خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد۔۔۔

کراچی ایک بار پھر لہو لہان ہے۔ زخم خوردہ کراچی جس کا پرانا زخم مندمل ہی نہیں ہو پاتا کہ پھر ایک نیا زخم لگا دیا جا تا ہے۔ کراچی جو کبھی روشنیوں کا شہر تھا۔ اب دہشت گردی، بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ کا شہر ہے۔ کبھی جس کی راتیں جاگا کرتی اور شہری امن کی بانسری بجاتے؛ اب ہر طرف بے چینی اور خون کا بسیرہ ہے۔ ایک انسان کا قتل ساری انسانیت کا قتل ہے اور یہاں پر تع روزانہ کئی کئی بار انسانیت کا قتل ہو رہا ہے لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں کیونکہ پوچھنے والےتو چین کی بانسری بجا رہے ہیں۔

کبھی ہمارے حکمراں دریا کے کنارے ایک بکری کے مر جانے پر اپنے آپ کو قابل گرفت سمجھتے تھے اور آج۔۔۔ ہمارے شہر کے بے تاج بادشاہ یہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ میں کیو ں استعفی دوں اور شہروں میں بھی تو لوگ مر رہے ہیں۔

یہ انسانی جان کی قیمت ہے۔۔۔ انسانی خون اب اتنا ہی ارزاں ہے ۔۔۔ دل خون کے آنسو روتا ہے۔ لیکن کہیں شنوائی نہیں۔ کیونکہ اگر ایک ہزار افراد سی ویو پر نہانے چلے جائیں تو یہی امن کا پیمانہ ہے۔ اس سے بڑھ کر مطالبہ کرنے والے بے وقوف اور احمق ہیں۔

ایک سے بڑھ کر ایک حادثہ رونما ہو رہا ہے لیکن حادثہ سے بڑا سانحہ یہ ہے کہ حادثات دیکھ کر بھی ہمارے حکمرانوں کے رویوں میں تبدیلی آتی ہے اور نہ ہی عوام اپنا طرز زندگی بدلتے ہیں۔

بھی تک ۱۲ مئی کے واقعات کی گونج فضاءوں میں تھی کہ بلدیہ کی فیکٹری کا اندوہناک واقعہ کا پیش آنا۔ ابھی تو ان ہی حادثات سے دل و ذہن آزاد نہ ہوئے تھے کہ ایک پر بھر 13 مئی کا جان لیوا حادثہ ۔ کتنے ہی بے گناہ پر امن رہنے والے لوگ ان واقعات کا شکار ہوئے۔ عمارتیں تو تعمیر ہو جاتی ہیں اور سج بھی جاتی ہیں لیکن ان انسانی جانوں کا نقصان۔۔ کیا ان کی تلافی ممکن ہے۔ کیا ان چلے جانے والوں کے گھروں کوان کے پیارے واپس مل سکتے ہیں ۔

ایسے تمام واقعات کے بعد حکومتی کارندوں کی ذمہ داری صرف بیان بازیوں تک محدود رہتی اور اوپر اوپر سے دکھاوے کی کچھ کاروائیاں۔ ستم یہ ہے کہ اس کا احساس بھی نہیں۔ چند بے گناہ لائن حاضر کردیے جاتے ہیں۔ پھر کون ان سے پوچھے کہ جو پکڑے گئے ۔۔ ان میں سے اصل مجرم کتے ہیں اور کتنوں کو صرف گنتی پوری کرنے کے لیے پکڑا گیا ۔

کیا ہمارے حکمرانوں کے پاس ضمیر نام کی کوئی شے نہیں۔۔۔ کیا انہوں نے ایوان اقتدار میں آنے، طاقت حاصل کرنے اور اپنی جیبوں (صرف جیب نہیں) کو گرم کرنے کے لیے اس ضمیر نام کی چیز کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گہری نیند سلادیا ہے۔
میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں
سارے شہر نے پہن رکھے ہیں دستانے

کراچی میں کئی ماہ سے آپریشن چل رہا ہے، جس کے نتیجے میں کئی قاتل، بھتہ خور گرفتار ہوئے اور کچھ بہتری کی صورت پیدا ہوئی ہے لیکن ہمارے دشمنوں کو یہ گوراہ نہیں۔۔۔ وہ کبھی پاکستان کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتے۔ مگر دشمنوں کی چال اس وقت کامیاب ہوتی ہے جب اندرون خانہ کمزوری ہو۔ ہمارا دشمن ہمارے خلاف ہر اس سازش میں شریک یا ملوث ہے جس سے ملک کو معاشی ، معاشرتی ، اقتصادی ، اخلاقی اور نظریاتی طور پر کمزور کردے تاکہ اس کسے مقابلے کے لیے نہ ہمت رہے نہ قوت ارادی۔ چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے عوام اور حکمران دونوں باہم ایک دوسرے کے خیر خواہ ہو جائیں اور اصل ذمہ داری تو پھر حکمرانوں کی بنتی ہے کیونکہ اﷲ تعالٰی کی طرف سے ان پر یہ ذمہ داری ڈال دی گئی جس کا بہر طور انھیں حساب دینا ہوگا چاہے وہ اس کا احساس کریں یا غفلت میں پڑے رہیں۔
saima afroz
About the Author: saima afroz Read More Articles by saima afroz: 4 Articles with 3467 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.