ریاست کے منہ پر طمانچہ

خون کے ایک ایک قطرے کا حساب لیں گے،چن چن کر ماریں گے ایک ایک کو تلاش کر کے ختم کریں گے،آخری دہشت گرد کے خاتمے تک سکون سے نہیں بیٹھیں گے، ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے ،عبرت ناک سزائیں دیں گے،مجرم بہت جلد کٹہرے میں کھڑے ہوں گے ،معصوم لوگوں کی جان لینے والے خواہ کتنے ہی بااثر کیوں نہ ہوں قانون سے بچ نہیں سکیں گے،ہم غیر معمولی اقدامات کریں گے،جی ہاں غیر معمولی اقدامات ،معمولی اور روٹین کے معاملات پہ نظر رکھنا ہماری ذمہ داری نہیں،یہ اور اس طرح کے بیانات ہر واردات کے بعد سن سن کر اس قوم کے کان پک چکے ہیں ،جس طرح اب کسی دہشت گردی کے واقعے کو لوگ خالی او ہو ہو سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے اسی طرح اس طرح کی بے مقصد اور گھسی پٹی لفاظی کو بھی ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتے ہیں،اور اگر ذرا سا بھی غور کیا جائے تو انہی بیانات سے ذمہ داروں کی کمزوری اور کانپتی ٹانگیں محسوس کی جا سکتی ہیں،کیوں کہنا پڑتا ہے کہ مجرم خواہ کتنے ہی با اثر کیو ں نہ ہوں با اثر کیا مطلب جناب مجرم تو مجرم ہوتا ہے بااثر ہو یا بے اثر،قابل غور بات یہ نہیں کہ آپ کیا کریں گے اصل معاملہ یہ ہے کہ اس ملک میں مجرم اتنے با اثراتنے دلیر اور نڈر کیسے ہو گئے کہ جب چاہتے ہیں جہاں چاہتے ہیں ریاست کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ رسید کر دیتے ہیں،کبھی کسی نے اس امر پہ غور کرنے کی زحمت گوارا کی کہ کیوں ہمارا ملک اکھاڑا بن چکا ہے کیوں ہر کوئی جب چاہتا ہے جس وقت چاہتا ہے اور جہاں چاہتا ہے ریاست کی اتھارٹی کو چیلنج کر دیتا ہے کیا ایسا دنیا کے کسی بھی اور ملک میں ممکن ہے،یقین کیجیے دنیا کے کسی ملک میں نہ ایسے واقعات ہوتے ہیں نہ ایسے نادر حل جیسے اپنے ہاں رواج ہیں،جناب وزیراعظم نے حل نکالا تو فوری انصاف کے لیے فوجی عدالتیں قائم کر نے کا اعلان کر دیا،پشاور میں 131بچے مر گئے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے مگر تھر میں بھی 123بچے بھوک کی وجہ سے لقمہ اجل بن گئے کیا یہ فوجی عدالتیں ان کے والدین کو بھی ریاست سے انصاف دلا پائیں گی،جناب دہشت گردی کے خلاف آپ فوج کا ساتھ دیجیے پوری یکسوئی سے پوری جراء ت اور ہمت سے انہیں ہر ممکن وسائل بھی فراہم کریں مگر دہشت گردی جیسے عفریت سے نمٹنے کے لیے ڈنگ ٹپاؤ پالیسیوں کی بجائے دیرپا اور پائیدار حل تلاش کریں،کیا کوئی سیاستدان کور کمانڈر بن سکتا ہے نہیں بالکل بھی نہیں اسی طرح کوئی فوجی افسر بھی جج کی ذمہ داری احسن طریقے سے سرانجام نہیں دے سکتا،آپ فوجی افسروں کو مت الجھائیں وہ جو کام کر رہے ہیں انہیں وہ کرنے دیں آپ اپنا کام کریں کیوں اپنی ذمہ داریوں سے فرار حاصل کرتے ہیں،فوج پہلے ہی اس ملک کے لیے نہ صرف اپنی جانوں کا نذرانہ تک پیش کر رہی ہے بلکہ وہ آپ کے کرنے کے کام بھی پوری محنت اور لگن سے سرانجام دیتی ہے اور دے رہی ہے،زلزلہ آجائے تو فوج سب سے پہلے ،سیلاب آجا ئے تو فوجی جوان پانی کے اندر،اور تو اور جب کسی دھرنے یا احتجاج سے آپ کو اپنی جان کے لالے پڑتے نظر آئیں تو بھی فوج آپ کی قیمتی کھالوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار،آپ اپنی اداؤں پہ غور کیجیے ،قانون میں اصلاحات لائیں قوم نے مینڈیٹ آپ کو دیا ہے آپ دہشت گردی کے خلاف موئثر اور قابل عمل پالیسی بنائیں،مگر معذرت کے ساتھ مجھے اس ریاست اس حکومت سے کوئی امید نہیں جو ایک لاؤڈ اسپیکر تک بند کروا نہیں سکتی،گلی محلے میں پھیلے درسوں مدرسوں کو کسی قائدے قانون میں نہیں لاسکتی،اس سے یہ توقع بالکل عبث ہے کہ وہ اس قوم کو ان درندوں سے نجات دلائے گی جو کسی اصول ظابطے کو مانتے ہیں نہ مذہب و ملت کو،آپ ریاست کی اتھارٹی دیکھیں کسی بھی سڑک پر پندرہ افراد اکٹھے ہو کر بین الاضلاحی کیا بین الصوبائی شاہراہ کو بند کردیتے ہیں گھنٹوں گذرنے کے بعد جب گھومتا گھامتا کوئی ایس ایچ او یا ڈی ایس پی رینک کا افسرموقع پرپہنچتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ مظاہرے میں شریک تین لوگوں کے گھر پانی نہیں آ رہا ،اور اس پر بھی انتظامیہ کی ان پندرہ افراد کی منتیں ترلے کرنے کے بعد سڑک کھلتی ہے کوئی بھی خواندہ نیم خواندہ شخص جس وقت چاہتا ہے مسجد کا اسپیکر آن کرتا ہے اور اپنی مرضی کی تبلیغ شروع کر دیتا ہے یہ جانے بغیر کے اس کے پڑوس میں کوئی مریض کس حال میں ہے اور یہ چھ اسپیکر اس شخص کا کیا حشر کر رہے ہوں گے ، وہ ریاست کیسے اپنے شہریوں کو ماں کے جیسا تحفظ فراہم کر سکتی ہے جس میں ایک کروڑ کے لگ بھگ ایسے افراد رہتے ہوں جن کا اس ملک و ریاست سے کسی بھی قسم کا کوئی تعلق نہ ہو مگر وہ اس ملک میں نہ صر ف شادی شدہ بلکہ مارکیٹو ں اور پلازوں کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ ملک کے پچاس فی صد کاروبار پہ بھی قابض ہوں ، (میری مراد افغانیوں سے ہے )جن کو ملک کے کسی بھی حصے تک ہر ممکن رسائی حاصل ہو،اور اس ریاست کی کیا ہی بات ہے جس میں پٹواری سے لیکر ڈی سی او تک،پولیس کانسٹیبل سے لیکر منسٹر تک ہر جائز کام کے لیے بھی پہلے ساڈاحق ایتھے رکھ سننا پڑے اور مہینوں نہ ہونے والا کام پیسے لگاتے ہی منٹوں میں ہو جائے،اگر آپ کو امن چاہیے خوشحالی چاہیے سکون چاہیے تو کسی وقتی پالیسی کی بجائے آپ کو ایک مربوط اور منظم پالیسی بنانا ہوگی جس میں کسی بھی شخص کو کسی بھی صورت ریاست اور اس کی اٹھارٹی کو چیلنج کرنے کی ہمت نہ ہو،ہر شہری کو تحفظ حاصل ہو جو ٹیکس دے اسے یقین ہو کہ اس کا پیسہ اس ملک اور اس ملک کے لوگوں کی بہتری اور فلاح پہ استعمال ہو گا،ہر شہری کم از کم اپنے گھر میں اپنے آپ کو محفوظ تصور کرے،مذہب ہر شخص کا ذاتی اور خالصتاً نجی معاملہ ہو،کسی کو کسی کے ذاتی معاملات میں کسی بھی صورت مداخلت کی اجازت نہ دی جائے،ہرجامع مسجد میں باقاعدہ حکومت کے تنخواہ دار بلکہ پبلک سروس کمشن کے ذریعے امتحان سے منتخب ہونے والے لوگ منبر پر بیٹھیں،کسی بھی ایرے غیرے اور نیم خواندہ شخص کو کسی بھی صورت محراب و منبر کے نزدیک بھی نہ پھٹکنے دیا جاے،گلی محلے کے کسی مفتی و مولوی کو کسی بھی صورت فتویٰ دینے کی اجازت نہ ہو،پورے شہر میں ایک جگہ سے اذان ہو اس کے لیے بلدیہ کے دفتر میں ٹاورز لگائے جا سکتے ہیں،دونوں مسالک کی اذانیں ایک ہی جگہ سے مقررہ وقت پہ ایک ایک بار ہوں ،کسی بھی شخص کو کسی بھی صورت کوئی بھی مین سڑک اور گذرگاہ بند کرنے کی اجازت نہ دی جائے،ایف آئی آر کے اندراج کو آسان بنایا جائے اور پویس کو ایک مقررہ مدت تک اسے نبٹانے اس کا چالان پیش کرنے کا پابند کیا جائے،کسی قبضہ گروپ کو پنپنے نہ دیا جائے جب حکومت بوقت رجسٹری کسی بھی مکان اور پلاٹ پہ لاکھوں روپے ٹیکسز لیتی ہے تو صارف کے پلاٹ اور مکان کی حفاظت اور اس تک منتقلی کی بھی باقاعدہ ذمہ داری لے،عدالتی نظام کو یوں موئثر کیا جائے کہ کسی بھی کیس کا چھ ماہ کے اندر اندر فیصلہ ہو جائے دادا کیس کرے اور پوتا تاریخیں بھگتے یہ نظام انصاف اور کلچر اب بدل جانا چاہیے،وکیلوں کو بھی ہر کیس کو اپنے انجام تک پہنچانے کا پابند کیا جائے ایک وکیل اتنے ہی کیس اپنے پاس رکھے جتنوں میں وہ بروقت پیش ہو سکے،علاج ہر شہری کی بنیادی ضرورت ہے اس کے لیے گورنمنٹ کے ہسپتالوں میں ہر شہری کو مکمل علاج فراہم کیا جائے ، پورے ملک میں یکساں نظام تعلیم رائج کیا جائے، ہر مدرسے میں بے شک مسالک کے لحاظ سے مگر حکومت کے علماء بورڈ کی طرف سے فراہم کیا گیا سلیبس پڑھایا جائے،ہر مسجد میں میں خطبہ اور خطاب ریاست کی طرف سے مہیا کیا جائے اور اسکی سخت ترین مانیٹرنگ کی جائے، کسی بھی اعلیٰ سے اعلیٰ حکومتی شخصیت کے لیے بھی کسی سڑک کو بند نہ کیا جائے روٹس لگانے کی لعنت سے اس قوم کو اب نجات ملنی چاہیے،صدر اور وزیراعظم کو اگرجان بہت پیاری ہے تو وہ پیلی کاپٹر استعمال کریں،جناب وزیر اعظم صاحب یہ ہیں غیر معمولی حالات میں کرنے والے غیر معمولی اقدامات، اب ہم نے بہت تمانچے کھا لیے اب الٹے ہاتھ کا تھپڑ ان دہشت گردوں کے بدنما چہروں پہ مارنے کی ضرورت ہے اگر آپ یہ سب نہیں کر سکتے تو پھر آپ ہر واردات کے بعد فقط لکیریں پیٹیں گے قوم مرتی رہے گی اور آپ کی خالی خولی شعلہ بیانیا ں ان کے زخمو ں پہ مرہم کی بجائے نمک کا کام دیں گی، ابھی وقت ہے اور درست وقت پہ کیے گئے درست اقدامات قوموں کی زندگی میں تبدیلی لاتے ہیں،سانپ گذر جانے کے بعد لکیر پیٹنے والے بے وقوفوں کے زمرے میں آتے ہیں،،،،اﷲ آپ کا حامی و ناصر ہو