکی جماعت کے حق میں سابق کی بہ نسبت کم ووٹ دیئے ہوں ۔ ہوسکتا ہیکہ رجب طیب اردوغان ان انتخابات کے نتائج کے بعد اپنا محاسبہ کرتے ہوئے ملتِ اسلامیہ کی خدمت کا جذبہ رکھتے ہوں تو اپنے آپ میں تبدیلیاں لائیں گے ورنہ مستقبل میں ترکی کے عوام ہوسکتا ہیکہ انہیں حکومت سے بے دخل کردیں۔

مقبوضہ بیت المقدس پر اسرائیلی آباد کاری منصوبہ
مقبوضہ بیت المقدس میں صہیونی حکومت یہودی آبادکاری منصوبے کو تیز کرنا چاہ رہی ہے اسرائیلی میڈیا کے مطابق صہیونی حکومت میں شامل وزیر تعلیم نوتالی بینیٹ نے گولان کے مقبوضہ علاقے میں یہودی آباد کاری منصوبے تیز کرنے پر زور دیا ہے۔ عبرانی اخبار نے اسرائیلی وزیر کی ایک تقریر کے حوالے سے لکھا کہ ان کا مقصد آئندہ پانچ برسوں کے دوران ایک لاکھ یہودیوں کو گولان میں لا کر بسانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آزاد دنیا گولان کے علاقے پر اسرائیلی قبضے کو جائز تسلیم کرے۔اسرائیلی وزیر کا کہنا ہے کہ اگر آج ہم گولان کی پہاڑیوں سے دست کش ہو جاتے تو دولت اسلامیہ کے سخت گیر جنگجو دریائے طبریہ میں غوطے لگا رہے ہوتے۔ فلسطینیوں پر مظالم ڈھانے والے آج دنیا سے اپیل کررہے ہیں کہ وہ اسرائیل کی گولان پر قیادت کو تسلیم کرے۔ ان ظالموں کا کہنا ہیکہ اس وقت مسئلہ اسرائیل یا داعش کا ہے، آپ کو سر کاٹنے والے پسند ہیں یا پھر اسرائیلی رہنما، اختیار آپ کے پاس ہے۔عالمی برادری اسرائیل کے گولان پر قبضے اور ضم کرنے کو عالمی بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی سمجھتی ہے اور سمجھتی رہے گی۔ بے گناہ فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کا سلسلہ عرصہ دراز سے جاری ہے اور انکے ناپاک عزائم میں یہیودیوں کی آبادکاری کے علاوہ بیت المقدس پر قبضہ اور اسے شہید کرنا شامل ہے ۔

عراق اور شام کے حالات
دولت اسلامیہ کی کامیابی اور عراقی و شامی حکمراں فوج کی بے بسی نے آج سوپر پاور امریکہ کے صدر بارک اوباماکو بھی یہ کہنے پر مجبور کردیا ہے کہ عراق کی مدد کے لئے جامع پالیسی نہیں ، صدر امریکہ کے اس اعتراف کے بعد عالم اسلام کو سمجھنا چاہیے کہ وہ امریکہ اور دیگر مغربی و یوروپی ممالک پر بھروسہ کرنے کے بجائے اپنی قوت اور طاقت کو استحکام بخشیں۔ اب پنٹگان، عراقی افواج کو تربیت دینے کی تجویز پر غور کررہا ہے ۔ داعش عراق اور شام کے سرحدی علاقوں سے ہوتے ہوئے کئی قصبوں اور شہروں میں اپنی خلافت کو مستحکم کرنے دن رات شدت پسندی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ انکے ویڈیوز جب منظر عام پر آتے ہیں تو دیکھنے والوں کو حیران کردیتے ہیں۔ ویسے امریکہ اور دیگر مغربی و یوروپی افواج نے طالبان اور دیگر مسلم نوجوانوں کو عراقی جنگ کے بعد جیلوں میں محروس افراد کوجس طرح ظلم و بربریت کا نشانہ یہ خبریں منظرعام پر آنے کے بعد داعش کی کارروائیاں اتنی خطرناک دکھائی نہیں دیتیں۔داعش کے سفاکار اپنے دشمنوں کو سزا گلے کاٹ کر دے رہے ہیں لیکن دشمنانِ اسلام کی افواج نے جس طرح جیلوں میں مسلمانوں کو خطرناک اذیتیں دے کرزندگی اور موت کے درمیان معلق رکھا شائد ایسی سزائیں شدت پسند جماعتوں نے نہیں دی ۔ شام میں 2011سے جاری خانہ جنگی میں کم و بیش دو لاکھ 30ہزار ہلاکتیں ہوئیں ہیں جن میں معصوم بچے، مردو خواتین اور ضعیف حضرات شامل ہیں۔لاکھوں شامی، عراقی آج بے سروسامانی کا شکار ہیں انہیں پناہ گزیں کیمپوں میں غذائی اجناس اور دیگر ضروریاتِ زندگی کے سامان میسر نہیں۔ سردو گرم موسم کا شکار ہورہے ہیں یہی نہیں بلکہ اکی معصوم ہونہار بچے تعلیم و تربیت سے محروم ہورہے ہیں اگر اسی طرح لاکھوں بچے تعلیم و تربیت سے محروم رہیں گے تو آنے والے وقت میں یہی بچے دنیا کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں اس لئے اقوام متحدہ اور دیگر عالمی طاقتوں کو چاہیے کہ وہ ان ممالک میں ہونے والی لڑائیوں کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ متاثرین کی ہر ممکنہ مدد کریں ۔

بر ما میں مساجد کو شہید کیا جارہا ہے اورٗ نماز پر بھی پابندی
برما روہنگیا کے مسلمانوں پر مظالم کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے یہی نہیں بلکہ اب مساجد کو شہید کرنے کاسلسلہ تیز کردیا گیا ہے اور نماز پڑھنے پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے۔عالمی طاقتوں کی زبانیں کند ہوچکی ہیں ۔ انہیں آنکھوں پر پردہ پڑچکا ہے جو سننے ، دیکھنے سے قاصر ہیں۔ خبررساں ادارے کے مطابق برما میں نہ صرف مسلمانوں کی زندگی کو خطرات لاحق ہیں بلکہ اب کئی مساجد کو بھی شہید کردیا گیاہے ،نماز اور دیگر مذہبی امور کی ادائیگی پر پابندی عائد کردی گئی ہے ،واضح رہے کہ برما کے مسلمانوں کو شہریت سے بھی محروم کردیا گیا اور برما چھوڑنے کا حکم دیاتھا -سعودی عرب اور دیگر ممالک برماکے مسلمانوں کیلئے امداد فراہم کرنے کا اعلان کئے ہیں ۔ آج برما کے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں کو آواز اٹھانے ہی ضرورت نہیں ہے بلکہ ان بدھسٹوں اور برمی حکومت کے خلاف عالمی قانون کے تحت کارروائی کرنے کی ضرورت ہے لیکن کیا اقوام متحدہ مسلمانوں پر ہونے والے ان ظلموں کو روکنے میں کامیاب ہوپائے گا؟
Dr M A Rasheed Junaid
About the Author: Dr M A Rasheed Junaid Read More Articles by Dr M A Rasheed Junaid: 14 Articles with 9608 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.