اﷲ تجھ کو دے فکر مومن؟

کہیں سعودی ہے، کہیں یمنی اور کہیں پاکستانی و ایرانی اب بھر گیا پیٹ تو کیا دیکھنا چاہتے ہو اپنی ویرانی، اگر یہی ہیں انداز توپھر مٹ جائے گی تمہاری سلطانی اور رہ جائے گی عبرت انگیز کی کہانی۔ کون نہیں جانتا کہ امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے وحدت مسلم کو پارہ پارہ کیا اور علیحدہ علیحدہ ملک بنا ڈالے۔ وحدت قبلہ، وحدت ایمان با الرسول اور وحدت ایمان کتاب اﷲ ہونے کے باوجود مسلمان کے مابین وحدت نہ رہی ۔ امریکہ اور اسکے صلیبی اتحادیوں نے افغانستان پر حملہ کردیاتو کسی مسلمان حکمران نے قوت ایمانی کا مظاہرہ نہ کیا، عراق آباد بستا گلستان اجاڑ دیا گیا پڑوسی مسلم ممالک کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ متذکرہ حالات و واقعات کے تناظر میں یہ امر عیاں ہے کہ ہمارے مسلم حکمران ایمان سے خالی معمورے ہیں۔ ان کی جدوجہد پنے ذاتی اقتدار اور ملکی دولت سمیٹنے کے لیئے ہے۔ اگر عوام یہ سمجھیں کہ ہمارے حکمران اسلام کی سربلندی کے لیئے کام کررہے ہیں یا کریں گے تو یہ بیل سے دودھ کے حصول کے مترادف ہے۔ سعودی خاندان کی امریکہ دوستی بہت مضبوط ہے اور امریکہ کی یہودپرستی بھی اظہرمن الشمس ہے۔ اور میری یہ بات بھی اسی طرح سچ ہے جس طرح نصف النہار پر سورج کی روشنی ہے۔ یمن ہم سے دور ہے لیکن ہمارے نبی ﷺ نے فرمایا کہ اللھم بارک لنا فی یمننا (اے اﷲ ہمارے یمن میں برکت عطافرما) اسی آپ ﷺ نے اور بھی علاقوں کے لیئے دعائے برکت فرمائی سوا نجد کے کہ فرمایا وہاں سے شیطان کے سینگ نکلیں گے۔جس علاقے کے لیئے آپ ﷺ نے برکت کی دعا فرمائی یقینا وہاں برکتیں ہیں۔یمن میں امریکہ اپنا شیطانی جال پھیلاکر نکل گیا۔ یمن میں دو گروہوں میں اقتدار کی رسہ کشی نے شدت اختیار کرلی۔بدقسمتی سے ایک کو سعودی اشیر باد ہے اور سعودی حکومت نے اپنی افواج کو مخالفین کو کچلنے کے لیئے جنگ میں جھونک دیا۔ سعودی خاندان میں اب پہلے والی جرات، جفاکشی اور جنگی صلاحیت نہیں رہی جو شاہ عبدالعزیز میں تھی اور اس نے کوئت سے ریاض تک سینکڑوں میل چل کر ریاض پر قبضہ کیااورپھر قتل عام کرتے ہوئے حجاز مقدس کی طرف گیا لیکن سطان ترکی نے اقتدار سے زیادہ مسلمانوں کے جان و مال کو ترجیح دی اور ایک معاہدہ کے تحت حجاز مقدس شاہ عبدالعزیز کے حوالے کردیا۔سعودی عرب یمن میں من پسند حکومت کے قیام کے لیئے ہر طرح کا اسلحہ استعمال کررہا ہے۔ ہوائی طاقت سے اسے خاطرخواہ نتائج نہیں مل رہے ۔ جبکہ زمینی لڑائی کی انہیں سکت ہی نہیں۔سعودی حکومت کو یمن کے اندرونی معاملات میں فریق بننا ہی نہ تھا۔حرمین شریفین کے محافظ سے مسلمانوں کو امن و سلامتی کی ضمانت حاصل ہونی چاہیئے اور اسی کی ہم سب توقع رکھتے ہیں۔ اسی بنا پر ہم سبھی ان کا احترام بھی کرتے ہیں۔ ترکی اور ایران نے یمن میں فریق بننے کی بجائے صالح ثالثی کا کردار اداکرنے کو پسند کیا۔ اب رہا پاکستان تو دنیائے اسلام میں اﷲ نے پاکستان کو بڑا مقام دیا ہے۔ دفاعی اور عسکری نوعیت کے اعتبار سے پاکستان کو پوری دنیا میں وہ فوقیت حاصل ہے جو کسی بھی مسلم یا غیر مسلم افواج کو نہیں۔ یہ صلاحیتیں نبی کریم ﷺ کی امت کے افراد کے خلاف استعمال نہیں ہوسکتیں۔اور پاکستان کے عوام ایسے اقدامات سے شدید نفرت کرتے ہیں۔

پاکستان میں یمن کے بارے پائی جانے والی بے چینی کے محرکات کیا ہیں؟یہ بھی کوئی ایسا معمہ نہیں ہے بلکہ عوام جانتے ہیں کہ میاں نواز شریف اٹک قلعہ میں عمر قیدکی سزا بھگت رہے تھے اور شاہ عبداﷲ مرحوم کے کہنے پر پرویز مشرف صاحب نے خادم حرمین شریفین کا احترام کرتے ہوئے ارض مقدس کی طرف بھیج دیا۔ بھلا کام تھا۔ آج شاہ سلیمان اس بھلائی کا صلہ چاہتے ہیں ۔بھلائی تو میاں نواز شریف اور انکے خاندان کے ساتھ کی گئی۔ اب اسکے بدلے پاکستان کی افواج اور عوام کو قربانی کا بکرا بنانا جائز نہیں۔ البتہ شریف خاندان وہاں جاکر سعودی افواج کے شانہ بشانہ قربانی دے۔اس پر بھلا کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔ پاکستان کی پارلیمنت کی متفقہ قرداد نہائت صائب ہے کہ جب دو مسلمان گروہ آپ میں لڑپڑیں تو ان میں صلح کراؤ اور پھر جو زیادتی کا مرتکب ہو اسکے خلاف مل کر لڑو۔ لیکن یمن کی صورت حال یہ ہے کہ سعودی افواج حملہ آور ہیں۔ ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے حرمین شریفین کے تحفظ کا۔ جبکہ ایسی کوئی بات نہیں۔ حرمین شریفین کو بھلا کسی مسلمان ملک سے کیا خطرہ ہوسکتاہے؟ خطرہ تو اسرائیل اور اسکے سرپرست صلیبیوں سے ہے جن کی گیارہ چھاؤنیاں سعودی عرب میں ہیں۔ اسی طرح صلیبیوں کی افواج خلیج عرب میں ہیں۔ بڑا نازک مرحلہ ہے ۔ مسلمان ممالک کی قیادت ہوش کے ناخن لے۔ مسلمانوں کی حربی صلاحیتیں اگر باہمی جنگ و جدل میں ضائع ہوگئیں تو اس کا فائدہ صرف اور صرف یہود، ہنود اور صلیبیوں کو ہوگا۔

پاکستان کو قطعا فریق نہیں بننا چاہیئے اور جنرل راحیل شریف دنیائے اسلام کی امید بن چکے ہیں۔ میں امید رکھتا ہوں کہ وہ ان نزاکتوں کو خوب جانتے ہیں۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ہمارے سیاستدان اپنے ذاتی مفادات کے لیئے ملک و ملت کی سودا بازی سے گریز نہیں کرتے۔ لیکن جنرل صاحب نے ملک و قوم کے تحفظ کا حلف لیا ہواہے۔اور وہ اس فریضہ کو بطریقہ احسن سرانجام دے رہے ہیں۔میرا مشورہ ہے کہ حکومت پاکستان ، ترکی اور ایران oic کا اجلاس بلاکر فوری طور پر صلح کا کمیشن تشکیل دیں، جنگ کو فوری طور پر بند کرائیں اور یمن کے اندرونی تنازعات کو افہام و تفہیم سے حل کریں۔ یہ عمل عنداﷲ بڑا مقبول ہو گا اور قیامت کے دن بھی سرفرازی کاسبب ہوگا۔ امریکہ اور اسکے ساتھیوں کو ناکامی ہوگی۔
AKBAR HUSAIN HASHMI
About the Author: AKBAR HUSAIN HASHMI Read More Articles by AKBAR HUSAIN HASHMI: 146 Articles with 127940 views BELONG TO HASHMI FAMILY.. View More