بلوچستان اور سندھ کے مسائل حل کیوں نہیں ہوتے ؟

چند دن پہلے میری کراچی کے ایک نوجوان( کامران خان) سے بات ہورہی تھی ۔ وہ بطور خاص کراچی اور بالعموم ملکی حالات سے سخت مایوس تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ شریف برادران پاکستان کا سارا پیسہ پنجاب میں ہی لگا رہے ہیں جبکہ کراچی میں ٹرانسپورٹ ٗ پینے کے پانی ٗ بجلی کی لوڈشیڈنگ ٗ بے روزگاری ٗ دہشت گردی اور قتل و غارت کا بازار گرم ہے ۔ اس کی طرف کوئی توجہ نہیں ۔ سخت غصے کے عالم میں وہ کہہ رہا تھا کہ بلوچستان کے لوگ آج بھی غاروں کی دور میں انتہائی پسماندگی غربت اور جہالت کی زندگی بسر کررہے ہیں ۔نواز شریف کراچی سندھ اور بلوچستان کے حالات سنوارنے کی بجائے اسلام آباد میٹرو بس کا افتتاح کر رہے ہیں۔اس نے پھر کہا کہ اندرون سندھ میں انسان اور جانور اکٹھے پانی پیتے ہیں وہاں لوگ جانوروں سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔ نوازشریف کے پاس فرصت نہیں کہ وہ وہاں جاکر ان کے بدترین حالات دیکھے اور انہیں زندگی کی سہولتیں فراہم کرے ۔میں خاموشی سے اس بپھرے ہوئے نوجوان کی باتیں سن رہا تھا ۔اس نے کہا لاہور اور راولپنڈی میں تو میٹرو بن گئی ہے لیکن کراچی جو پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے وہ اس آرام دہ سفر سے محروم ہے ۔ اس کی طرف کی کسی کی توجہ نہیں ۔اس کی جذباتی گفتگو ختم ہوئی تو میں نے نہایت دھیمے لہجے میں اسے کہا میرے بھائی آپ کی باتوں کو میں درست تسلیم کرتا ہوں کہ کراچی ٗ بلوچستان اور اندورن سندھ کے حالات بہت مختلف اور تکلیف دہ ہیں ۔ وہاں اصلاح احوال کے حوالے سے روایت سے ہٹ کر اقدامات کی ضرورت ہے ۔ لیکن مجھے یہ تو بتائیں کہ نواز شریف کو وزیر اعظم بنے ابھی دو سال ہوئے ہیں جبکہ پیپلز پارٹی پندرہ سال سے مرکز اور گزشتہ پچیس سال سندھ میں برسراقتدار چلی آرہی ہے ۔ اسی طرح ایم کیوایم جو گزشتہ بیس سالوں سے کسی نہ کسی طرح وفاق اور صوبے میں مراعات اور وزارتیں بھی قبول کرتی چلی آرہی ہے ۔ ووٹ لینے کے بعد کیا ان کا فرض نہیں تھا کہ وہ کراچی میں میٹرو بس ٗ میٹر و ٹرین ٗ ایکسپریس وے بنائے ۔ وہ دو کروڑ آبادی کے شہر کو پینے کا پانی فراہم کرنے کے لیے طویل المدت ایسا پروگرام ترتیب دے جس سے پانی کا مسئلہ کبھی سر نہ اٹھائے ۔ میں نے کہا کیا تمہیں علم ہے کہ فیصل آباد جیسے پاکستان کا مانچسٹر کہاجاتا ہے وہاں زیر زمین پانی انسانی استعمال کے قابل نہیں ہے وہاں کے رہنے والوں کو چنیوٹ سے پائپ لائنوں کے ذریعے فراہم کیا جاتا ہے ۔ یہ کام اتنے اچھے پیمانے پر کیاگیا ہے کہ کسی کو کانوں کان خبربھی نہیں ہے ۔دور جدید میں سمندری پانی کو ایک مخصوص ٹیکنالوجی کی مدد سے پینے کے قابل بنایا جاسکتا ہے دنیا میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں لیکن ہر سال سندھی کلچر کے فروغ اور بے نظیر بھٹو ٗ ذوالفقار علی بھٹو کی یوم پیدائش اور یوم وفات پر سرکاری خزانے سے اربوں روپے خرچ کرکے جنگل میں منگل کیا جاتا ہے اگر یہ رقم ٹریٹ منٹ پلانٹ لگانے پر خرچ کی جاتی تو نہ صرف کراچی بلکہ پورے سندھ میں پانی کامسئلہ حل ہوچکا ہوتا ۔ ایم کیو ایم مہاجروں کا نام لے کر70 فیصد کراچی پر گزشتہ تیس سال سے قابض ہے اغوا کاری ٗ بھتہ خوری اور ہر قسم کے جرائم میں شریک ہے اور لوٹ مار کا پیسہ اپنے قائد کو لندن میں بھجوا نا نہیں بھولتی ہے ۔کراچی جو کبھی روشنیوں کا شہر تھا آج کل پوری دنیا میں ایم کیو ایم کی وجہ سے قتل و غارت کا مرکز مشہور ہے۔کچھ ٹارگٹ کلر اور بھتہ خورایم کیو ایم کے ہیں تو کچھ پیپلز پارٹی نے پال رکھے ہیں ۔رہی سہی کسر پاکستان کی مخالفت کرنے والی جماعت عوامی نیشنل پارٹی نے مسلح دہشت گردوں اپنی صفوں میں پناہ دے کر پوری کردی ہے۔جب قومی اور صوبائی الیکشن ہوتے ہیں تو کراچی اور سندھ کے ووٹ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی آپس میں بانٹ لیتی ہے ۔ جب تک سندھی عوام بھٹو کے نام پر پیپلز پارٹی کو ووٹ دیتے رہیں گے اس وقت تک کوئی بھی ان کی تقدیر نہیں بدل سکتا ۔رہی بات بلوچستان کی تو وہاں کے تمام علاقے مختلف قبائل اور سرداروں نے کچھ اس طرح تقسیم کررکھے ہیں کہ ایک قیبلے کے لوگ دوسرے قبیلے کے علاقے نہیں جاسکے اور نہ ہی سڑک بنا نے دیتے ہیں اگر حکومت نے طاقت کا سہارا لیتے ہوئے سڑک بنا دیتی ہے تو مخالف قبیلے کے افراد کو اس سڑک سے گزرنے نہیں دیاجاتا۔قیام پاکستان کے بعد آ ج تک بلوچستان کی حکومتیں بلوچ سرداروں کے چنگل سے آزاد نہیں ہوسکیں۔جو سردار وزیر اعلی یا گورنر بنتا ہے وہ عوام کی حالت سنوارنے کی بجائے اپنی ہی جیب بھر کے چلتا بنتا ہے ۔مجھے یاد ہے ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب وفاق بلوچستان حکومت ڈیم بنانے کے لیے 25 کروڑ دے رہا تھا لیکن وزیر اعلی بلوچستان نے اس رقم سے ڈیم کی بجائے ذاتی استعمال کے لیے جہاز خرید لیا ۔مرکز میں حکومت کسی کی بھی ہو جب تک بلوچستان سے قبائل سسٹم ختم کرکے سرداروں کا خاتمہ نہیں کیا جاتا اس وقت تک بلوچستان کی ترقی کا خواب ادھورا ہی رہے گااور لوگ جانوروں سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور رہیں گے ۔اور جب تک کراچی کو ایم کیو ایم کے چنگل اور سندھی عوام کو بھٹو کے آسیب سے نجات نہیں ملتی اس وقت تک سندھی اور مہاجروں کی تقدیر نہیں بدل سکتی ۔18ویں ترمیم کے بعد وفاق صوبائی معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتا ۔اگر کراچی ٗ اندرون سندھ اور بلوچستان کی حالات تبدیل کرنے ہیں تو مقامی لوگوں کو ووٹ دیتے ہوئے کارکردگی کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا۔شہباز شریف اگر پنجاب میں اچھا کام کررہے ہیں تو اس میں کسی کو حسد کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔وہ ایک مستعداور متحرک عوامی لیڈر ہے جو اپنی صحت کا خیال رکھے بغیر نت نئے منصوبے بناتا چلا جارہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ لاہور سمیت پنجاب کے لوگ باقی صوبوں سے بہتر زندگی گزار رہے ہیں ۔
Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 671588 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.