گاندھی کے بعد کجریوال کی باری

بابائے قوم مہاتماگاندھی اور گاندھی خاندان کے قاتلوں پر نہ صرف موجودہ حکومت سیاست کررہی ہے ، بلکہ یہ کہنا بھی غیر مناسب نہیں ہوگا کہ کانگریس نے بھی گاہ بہ گاہے ان قوم کے جیالوں کے قاتلوں کے پس منظر میں سیاست کی ہے ۔ایک طرف جہاں راجیو گاندھی کے قاتلوں کے معاملہ میں جب تمل ناڈو حکومت نے ذرا نرمی دکھائی تو کانگریس نے اس کے قدم کو انصاف کے تقاضو ں کے خلاف بتایا اور سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانا مناسب سمجھا ، تاہم جب کانگریس سے ان قاتلوں کی سزائے موت پر ٹھوس فیصلہ لینے سے متعلق کوئی سوال کیا جاتا ہے تو وہ یہ کہہ ’رحم کی عرضی صدر جمہوریہ کے پاس ہے‘ اپنی سیاسی ذہنیت کا مظاہرہ کرنے لگتی تھی/لگتی ہے۔ یعنی رحم کی عرضی مسترد کردینے سے کہیں ان قاتلوں کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے ناراض نہ ہوجائیں اور سیاسی روٹی سینکنا مشکل ہوجائے ۔ اس لیے یہ کہنے میں کوئی جھجک نہیں کہ بی جے پی اور کانگریس دونوں ملک کے جیالیوں کے قاتلوں پر سیاست کرنے سے نہیں چوکتیں۔

بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد بابائے قوم کے نام پر جاری سیاست کے ہنگامی ماحو ل میں ہندو مہا سبھا کے سوامی اوم کے بیان نے شوسل میڈیا پر ایک بحث چھیڑ دی ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے ، ملک کی بھلائی اور عوامی مفاد سے جڑا قابل ذکر قدم نام نہادمحب وطن تنظیموں کے لیے پریشان کن معاملہ ہے ۔یہی وجہ ہے کہ بدعنوانی سے لت پت سیاست کو تاز ہ دم کرنے کی کوشش میں مصروف عام آدمی پارٹی پر نشانہ سادھتے ہوئے سوامی اوم نے گاندھی کے بعد دہلی کے وزیر اعلی اروند کجریوال کو ٹھکانے لگانے کی دھمکی دے ڈالی ۔یہ کوئی اتفاقیہ معاملہ نہیں کہا جاسکتاہے کہ وی ایچ پی کے صد سالہ یوم تاسیس کے موقع پر جب اترپردیش میں منعقد تقریب میں ممبر پارلیمنٹ یوگی آدتیہ ناتھ نے مسلما نوں کو عار دلاتے ہوئے کہا کہ ہندو بیدارہوجائیں گے تو ان کا جینا محال ہوجائے گا ،اسی دن موہن بھاگوت نے بھی مسلمانوں کے خلاف متحدہونے کی زبردست تلقین کی ، ساتھ ہی ساتھ دہلی اسمبلی حلقے سے الیکشن لڑنے والے سوامی اوم کا انٹرویو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کردیا گیا ، جس میں سوامی نے صاف لفظوں ہندومہاسبھا کا سرگرم رکن بتاتے ہوئے کہا کہ میں گھنٹی بجانے والا سادھو نہیں ہوں ، پرسورام خاندان سے میرا تعلق ہے ، ملک مخالف سرگرمیوں کو ابھارنے والوں کا کام تمام کردیتا ہوں ، ہم نے گاندھی کو گالی ماری ہے، اب کجریوال کی باری ہے ، کیوں کہ وہ بھی ملک مخالف سرگرمیوں میں مصروف ہے ، اسے سمجھانے میں ہم مصروف ہیں ، اگر باز نہیں آتا تو اس کا بھی حشر گاندھی جیسا ہوگا ۔ اس سوامی جی نے یہ انکشاف کیا ہے کہ وہ مودی جی سے بھی انتہائی قریب ہے ،ووٹ تو منتشر کرکے بی جے پی سیٹ نکالنے کی ذمہ داری دی گئی تھی اور انھوں نے لوک سبھا انتخاب میں مودی کو کامیاب کرنے کے لیے کئی اہم ذمہ داری نبھائی ہے ۔
سوال یہ ہوتاہے کہ گاندھی کے جن افکار وخیالات کو آرایس ایس اور ان کی ہم خیال جماعتیں ملک مخالف مانتی ہیں ،کیاگاندھی جی کے وہ افکار ہندوستانی آئین کے خلاف ہیں ؟اگر نہیں تو یہ جماعتیں ملک مخالف سرگرمیوں میں مصروف ہیں ۔جب گاندھی کے افکار ونظریات اور ان کی تمام تر کوششیں ملک بسانے کے لیے تھیں تو ان کا قاتل کیسے محب وطن ہوسکتا تھا ؟کیسے اس کے مجسمے نصب کرکے ہیرو قرار دیاجائے ؟کیا ہندو مسلم اتحاد اور سیکولزم کے فروغ کی باتیں کرنا ملک مخالف ہیں ، اگر نہیں تو میرٹھ میں واقع ہندومہاسبھا کے آفس میں ہندومسلم اتحاد کی بات کرنے والوں کے تئیں ملک مخالف ہونے کا پوسٹر کیوں چسپاں ہے ؟اگر اہنسا کاپجاری ملک مخالف تھا اور ان قاتل قابل احترام ہے تو اٹل بہاری واجپئی نے گا ندھی کے طرز پر سوشلزم کو بے پی کا منشور کیوں بتایا تھا ؟اسی طرح نریندر مودی نے چند برس قبل بھوک ہڑتال کی تھی تو ہیڈگیور اورگولو الکر کی تصویر نہ لگاکر گاندھی جی کی تصویر کیوں لگائی تھی ؟ان کی تصویر کے نیچے ڈھائی دن کی بھوک ہڑتا ل کیوں لکھی تھی ؟ اس لیے سوال ہے کہ سوامی اوم اور دیگر لیڈران انھیں کیسے ملک مخالف قرارد دے کر گوڈ سے کو بھگوان کا درجہ دینے پر تلے ہیں ؟اب رہی بات کجریوا ل کی وہ کس طرح ملک مخالف سرگرمیوں میں مصروف ہیں ؟ سیاست میں لفظی شفافیت کی بات نہ کرکے عملی کردار اداکرکے سیاست کو بدعنوانیوں کو سے پاک کرنا ملک مخالف سرگرمیاں ہیں؟کیا سیاست سے ملک کے عوام کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کرنا ملک مخالف کام ہے ؟کیا جمہوریت کو مضبوکرنا ملکی قانون کے برعکس ہے ؟ اگر نہیں توکجریوال پر نشانہ سادھنا کس ذہنیت کا غماز ہے ؟کیا بی جے پی اور اس کی ہم خیال جماعتوں کو یہ اندیشہ ستانے لگا ہے کہ وہ گانگریس میں زمانے میں اپنے جن منصوبو ں کو عملی جامہ نہیں پہناسکے تو مرکز میں اقتدار کے بعد مواقع ملنے لگے تھے، تاہم اب کجریوال اینڈ کمپنی کے نظریات اور ان کی کامیابیاں آڑے آنے لگی ہیں کہ انھیں اپنے منصوبو ں کوفروغ دینا مشکل نظر آرہا ہے ؟ دہلی الیکشن میں کامیابی کے بعد عام الیکشن میں سمٹتی نظر آنے والی عام آدمی پارٹی نے جس طرح ایک بار پھر ناقابل یقین کامیابی حاصل کی ہے ، اس سے صاف اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ آئندہ دیگر ریاستو ں میں ہونے والے انتخابات میں بی جے پی کے لیے دم دکھانا کوئی آسان نہیں ہوگا ، اس طرح وہ اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب نہیں ہوں گے ۔ اس لیے اروند کجریوال پر نشانہ سادھ کر کیچڑ اچھالنے کی مہم شروع کردی گئی ہے ۔

عام الیکشن میں قابل ذکر کامیابی کے بعد بی جے پی لیڈران کو ایسا محسوس ہونے لگاکہ لوگوں کے دلوں میں وہ گھر کرگیے ہیں ، اس لیے دیگر ریاستوں میں کامیابی سے راجیہ سبھا میں مضبوطی کے بعد اپنے منصوبوں کو بآسانی عملی جامہ پہنا نا شر وع کردیں گے ، جس کی ماحول سازی ہونے لگے تھی تاہم دہلی الیکشن نے عام آدمی پارٹی کوبے مثال جیت دلاکر دہلی کے باشندوں نے یہ احساس دلادیا کہ مذہبی منافرت اور تشدد آمیز سیاست میں ان کا یقین ہے ۔ پچھلیدہلی الیکشن میں 32نشستوں اور عام انتخاب میں ساتوں سیٹوں پر کامیاب ہونے والی بی جے پی کو یہاں کے ووٹروں کو آگاہ کردیا ہے کہ منافرست کی سیاست ملک کے لیے سود مند نہیں ہے ، انھوں نے بی جے پی کو دہلی میں قابل ذکر کامیابی سے ہمکنار کیا تھا تو اس میں بی جے پی کی سطحی ذہنیت کاکردار نہیں تھا ، بلکہ ڈیولپمنٹ ایشو ز کی کارفرمائی تھی ، تاہم بی جے پی اور ان کی ہم خیال جماعتوں نے ڈیولپمنٹ ایشوز کو چھوڑکر مذہبی تشدد سے لبریر سیاست کانعرہ لگانے لگی تو دہلی کے ووٹر روٹھ گیے ۔اس صورتحال میں بی جے پی کوسب سے زیادہ اس بات پر غورکرنا چاہئے کہ ان کی کامیابی میں ان کا ایجنڈا کبھی اہم رول ادا نہیں کرسکتا ہے ، اس لیے ملک مخالف سرگرمیوں میں مصروف ہونے کے بجائے ملکی مفاد کے لیے غوروفکر کرے۔

باوجود کہ ہندوستانی تاریخ کبھی بھی ’مذہبی تناؤ‘ کی کیفیت سے ’مکمل ‘آزاد نہیں ہوئی ، ملک وقوم کی بھلائی کے لیے بلاتفریق مذہب وملت جی جان کی بازی لگانے والوں سے یہ ملک محروم نہیں رہا ۔یہی وجہ رہی کہ ملک کی تاریخ میں اخوت وجانثاری اور بقائے باہم کے واضح نقوش ملتے ہیں اور مذہبی منافرت اور گروہی عصبیت کے معاملات کو ہمیشہ دبانے کی کوشش کی گئی ۔ یہ الگ بات ہے کہ گاہے بہ گاہے ایسے معاملات اور ایسی ذہنیت کھل کر بھی سامنے آئیں ۔تاہم اب یہ حقیقت سامنے آگئی کہ منافرت اور تشدد پر مبنی وہ موضوعات جن سے ملک وقوم کی بھلائی نہیں جڑی ہے ، انھیں بھی مرکزی حکومت اور اس کی ہم خیال تنظیمیں اچھا کر ملک کی فضا کو آلودہ کرنا چاہ رہی ہیں ۔ ان کی روش اس بات کی گوہ بنتی جارہی ہے کہ ملکی آئین وقوانین سے کہیں زیادہ انھیں اپنے مفادات و نظریات محبوب ہیں ، کیوں کہ اگر ان کے ذہن ودماغ کے کسی بھی گوشہ میں ملک کی سلامتی اور سیکولرزم کی علمبری کااحساس بھی ہوتا تووہ شاید ایسے موضوعات پر فوکس نہیں کرتے ، جن سے ملک کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں ۔ بی جے پی کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہندوستان لاکھ مذہبی تناؤ کیوں نہ ہو جیت سیکولرزم کے حامیوں اور بقائے باہم کے نظریات کو فروغ دینے والو ں کو ہی ہوگی ، دہلی الیکشن اس کی تازہ مثال ہے ۔
Salman Abdus Samad
About the Author: Salman Abdus Samad Read More Articles by Salman Abdus Samad: 90 Articles with 92365 views I am Salman Abdus samad .I completed the course of “Alimiyat” from Islamic University Darul Uloon Nadwatul Ulama Lucknow. Right now doing the course o.. View More