آ پ کے وجود پر سوالیہ نشان بے معنی

 دہلی اسمبلی الیکشن میں کانگریس اور بی جے پی جیسی دونوں بڑی پارٹیوں کا مکمل طور پر صفایا کرکے عام آدمی پارٹی نے ہندوستان میں ایک نئی تاریخ رقم کردی ہے ۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ کا یہ دوسر اموقع ہے جس میں کسی ایک پارٹی کو 70 میں سے 67 سیٹوں پر جیت کے ساتھ 96 فی صد کی اکثریت ملی ہے ۔ اس سے قبل سکم میں بھی دو پارٹیاں اسمبلی کی تمام سیٹوں پر جیت درج کرکے 100 فی صد اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کرچکی ہیں۔ 2009 کے اسمبلی الیکشن میں پون کمار چاملنگ کی پارٹی سکم ڈیموکریٹک فرنٹ کو وہاں کی تمام اسمبلی سیٹوں پر جیت ملی تھی جبکہ یہی کامیابی سکم سنگرام پریشد 1989 میں وہاں حاصل کرچکی ہے۔حالیہ ایک سال میں اسی طرح کی کامیابی این ٹی راما راؤ کی تیلگو ڈیسم پارٹی بھی حاصل کرچکی ہے جسے آندھرا پردیش کی کل 294 سیٹوں میں سے 214 پر کامیابی ملی تھی ۔ تمل نادو جیسی بڑی ریاست میں بھی اے آئی ڈی ایم کے 234 میں سے 174 سیٹوں پر جیت درج کرانے کے ساتھ 74 فی صد اکثریت کے ساتھ کامیاب ہوچکی ہے۔ مغربی بنگال میں بایاں محاذ نے بھی کئی مرتبہ اس طرح کی تاریخ دہرائی ہے جس میں سب سے اہم 2006 کا انتخاب ہے جس میں 294 سیٹوں میں سے 235 پر جیت کے ساتھ 80 فی صد کی اکثریت ملی تھی ۔

تاہم دہلی میں عام آدمی پارٹی کی یہ جیت سب سے اہم ہے کیوں اس نے مرکز میں زیر اقتدار پارٹی کا سوپڑا صاف کیا ہے او رپندرہ سالوں تک اقتدار پر قابض رہنے والی کانگریس کو دہلی میں اجنبی کی طرح بنادیا ہے ۔ اور سب سے بڑا کمال یہ کہ ہندوستان کو ہندوراشٹر میں تبدیل کرنے والی طاقتوں کو اس نے یہ پیغام دیا ہے کہ ہندوستان کی ستر فی صد عوام سیکولر ہے اور وہ ہندوستان کو سیکولر زم کے ڈھانچے میں ہی دیکھنا چاہتی ہے۔ عام آدمی پارٹی کی یہ جیت کجروال کی شب وروز کی جہد مسلسل ، ان کی ٹیم کا خلوص ، ان کا عزم مصمم ، عوام کی اتحاد ویکجہتی اور دہلی کے مسلمانوں کی دانشمندی کانتیجہ ہے ۔ 78 فیصد سے زائد مسلمانوں نے عام آدمی پارٹی کو اپناووٹ دیا ہے ۔

عام آدمی پارٹی کے حوالے سے کچھ مسلمانوں کے ذہن ودماغ میں یہ خیالات گردش کررہے ہیں کہ یہ پارٹی بی جے پی کی بی ٹیم ہے ۔ اس نے اناتحریک کی کو کھ سے جنم لیا ہے۔ عام آدمی پارٹی کے حوالے سے یقینا یہی سچائی ہے کہ اس کے وجود میں بی جے پی کی خمیر شامل ہے ۔2011 میں اناہزارے نے کرپشن مخالف تحریک شروع کی تھی جسے آر ایس ایس اور بی جے پی کی مکمل حمایت حاصل تھی ۔ اسی تحریک کے بعد سے کانگریس مسلسل تنزلی کی شکا ر ہے ۔ بی جے پی آگے بڑھتی جارہی ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ اب آپ کانگریس کی جگہ لے کر ہندوستانی سیاست سے کانگریس کا خاتمہ کردے گی۔

کرپشن مخالف تحریک میں اناکے سب سے قریبی اروندکجریوال ، کرن بید ی آشوتوش ، کماروشواش جیسے لوگ تھے جنہوں نے آگے چل کر سیاست میں قدم رکھنے کا فیصلہ کیا ۔ البتہ کرن بیدی نے سیاست میں آنے سے انکار کیا تھا لیکن اس مرتبہ وہ بھی بی جے بی میں شامل ہوکر سی ایم بننے کا خواب دیکھ رہی تھیں جسے اسمبلی پہنچنے کا بھی موقع نہیں مل سکا۔

26 نومبر 2012 میں عام آدمی پارٹی کا قیام عمل میں آیا ۔ اس کے بعد صرف ایک سال کی محنت کے بعد اس پارٹی نے دسمبر 2013 کے اسمبلی الیکشن میں 28 سیٹوں پر جیت درج کرکے کانگریس ا ور بی جے پی دونوں کے لئے خطرے کی گھنٹی بجادی ۔ پہلے الیکشن میں اس نے صرف کانگریس کا صفایا کیا ۔ اور اب 2015کے انتخاب میں اس نے کانگریس کے ساتھ بی جے پی کا بھی صفایا کردیا ہے۔

یہ ہے’’ آپ ‘‘کی تاریخ لیکن جس کانگریس کو ہم سیکولرزم کی علم بردار کہتے ہیں اس کی بھی تاریخ کوئی زیادہ اچھی نہیں ہے۔تاریخ بتاتی ہے کہ کانگریس کے قیام میں سب بڑا رول برطانوی ریٹائرڈ افسر ایو ہیوم کا ہے جس کا مقصد برطانوی اقتدار کا سیاسی دائرہ کار بڑھانا تھا، ریٹائرڈ انگریز آفیسر ایو ہیوم (ایلن اکٹیوین ہیوم)کی کوششوں سے 28دسمبر 1885کو اس کی تشکیل عمل میں آئی تھی ۔ اس وقت کے وائسرائے برطانیہ لارڈ ڈفرین( 1884-1888) نے پارٹی کے قیام کی حمایت کی تھی۔ہیوم کے دماغ میں کانگریس کی تشکیل کا کردار انگریز حکومت کے لئے ایک وفادار اور معاون تنظیم بنانے کے ارادے سے تھا۔ہیوم کا ایسا ماننا تھا کہ وفادار ہندوستانیوں کی ایک سیاسی تنظیم کے طور پر کانگریس کے قیام سے ہندوستان میں 1857 جیسی لڑائی اور عوامی ردعمل سے نجات مل سکے گی۔

لیکن ہیوم اس میں ناکام رہے ۔سیاسی منظر نے کچھ یوں کروٹ لی کہ یہ پارٹی آزادی کی تحریک حصہ بن گئی ۔تحریک آزادی کے تمام لیڈر کانگریس سے وابستہ ہوگئے اور 1947میں ملک کو آزادی دلا کر کانگریس صحیح معنوں میں قومی پارٹی بنی۔

۔آزادی ملنے کے بعد مہاتما گاندھی نے کانگریس کو ختم کرنے کی تجویز بھی رکھی لیکن اس پر اتفاق رائے نہیں بن سکا۔وقت کے ساتھ ساتھ اس کا سب کچھ بدل گیا ، طریقہ کار اور مقاصد میں سوفی صد تبدیلی آگئی ۔ اگر نہیں کچھ بدل سکا تو وہ ہے کانگریس سے وابستہ لفظ گاندھی۔130سال کے کانگریس میں آج بھی گاندھی اور کانگریس ایک دوسرے کا مترادف بنا ہوا ہے۔ گاندھی کے بغیر کانگریس کا تصور اور کانگریس کے بغیر گاندھی کا تصور ناممکن ہوچکا ہے۔

یہ کانگریس کا تاریخی پس منظر ایسے میں عام آدمی پارٹی کے وجود پر سوال قائم کرنا اور اسے آرایس ایس او ر بی جے پی سے وابستہ سمجھنا عقلمندی اور دانشمندی نہیں ہوگی ۔ اس پارٹی سے یہی توقع ہے کہ مذہب اور فرقہ پرستی کی سیاست نہیں کرے گی ۔ اب تک کی مختصر تاریخ اسی کی شہادت دیتی ہے ۔ اسے مسلمان ، ہندو ، عیسائی ، سکھ جین وغیرہ کی حمایت نہیں ملی ہے بلکہ ہرایک ہندوستانی کی سپورٹ ملاہے ۔ ہندوستان جیسے سیکولرزم ملک میں ایسی ہی سیاست کی ضرورت ہے۔
Shams Tabrez Qasmi
About the Author: Shams Tabrez Qasmi Read More Articles by Shams Tabrez Qasmi: 214 Articles with 163752 views Islamic Scholar, Journalist, Author, Columnist & Analyzer
Editor at INS Urdu News Agency.
President SEA.
Voice President Peace council of India
.. View More