فارسی سلطنت کی حمایت

 
اسرائیلی حکومت نے یہودپربے پناہ احسانات کے بدلے ایران کے پہلے فارسی بادشاہ کے اعزازمیں یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کردیاہے۔اسرائیلی ریڈیونے اپنی فارسی نشریات میں بتایاہے کہ اس ٹکٹ کامقصد سائرس اعظم (کورش بزرگ) کوخراج عقیدت پیش کرناہے۔یہودی کورش بزرگ کواپنا عظیم محسن خیال کرتے ہیںکیونکہ انہوںنے یہودیوںکو بابل کی قید سے رہائی دلاکربسنے کے لیے فلسطینی سرزمین بطورتحفہ دی تھی ۔اس احسان کے بدلے دنیا بھرکے یہودیوںپر فارسی سلطنت بالخصوص کورش بزرگ کے احسانات ہیں۔عرب خبررساں ادارے العربیہ نیٹ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی حکومت کی جانب سے ایرانی فارسی بادشاہ کورش بزرگ کی یادگاری ڈاک ٹکٹ کااجراءگزشتہ منگل کوہواہے ۔یادگاری ٹکٹ پرایرانی بادشاہ سے منسوب مٹی کے ایک سلینڈرنمااینٹ کی تصویر شائع کی گئی ہے جس کے بارے میں مشہورکیاگیاہے کہ اس اینٹ پر کورش بزرگ کاوہ بیان نقش ہے جس میں انہوںنے انسانی رواداری کی تاکیدکی تھی۔یہودی مورخین کاکہناہے کہ کورش بزرگ نے یہودی مذہب کوامن دینے اوریہود سے رشتہ رکھنے پرخاص زوردیاتھا۔ سنہری اورنیلے رنگوںمیںچھپی ہوئی ٹکٹ کی بڑی تعدادمیں کاپیاں چھپوائی گئی ہیں۔ اس ٹکٹ کو اسرائیلی وزارت اسرائیلی وزارت خارجہ سے متعلق معلومات شائع کرنی والی نیم سرکاری ویب سائٹ پر بھی ملاحظہ کیاجاسکتاہے۔اسرائیل کے سرکاری اورغیرسرکاری جرائد نے اس ٹکٹ کوبڑے جذبے کے ساتھ جاری کرناشروع کیاہے۔اسرائیلی ریڈیونے اپنی فارسی نشریات میں اس ٹکٹ کوفارسی سلطنت سے اسرائیلی لگاﺅکی علامت قراردیاہے۔

ٹکٹ پرمٹی کے جس سلینڈرنمااینٹ کی تصویردی گئی ہے وہ ایرانی میوزیم میں محفوظ ہے جسے ایرانی حکومت قیمتی اورنادردستاویز کی حیثیت سے بڑی اہمیت دیتی ہے۔اسے زیادہ شہرت1971ءمیں شاہ ایرانی محمدرضاپہلوی کے دورمیں ملاہے ۔شاہ نے اس اینٹ کی ایک کاپی انگریزی اورفرانسیسی ترجمہ کے ساتھ منسلک کرکے اقوام متحدہ کوبھیجاتھا۔جس کامقصدیہ بتاناتھاکہ ایران کی فارسی سلطنت انسانی حقوق کااولین علمبردارہے اور زمانہ قدیم سے یہودیوںکوپناہ دینے والاملک بھی ایران رہاہے۔رپورٹ کے مطابق اسرائیل نے جس فارسی بادشاہ کی یادگاری ٹکٹ جاری کی ہے ان کانام کوروش اعظم یا سائرس اعظم ہے اس نے ایران کی ہخامنشی نامی فارسی سلطنت کی بنیادرکھی تھی ان کادورحکومت 530سے559قبل مسیح تھا۔سائرس کویہودیت میں انتہائی احترام کی نظرسے دیکھاجاتاہے۔کیونکہ اس نے بابل فتح کرکے یہودیوں کوآزادکردیاتھاجواس وقت تک بابل کے غلام تھے۔اسرائیلی ڈاک ٹکٹ میں دکھائے جانے والاکوروش اعظم سے منسوب سلینڈرنمااینٹ ایرانی میوزیم میں موجودہے۔اس کے بارے میں ایرانی حکومت کادعوی ہے کہ یہ انیسویں صدی میںبابل کے آثارقدیمہ سے دریافت ہواتھااوراس پراکادی زبان (عراق کی قدیم زبان)میںنبوکدنصرکی شکست اوربابل کے دیوتامردوخ کی قدرومنزلت اور سے حکومت کے زیرنگین تمام قوموںاوران کے مذاہب کو پوری آزادی دینے کی بابت وصیت لکھی گئی ہے۔

دلچسپ امریہ ہے کہ آثارقدیمہ سے متعلق ماہرین نے اس فارسی اینٹ کی حقیقت کومستردکردیاہے۔العربیہ کاکہناہے کہ لسانی ماہرین کابڑا طبقہ ایران کے اس دعوے کی تردیدکرچکاہے کہ ایسے مورخین کاکہناہے کہ کورش بزرگ سے منسوب اصل اینٹ پر انسانی حقوق اورمذہبی ہم آہنگی سے متعلق جوکچھ لکھاہواہے یہ سب کچھ ایران کی فارسی سلطنت نے اپنی بوسیدہ سلطنت کی شکست خوردہ عظمت میں دوبارہ سے روح ڈالنے کی غرض سے جعلی کارروائی کی ہے ۔یہودی مورخین نے اپنے مفادات کی خاطراسے مزیدمرچ مصالحہ لگاکربڑھاچڑھاکرپیش کیاہے تاکہ عراقی کردستان اوربابل پریہودی تسلط کے لیے راستہ ہموارہوسکے ،جویہودی ریاست کااصل مقصدہے اوراسرائیلی پرچم پر بنی ہوئی لکیروںسے بھی اس جانب اشارہ کیاگیاہے۔

اس سلسلے میں ہالینڈ کے مورخ jonah londonerنے لکھاہے کہ ایران اوراسرائیل نے اخمینی سلطنت کے فارسی بادشاہوںسے متعلق بہت سی خلاف واقعہ روایات مشہورکی ہیں جو حقائق سے متصادم اورمنافی ہیں۔ جرمن مورخ Matthews Schulzنے بھی اپنے تحقیقی مقالے میں سائرس اعظم سے منسوب اینٹ پرکندہ بیان کوسابق ایرانی حکومت کے شرمناک پروپیگنڈے سے تعبیرکیاتھا۔جرمن مورخ کا یہ مقالہ 2008ءمیں اسپیگل اخبارمیں شائع ہواتھا۔2008ءمیں ڈیلی ٹیلیگراف نے بھی اپنی رپورٹ میں لکھاتھاکہ فارسی حکمرانوںکے عدل وانصاف اورانسانی حقوق کی پاسداری سے متعلق روایات اورواقعات کاحقیقت سے کوئی تعلق نہیںہے یہ خودساختہ قصے ہیں جوایران نے اپنی قدیم فارسی سلطنت کی بوسیدہ تہذیب کو ازسرنو زندہ کرانے کے لیے مشہورکرائے ہیں،ایسے واقعات کوتاریخ میں شامل کراناجھوٹے پروپیگنڈے کامنظم حصہ ہے،جس کے فروغ میں انیسویں صدی میں ایران کے پہلوی خاندان نے اہم کرداراداکیاہے ۔

واضح رہے کہ اسرائیلی حکومت فارسی سلطنت کی بحالی کاخواہاںہے۔ یہودیوںکاخیال ہے کہ بابل کے بادشاہ نے چارہزاریہودیوںکوگرفتارکرکے بابل لایاتھا،یہودیوںکی اس قید کو بابل کی اسیری کہاجاتاہے،خورس نے اسرائیلیوںکی اسیری ختم کردی اورانہیںفلسطین جانے کی اجازت دے دی تھی جس کی وجہ سے یہودی انہیں نجات دہندہ قراردیتے ہیں۔ یہودی خودبھی فارسی سلطنت کی عظمت اوراپنے اوپرکئے احسانات کے قائل اورمعترف ہیںجبکہ ایران بھی ہمیشہ سے یہودیوںکویہ احسان یاددلاتارہتاہے۔رپورٹ کے مطابق اسرائیلی حکومت نے ایک اہم سڑک فارسی بادشاہ کورش بزرگ سے منسوب کرکے ان کے نام کی تختی لگادی ہے۔
ایران فارسی سلطنت کے قیام کے لیے کوشاں ہے،عراق،شام،یمن اوربحرین میں عرب حکومتوں کو کمزور کرانے کے لیے ایرانی سازشیںاسی سلسلے کی کڑی ہے،جس میںایران کو اسرائیل کاتعاون اورحمایت حاصل ہے۔اسرائیل کاخیال ہے کہ فارسی سلطنت کے قیام سے یہودیوںکوماضی کی طرح آزادی ملے گی اوردریائے نیل سے دجلہ تک مشر ق وسطی میں گریٹراسرائیل کاقیام ممکن ہوجائے گا ۔اس راہ میںدونوں کامشترکہ دشمن مشرق وسطی کے عرب ہیںاس وجہ سے عربوںکی دشمنی اسرائیل اورایران کے درمیان تعلقات کامشترکہ ایجنڈا ہے۔

عرب میڈیاکے مطابق اسرائیلی حکومت کی جانب سے جاری کردہ مذکورہ ڈاک ٹکٹ اسرائیلی ریاست کی ترجیحات اورپسندوناپسندکا آئنہ ہے جس سے ایک” دلچسپ “اورحقیقت کشاں حقیقت ابھرکرسامنے آتی ہے جو موجودہ ایرانی حکومت اوراسرائیل کے درمیان خفیہ تعلقات کاسبب ظاہرکرتی ہے۔

عرب میڈیاکے مطابق ایران ویسے تواسرائیل کوصفحہ ہستی سے مٹانے کااپنا موقف دھراتارہتاہے لیکن بعض واقعات سے اندازہ ہوتاہے کہ تہران کواسرائیلی حکام اورعوام سے خصوصی تعلقات قائم ہیں اوراسرائیلی باشندے بڑی سہولت اورسیکورٹی کے ساتھ وقتاًفوقتاًایران کے دورے کرتے ہیں۔ فارسی بادشاہ کے اعزازمیںاسرائیل کی جانب سے ٹکٹ کے اجراسے قبل اسرائیلی جریدے ”یدیعوت احرونوت “کی واشنگٹن میںبیوروچیف اورلی اولائی نے دوہفتوںپرمحیط ایران کادورہ کیاہے۔یہودی خاتون صحافی نے ایرانی شہریوںسے کھلے عام انٹرویوکیے ہیںمگرانہیں ایرانی معاشرے میں آزادانہ نقل وحرکت سے کسی نے نہیں روکا۔یادرہے کہ مذکورہ یہودی صحافی کو آٹھ سال قبل اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے دورے سعودی عرب کے کوریج کے لیے ریاض حکومت نے ویزہ جاری کرنے سے انکارکردیاتھا۔رپورٹ کے مطابق اسرائیلی صحافی کی ایران آمد پر ایرانی حکام نے متضاد بیانات دئے ۔وزیربرائے ثقافت علی جنتی نے بتایاہے کہ خاتون صحافی ایک یورپی ملک کے ویزے پرسیا ح کے طورپرداخل ہوئی تھی ۔ایرانی حکام کوایران سے واپسی پرمعلوم ہواکہ وہ اسرائیلی اخبارکی نامہ نگارہے۔ایران کے بیرون ملک صحافت کے شعبے کے ڈایریکٹرجنرل کاکہناتھاکہ خاتون امریکی ویزے پران کے ملک میں داخل ہوئی تھی۔یوںخودایرانی حکام کے بیانات میں کھلاتضادپایاجاتاہے۔امریکی اخبارنیویارک ٹائمرنے دعوی کیاہے کہ مذکورہ خاتون صحافی ایران جاتی رہتی ہے وہ اس سے قبل 2005اورپھر7ءمیں صدراحمدی نژادکے دورحکومت میں دومرتبہ ایران گئی تھی۔
 
علی ہلال
About the Author: علی ہلال Read More Articles by علی ہلال: 20 Articles with 15204 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.