صادق اور امین

ہمارے معاشرے میں دو قسم کی اخلاقیات پائی جاتی ہیں ایک وہ جسکا ہم پرچار سر بازار کرتے ہیں اور ایک وہ جس کا مظاہرہ ہم پس دیوار کرتے ہیں۔اور اگر دیکھا جائے تو ان دونوں کی آپس میں دور دور تک کوئی مطابقت نہیں ہے ۔بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ یہ دونوں اخلاقیات ایک دوسرے کے بر عکس ہیں۔اس پر مزید تشویش کی بات یہ ہے کہ ہمیں اس میں کوئی شرمندگی تک محسوس نہیں ہوتی۔ایک وقت تک ایسا چوری چھپے یا آنکھ بچاکر ہوتارہا مگر اب زمانہ جدید ہو گیا ہے۔ صرف اخلاقیات نہیں ہمارے ملک میں ہر چیز کا دوہرا معیار پایا جا تا ہے۔ جسکا ہم انتہائی ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ نا صرف دفاع کرتے ہیں بلکہ اس کے فروغ کے لیے کوشاں ہیں۔ہمارے ملک میں تو انصاف بھی دو طرح کا پایا جاتاہے ۔ایک جس کا عدلیہ اور حکومت سمیت چند نام نہاد بکاوٗ صحافی پر چار کرتے ہیں اور ایک وہ جس کو انصاف کہا جائے تو انصاف کا نظام شرما جائے ۔جسکا پرچار روز روز کیا جاتا ہے وہ انصاف مخصوص حاکم طبقے کی قسمت میں آتا ہے جہاں گھنٹوں یا دنوں میں انصاف سائل کی جھولی میں ڈال دیا جاتا ہے ۔ایک وہ انصاف ہے جو غریب عوام کے تاریک مقدر میں آندھی کی طرح قابض ہے جو امید کے ہر دیے کو جلنے سے پہلے بجھا دیتی ہے۔دکھ اس بات کا ہے کہ عوام کے پیسے پر پلنے والے نظام عدل کے حاکم اور جابر ناخداوٗں سے سوال تک کرنے کی جسارت ممکن نہیں۔ یہاں تو سوال پوچھنے پر توہین کے نوٹس جاری کیے جاتے ہیں۔اپنی حاکمیت اور شہنشاہی کے راستے میں آنے والے کسی بھی شخص کو برداست نہیں کیا جاتا ۔مگر سوال پوچھنا تو ہمارا حق ہے ۔جاننا ہماری ضرورت ہے۔جس آئین کی پاسداری کی قسم کھانے کے بعد عدلیہ کی کرسیوں پر یہ جج صاحبان بیٹھتے ہیں اسی آئین نے ملک کے ایک ایک فرد کو اجازت دی ہے کہ وہ عوام سے متعلق تمام امور پر سوال کر سکتا ہے۔اسی آئین نے ملک کے تمام تر شہریوں کو برابر قرار دیا ہے ۔وہی آئیں عوام کو عزت و احترام دیتا ہے جس آئین کا حلف لیکر جج صاحبان اس ملک کے نظام عدل پر قابض ہیں۔ایک عام شہری چھوٹے سے چھوٹے مقدمے میں بھی ملوث ہو جائے تو اس کی نسلیں اس کیس کو عدالتوں کے دھکے کھا تے گزار دیتی ہیں مگر جب کوئی ملک ریاض بحریہ ٹاوٗن کا کیس لیکر عدالت میں جاتا ہے تو چند گھنٹوں میں اس کو انصاف مل جاتا ہے ۔تو کہاں گیا برابری کا اصول ؟کہاں گیا انصاف کا بوسیدہ نظام ؟ صرف یہی نہیں عوام کا سوال ہے کہ عدلیہ کہ جن جن جج صاحبان پر اس بات کا الزام لگا کے وہ دہشت گردوں کو رہائی دیتے رہے ہیں ۔یا جن جج صاحبان نے آئین کی پاسداری مکمل نہیں کی کیا وہ صادق اور امین ہیں؟ کیوں ان کو مقدس گائے سمجھا جاتا ہے ؟ اگر سیاست دان صادق امین نا ہوکر الیکشن نہیں لڑ سکتا تو جج صادق اور امین نا ہوکر نظام عدل کا حصہ کیسے بن سکتا ہے ؟ اگر سیاستدانوں کے بچوں کے کاروبار کی ترقی پر نظر رکھی جاتی ہے تو جج صاحبان کے بچوں پر کیوں نگرانی قائم نہیں کی جاسکتی؟اگر ایک سیاست دان کسی تھانیدار سے بد تمیزی کرے تو اس کے خلاف مقدمہ درج کیا جاسکتا ہے تو ایک جج کے خلاف کیوں نہیں جو سیکیورٹی کے معاملات میں رکاوٹ بنتا ہے ؟ صادق اور امین کا سوال کرنے والوں سے کوئی پوچھے کے انہوں نے کبھی اپنے گریبان میں جھانکا ہے ؟کیوں عوام کے سوالوں کے جواب دینے سے گھبراتے ہیں ؟کہیں دال میں کچھ کال تو نہیں ہے ؟جی نہیں ایسا نہیں ۔مجھے تو ساری کی ساری دال ہی کالی لگ رہی ہے ۔ ذیادہ دور نا جائیں یہیں سے شروع کر دیں اگر سیاستدانوں کی فون کالز ریکارڈ کی جاتی رہی ہیں جن میں بڑے بڑے سیاستدان بھی شامل تھے تو کیوں نہیں تحقیقات کی گئیں ان ججز کی جن کی عدالتوں سے بدنام زمانہ دہشت گرد وں کو رہائی ملی جس کے بعد انہوں نے پھر خون کا بازار گرم کیا؟ کیوں نہیں ان ججز کو عدالت کے کٹہرے میں لایا گیا جن پر الیکشن میں دھاندلی کا الزام آیا؟کیوں نہیں قانون کے روبرو پیش ہو سکتے وہ جج جن پر پیسوں کی خرد برد اور عہدے کے ناجائز استعمال کا الزام آیا؟ کوئی ہے بتانے والا کہ جب پارلیمنٹ کی مکمل مشاورت سے ملک میں پھانسی کے آرڈر جاری کرنے کے حکم ہوئے تو کیوں گنتی کی پھانسیوں کے بعد دہشت گردوں کی پھانسیاں روک دی گئی ہیں؟کیا یہ اس ملک کا دوغلا اور فریبی نظام نہیں ؟ پارلیمنٹ میں دہشت گردوں کی پھانسی پر اتفاق رائے ہوا مگر یہاں عام عوام کو پھانسی لگ رہی کسی نے بیوی کو قتل کیا کسی نے بھائی کو قتل کیا کسی نے چچا زاد کی زندگی کا چراغ گل کیا تو کسی نے پڑوسی کی موت کا سامان کیا۔مگر وہ لوگ جو اس ملک کے محافظوں ، اس ملک کے جانبازوں ، اس ملک کے فوجیوں کے قاتل تھے ان کا کیاہوگا ؟ کہیں ایسا تو نہیں غیر ملکی چندے پر چلنے والی این جی اوز کی ایک دو یا درجن بھر خوبرو خواتین کے احتجاج سے مجبور ہوکرآپ کو انسانی حقوق یاد آگئے اور مسجدوں ، سکولوں ، ہسپتالوں ، کالجوں ، مدرسوں ، امام بارگاہوں ، پارکوں اور بسوں میں مارے گئے بے گناہ لوگوں کے قاتلوں کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جانے لگا؟اگر پھانسی انسانی حقوق کے خلاف ہے تو کیوں ان لوگوں کو تختہ دار پر لٹکایا جا رہا ہے جو ایک ایک قتل کے الزام میں جیلوں میں بند تھے۔ ججوں کے صادق اور امین ہونے پر اب سوالات اٹھ چکے ہیں جو کہ جواب طلب ہیں اور عدلیہ کا وقار اسی میں ہے کہ ان تمام الزامات پر اپنا موقف دے۔ رہی بات سوال کرنے والے کی تو میں توہین عدالت نوٹس کے لیے تیار ہوں کیونکہ میں وہاں جا کر پوچھوں گا عدالت کی توہین ججوں سے بڑھ کر بھی کوئی کر رہا ہے ؟ نظام عدل کو متنازعہ ججوں سے بڑھ کر کون بنا رہا ہے ؟اللہ ہم سب کو اپنے اعمال درست کرنے اور اپنی اصلاح کی توفیق دے آمین۔
ضیائے قلم  از ضیاء اللہ خان
About the Author: ضیائے قلم از ضیاء اللہ خان Read More Articles by ضیائے قلم از ضیاء اللہ خان: 9 Articles with 6278 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.