ایم ایل اے صاحب کی خاموشی!

بے مثال سزا ہے یہ بے گناہوں کیلئے

’ایم ایل اے‘ جسے عوام اپنا نمائندہ چن کر اپنی تمام مشکلات کا ازالہ کرنے کیلئے اسمبلی میں بھیجتے ہیں تاکہ وہ اسمبلی میں جاکر اُس عوام کی خاطر لڑ مرے جس عوام نے اُسے بھاری اکثریت سے کامیاب بنا کر اپنا رہبر چنا ہوتا ہے ۔وہ ایم ایل اے جو انتخابات کے وقت وعدوں پہ وعدے کئے جاتا ہے ، وہ ایم ایل اے کہ انتخابات کے وقت جس کی زبان قینچی کی طرح چلتی ہے،چیختا ہے ……چلاتا ہے…… کبھی انمول وعدوں سے کبھی جھوٹے ارادوں سے وہ سب کو احمق بناتا ہے ……کہ…………جب وہ جیت جاتا ہے وہ …………اپنے ڈر اور زر سے ……بہت ہی ظلم ڈھاتا ہے ……وہ حق گوئی کا وعدہ کر کے سب کا حق کھاتا ہے……غریبوں کا حق چھین کر وہ اپنے محل بناتا ہے ……خود خوش و خرم رہ کر اوروں کو ستاتا ہے ……اور اسمبلی میں پہنچتے ہی وہ ایک خاموش چلتی پھرتی زندہ لاش کی مانند بن جاتا ہیتو ایسی صورتحال میں اس عوام کو مستقبل کیونکر روشن ہونے کی امید ہو سکتی ہے ؟یہ بات بھی درست ہے کہ زبان درازی اک اچھا انسان ہونے کی نشانی نہیں لیکن اپنے حق کو لٹتے ہوئے خاموشی بنائے رکھنا خاموشی نہیں بلکہ ایک مجرمانہ خاموشی ہے۔انتخابات میں ووٹ دیکر کسی کو کامیاب بنانا صرف ووٹنگ مشین کا بٹن دبانے کا نام نہیں بلکہ انتخابات میں کسی نمائندے کا چننا اُس کو ایسی طاقت بخشنے کا نام ہے کہ جس طاقت سے وہ اسمبلی میں اپنا حق لینے کیلئے بول اُٹھے عوامی مفاد کیلئے خود کو وقف کرے جو جذبہ عوام کی خاطر انتخابات کے وقت اُس لیڈر پہ طاری ہوتا ہے وہی جذبہ اسمبلی میں بھی اس پہ طاری رہے۔ کمال تو تب تھا کہ جس طرح سے ایک لیڈر انتخابات کے دوران اپنی زبان کو قینچی کی طرح چلاتا ہے اسی طرح سے وہ اسمبلی میں بھی عوام کی خاطر اپنی زبان چلائے نہ کہ عوامی آرزؤں اور اُمنگوں کاکوئی بھی خیال نہ کرتے ہوئے خاموش تماشائی بن کر اسمبلی اوقات کے شور شرابے کا مزہ لیتے رہنا ہے۔حیران کن بات ہے کہ ایک ایسا ایم ایل اے ہے جوکہ زبان ہی نہیں کھولتا اور کچھ ایسے ایم ایل اے ٹھہرے کہ اُن کی زبان سے سوائے گالی گلوچ کے کچھ نکلتا ہی نہیں۔ایک دوسرے کے لئے نا زیبا الفاظوں کا استعمال ، بے شرمی و بد تہذیبی کی حدود پار کر جاتے ہیں قوم کے یہ رہبر اس ریاست کے تہذیب و تمدن کی دھجیاں اڑاتے ہیں۔

یہی لیڈر حضرات جو ماؤں، بہنوں اور بچیوں کے تحفظ کے لئے بڑے بڑے خواب دیکھ رہے ہیں لیکن معاشرے میں ماؤں، بہنوں اور بچیوں کے تحفظ کایہ خواب اُس وقت چکنا چور ہو جاتا ہے کہ جب اسمبلی میں یہی لیڈر ایک دوسرے کو ماں بہن کی گالیاں دے دے کر تھکتے نہیں۔ معذرت چاہوں گا میرا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ میں کسی کی شخصیت پہ وار کروں لیکن کم از کم ایسی قدآور شخصیات کہ جن کے ہاتھ میں آنے والی نسلوں کا مستقبل ہے انھیں اس بات کا احساس دلانا چاہوں گاکہ جہاں آپ ایک طرف سے عوام کے لئے اسمبلی سیشن میں لڑ مر رہے ہیں وہیں آپ کی فحش کلامی سے معاشرہ کے بگڑ جانے کا خدشہ بھی ہے۔جہاں آپ معاشرے کو سدھارنے کی باطونی جگالی میں مصروف رہتے ہیں وہیں آپ معاشرے کو بگاڑنے میں بھی کوئی کسر باقی نہیں رکھتے۔کبھی اکبر صاحب نام اکبر یعنی’ بڑا‘ اسمبلی سیشن میں جب بھی بولتے ہیں تو اُن کے منہ سے کبھی بھی شائستہ الفاظ نہیں نکلتے ہیں ماں کی گالی، بہن کی گالی دینا اُن کیلئے کوئی بڑی بات نہیں،لال سنگھ بطور ِ ہیلتھ منسٹر کیلئے جس کی مثالیں پیش کی جاتی ہیں لیکن عہدے کا جوش سر چڑھ کے اس کی شخصیت پہ اس قدر بھاری پڑا کہ وہ بھی ایک لیڈی ڈاکٹر سے فحش کلامی کربیٹھے ۔یہ بات بھی ٹھیک کہ ملازم اپنے فرائض انجام دینے میں لا پرواہی برت رہے ہیں لیکن انھیں راستے پہ لانے کیلئے ایک الگ طریقہ کار ہوتا ہے ایک منسٹر کا ہرگز یہ فرض نہیں بنتا ہے کہ وہ کسی ملازم سے بدکلامی سے پیش آئے اگر ملازم لاپراہ ہے تو اس کے خلاف قانونی کاروائی کی جا سکتی ہے۔بدکلامی کی اس وباء نے ریاست جموں و کشمیر کے بہت سارے لیڈران کو مریض بنایا ہے ۔ وقارصاحب بھی اپنے وقار کے نام کا وقاربھی کبھی کبھارکھو بیٹھتے ہیں ۔اسی طرح سے بہت سارے ایسے لیڈر ہیں جو صرف اسمبلی سیشن میں ہی نہیں بلکہ بعض اوقات فون پہ بات کرتے ہوئے بھی فحش کلامی کا استعمال کرتے ہیں جو کہ معاشرے کو تباہی کی طرف لے جا رہے ہیں۔ تو یہ تھی اُن لیڈر حضرات کی بات جو بولتے تو ہیں لیکن اُن کا بولنا بھی معاشرے کے لئے مظہر ہو جاتا ہے۔

واضح رہے اب میں اپنے ایک خاموش مزاج ایم ایل اے صاحب کا ذکر کرنا چاہوں گاجو کہ اسمبلی سیشن میں کبھی بھی نہیں بولتے ہیں قابلِ قدرجناب اعجاز احمد خان صاحب جب بھی اسمبلی میں قدم رکھتے ہیں تو گویا اُس نے بات نہ کرنے کی سو سو قسمیں کھائی ہوں۔………………کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے………… لیکن اعجاز صاحب کے دل میں کبھی بھی نہیں آتا ہے۔یہاں میں اعجاز صاحب سے چند سوالوں کا جواب چاہوں گا کہ کیا آپ کے حلقہ انتخاب گول ارناس میں کوئی بھی ایسے عوامی مسائل نہیں ہیں جو کہ آپ اسمبلی میں اُبھاریں؟کیا حلقہ انتخاب گُول ارناس میں تمام سہولیات میسر ہیں ؟؟ کیا آپ نے عوام سے وہ تمام وعدے پورے کر دئیے جو آپ نے انتخابات کے وقت اُن سے کئے تھے؟کیا صدر مقام ضلع رام بن سے آنے والی سڑک کی خستہ حالی اور چھپرن کے مقام پر مسلسل پسیاں گر آنے کی وجہ سے لوگوں کی مشکلات کا مسئلہ آپ کی زبان پہ نہیں آتا؟کیا تحصیل گُول میں ڈگری کالج کی عمارت بنانے کا مسئلہ آپکے زیر غور نہیں؟اسمبلی سیشن کے شروع ہوتے ہی وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید نے سیاحت کو فروغ دینے کیلئے بار بار کہا کہ سیاحت کو فروغ دینا موجودہ سرکار کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج ہے ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ وزیر اعلیٰ کے ذہین میں بھی انتخابات کے دوران عوام گول سے کیا گیا وعدہ نہیں آیا کہ جب وزیر اعلیٰ مفتی سعید صاحب انتخابات کے دوران گُول تشریف لے گئے تھے تو انھوں نے اس وقت عوام سے یہ وعدہ کیا تھا کہ گُول کو سیاحتی درجہ دینا میری اولین ترجیح ہوگی اور میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ گول کو میں سیاحت کے نقشے میں ضرور لاؤں گا۔ لیکن سیاسی لیڈران کی یہ فطرت ہوتی ہے کہ جب وہ اقتدار میں آتے ہیں تو اُن کے ذہن و قلوب کا نقشہ بھی بدل جاتا ہے اور اس طرح سے انتخابات کے دوران جو نقشے اُن کے ذہن میں ہوتے ہیں انہیں پوری طرح سے فارمیٹ کر کے اپنی میموری واش کر لیتے ہیں اور اس طرح سے وہ پرانے وعدے بھول کر ایک نئی سوچ لے کر سامنے آتے ہیں۔…………لیکن …………محترم اعجاز صاحب ……’’تیری رہبری کا سوال ہے‘‘ کیا آپ اس دوران وزیر اعلیٰ کوگُول کی عوام سے کیا ہوا وعدہ یاد نہیں دلا سکتے تھے……اسے ہم اپنی بدنصیبی سمجھیں یاآپکی انتقام گیری کہ آپ اپنے خوبصورت صحت افرا مقامات جیسے دگن ٹاپ،د رساں گلی، نرسنگا،حجام مرگ، آستان مرگ کو سیاحت کے نقشے میں لانے کے لئے آپ اپنی زبان ِ مبارک کو جنبش نہیں تک نہ دیسکے؟کیا گھوڑا گلی گُول جہاں پارک تو بنائی گئی لیکن اس میں پھولوں کے بجائے کانٹوں نے جنم لیا اسکی ابتر حالت کو لیکر آپ فکر مند نہیں؟……محترم اعجاز صاحب آپکی یہ خاموشی اگر جس قدر آپ کیلئے ایک نعمت سے کم نہیں اُسی طرح آپکی یہ خاموشی حلقہ انتخاب گُول ارناس کی سادہ لوح عوام کے لئے سم ِ قاتل سے کم نہیں اس لئے محترم ایم ایل صاحب جس عوام نے آپ کو یہ رتبہ بخشا ہے اسے غنیمت جانئے اور عوام کے تئیں اپنے پست جذبوں کو حوصلہ بخشئے اور سامنے آکر اسمبلی سیشن میں چیخ کر اُس عوام کی خاطر لڑ مرئیے جس عوام نے آپ کو اس مقام تک پہنچایا ہے ۔ یاد رکھیئے ……یہ رتبہ آج ہے کل نہیں ……کل کا چمن آج کا ویراں ہے اور آج کے اس چمن کو کل ویراں ہونے کی اپنی باری کے لئے تیار رہنا ہوگا بشرطیکہ آپ عوامی مفاد کی خاطر سامنے آکر بول اُٹھیں۔اس عوام کی خاطر اگر آپ کے دل میں اِن کی خدمت کرنے کا واقعی کوئی جذبہ ہے تو برائے کرم عوامی مسائل کو اسمبلی میں ابھارئیے یوں اسمبلی میں خاموش رہ کر اپنا وقت ضائع مت کیجئے۔وسلام……آپ کا ایک ووٹر……!!

MOHAMMAD SHAFI MIR
About the Author: MOHAMMAD SHAFI MIR Read More Articles by MOHAMMAD SHAFI MIR: 36 Articles with 30109 views Ek Pata Hoon Nahi Kam Ye Muqader Mera
Rasta Dekhta Rehta Hai Sumander Mera
.. View More