سانحۂ آرمی پبلک اسکول پشاور۔معصوم شہیدوں تمہیں سلام

پاکستان گزشتہ کئی سالوں سے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اب تک ۵۵ ہزار لوگ دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں اور ایک کھرب ڈالر سے زیادہ کا مالی نقصان ہوچکا ہے۔ دہشت گردی کی لپیٹ میں پاکستان ہی نہیں دنیا کے بے شمار ممالک حتیٰ کے امریکہ جیسا بڑا ملک بھی دپشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ کچھ ممالک دہشت گردوں سے مقابلہ کرتے کرتے اپنی معیشت کو تباہ و بر باد کر چکے ہیں ۔ کئی ممالک تو پچیس تیس سال تک اس عذاب میں مبتلہ رہے ۔ دہشت گردی تو پاکستان کے قیام کے فوری بعد ہی شروع ہوچکی تھی ۔ پاکستان کا پڑوسی ملک جس سے ہم کئی جنگیں بھی لڑچکے ہیں نے پاکستان کو دل سے قبول ہی نہیں کیا۔ چنانچہ روزِ اول سے ہی پاکستان کے خلاف قسم قسم کے حربے اور ہتھکنڈے استعمال کرتا رہا ہے اس کا یہ عمل اب بھی جاری ہے ان کا مقابلہ پاکستانی عوام ، پاکستانی حکومتیں اور پاکستان کی مصلح افواج بہادری سے کرتی رہیں ہیں اور کررہی ہیں ۔پشاور سانحہ کے پیچھے بھی ہمارے اس پڑوسی کی کارستانی ہوسکتی ہیں جس کی جانب ڈاکٹر عامر لیاقت حسین نے پروگرام’ صبح پاکستان ‘میں اشارہ بھی کیا اور اس کے جواب میں بھارتی وکرم سود بھڑک گیا اور نہ جانے کیا کیا اپنے مضمون میں عامر لیاقت کے بارے میں لکھ ڈالا۔ خیر اس کا جواب تو عامر لیاقت نے اپنے پروگرام میں تسلی بخش اور بہت خوب دے ڈالا، کلیجہ ٹھنڈا ہوگیا۔ موجودہ دہشت گردی کا باقاعدہ آغاز نائن الیون کے بعد شروع ہوا۔امریکہ میں رونما ہونے والا۹ ستمبر ۲۰۰۱ء کا واقعہ دہشت گردی کا نقطہ آغاز کہا جاسکتا ہے۔جسے9/11 کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ دہشت گردی کے اس واقعہ میں القاعدہ کے19 دہشت گردوں نے ائر لائن کے چار ہوائی جہاز اغوا کرنے کے بعد دو بوئنگ 767جن میں ۰۰۰،۲۰ ہزار گیلن پیٹرول(جیٹ فیول) موجود تھا منگل ۹ ستمبر ۲۰۰۱ء کی صبح 8.45پر نیوآرک کے ’ولڈ ٹریڈ سینٹر ‘ سے ٹکرادیا، ایک بوئنگ واشنگٹن کے باہر پینٹاگان میں جب کے تیسرا بوئنگ پینسلوینیا کے میدان میں کریش کردیا گیا۔اس خود کش حملے میں ۳ہزار افراد جن میں ۴۰۰ پولیس آفیسر ز اور فائر فائیٹر بھی شامل تھے لقمہ اجل بن گئے۔ دنیا کی تاریخ کا الم ناک واقعہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس دہشت گردی کے بعد امریکہ نے افغانستان میں اپنی فوجیں منتقل کردی اور وہاں پر موجود القاعدہ اور دیگر دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کا عمل جاری رہا ۔ افغانستا ن سے یہ دہشت گردی پاکستان منتقل ہوگئی جس کا مقابلہ پاکستانی قوم آج تک کررہی ہے۔

نائن الیون کے بعد پاکستان میں دہشتگردی کے بے شمار واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ۲۰۰۳ء سے ۲۰۱۴ء کے درمیان ۵۵۸۷۸ پاکستانی دہشت گردی کا نشانہ بنے، ۲۰۰۲ء سے ۲۰۱۴ء کے درمیان پاکستان میں کل ۴۱۰ خود کش حملے ہوئے ، ۲۰۰۱ء سے ۲۰۱۴ء کے درمیان مجموعی طور پر ۵۰۹۵ بم دھماکے ہوئے۔ وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ پچھلے چار سالوں کے درمیان ملک بھر میں ۶۱۰۴ خود کش حملے اور دھماکے ہوئے ۔ مختلف بم دھماکوں اور خود کش حملوں میں جام شہادت نوش کرنے والوں کی تعداد ہزاروں میں پہنچ چکی ہے۔بے نظیر بھٹو پر ہونے والا حملہ ، کوئٹہ میں بلیرڈ ہال دھماکہ، پشاورمارکیٹ بم حملہ ،یمس اورکزئی میں اینٹی طالبان قبائلی بمباری،کاکاغذبمباری، ۸ جون شیعہ زائرین کی بس ایران سے کوئٹہ آتے ہوئے بس پر حملہ ہوا، اسی روز کراچی ائر پورٹ پر دہشت گردوں کے ہاتھوں ۳۰ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتا نا، ۲ نومبر واگہہ بارڈر پر خود کش حملہ، لیکن ۱۶ دسمبر ۲۰۱۴ء کی صبح رونما ہونے والا دہشت گردی کا واقعہ اپنی نوعیت کا شاید پہلا واقعہ تھا جس میں دہشت گردوں نے معصوم بچوں ، اسکول کے پرنسپل، اساتذہ اور دیگر لوگوں کو نشانہ بنا یا۔سات دہشت گرد بھی افواج پاکستان کے ہاتھوں مارے گئے۔ یہ دن ہماری تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا ۔دل کو ہلا دینے ، خون کو گرمادینے ، دماغ کو ماعوف کردینے والا دن۔ آرمی پبلک اسکول پشاورکے معصوم پھولوں کو دہشت گردوں نے بے دردی، سفاکی اور بے رحمی سے خون میں نہالا دیا۔۱۳۲ معصوم بچے اوردیگر ۹ افراد شہید
کر دیئے گئے۔دل دہلادینے والا شوکت رضا شوکتؔ کا شعر ؂
پھول دیکھے تھے جنازوں پر ہمیشہ شوکتؔ
کل میری آنکھوں نے پھولوں کے جنازے دیکھے

جب سے پاکستان میں دہشت گردی شروع ہوئی ہے ہر شہر اس کی لپیٹ میں رہا لیکن پشاور کو دہشت گردوں کا مرکز کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ اس دوران پشاور شہر نے دہشت گرد کے بے شمار واقعات دیکھے اپنی بہادر فوج کے عظیم اور بہادر فوجیوں کے جنازے اٹھائے، بے گناہ مردوں ، خواتین اوربچوں کو اپنے ہاتھوں دفن کیا ۔ لیکن ۱۶ دسمبر ۲۰۱۴ء نے پورے ملک کے عوام کو خون کے آنسو رلادیا ۔ اس نے تمام واقعات کو پیچھے چھوڑ دیا ۔پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا، ہر ایک خواہ وہ پاکستان میں ہو یا پاکستان سے باہر، مسلمان ہو یا غیر مسلم ہر ایک پر لرزہ طاری ہوگیا، بچوں کے بہیمانہ قتل سے درد کی ایسی ٹیس اٹھی ہے کہ اس نے ہر ایک کو بے چین کرکے رکھ دیا ہے۔ پشاور شہر تو حادثات کا گڑھ بنا گیا ہے یہاں کے عوام حادثات کے بوجھ تلے دب کر رہ گئے ہیں۔ خیبر پختون خواہ کے عوام حوصلہ مند ہیں، بہادر ہیں، حالات کا مقابلہ کرنے کی جرت رکھتے ہیں ۔ دہشت گرد تھک جائیں گے لیکن پاکستان خصوصاً خیبر پختون خواہ کے عظیم حوصلہ مند لوگ ہمت ہارنے والے نہیں۔ د ہشتگردوں کی سفاکی، بر بریت اور درندگی کا اندزہ اس بات سے لگ یا جاسکتا ہے کہ اسکول کے ایک طالب علم جو قسمت سے زندہ بچ گیا کا کہنا تھا کہ ان کی پرنسپل کو ان کے سامنے آگ لگائی گئی۔ دہشتگرد بچوں سے ان کے نام پوچھتے اور ان کے والد کے پیشے کے بارے میں سوال کرتے۔ جن کا تعلق پاک افواج سے ہوتا انہیں اسی وقت بے رحمی سے خون میں نہلا دیاجاتا، طاہر ہ قاضی کے بارے میں یقینا ان کے پاس معلومات ہوں گی کہ ان کے شوہر کرنل(ریٹائر) قاضی ظفر اﷲ ہیں ۔اسی وجہ سے انہوں نے طاہرہ قاضی کے ساتھ انتہائی بربریت کا سلوک کرتے ہوئے طالب علموں کے سامنے انہیں جلا کر شہید کردیا۔دہشتگروں کا یہ عمل انہیں جنت میں لے جائے گا؟ ۔کس قدر گمراہ ہیں اور لاعلم ہیں ان کے سربراہ اور یہ دہشتگرد خود ۔ یہ عمل کرنے والے مسلمان تو کیا یہ دردندے تو انسان بھی کہلانے کے لائق نہیں۔
توں تم سید بھی ہو، مرزا بھی ہو افغاں بھی ہو
تم سب کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو ؟؟؟

اسکول کی پرنسپل طاہرہ قاضی نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے بہادری، فرض شناسی اور قربانی کی اعلیٰ مثال پیش کی۔کہا جاتا ہے کہ فوجی کمانڈوز آپریشن کے دوران انہیں دہشتگردوں کے شکنجے سے بہ حفاظت باہر نکالنے میں کامیاب ہوگئے تھے لیکن وہ یہ کہہ کر دوبارہ اسکول میں واپس چلی گئیں کہ میں اپنے اسکول کے بچوں کو تنہا نہیں چھوڑ سکتی ۔ جس کے نتیجے میں درندہ صفت دہشتگردوں نے بے رحمی ، صفاکی، بربریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے موت کی نیند سلا دیا۔ طاہرہ قاضی نے جرٔت اور قربانی کی جو تاریخ رقم کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔

طاہر ہ قاضی نے شہادت کے مرتبہ پر فائز ہو کر پوری قوم کو یہ سبق دیا کہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں کوئی بھی مشکل آئے ہمیشہ اپنے فرض کو مقدم رکھا جائے، ظلم و جبر کے سامنے فرار ہونے سے بہتر ہے کہ اس کے سامنے ڈٹ جایا جائے حتیٰ کہ اپنی جان چلی جانے کا اندیشہ ہو تو اس کی بھی پروانہ کی جائے۔ ان کے بیٹے نے درست کہا کہ انہیں اپنی ماں کی اس قربانی پر فخر ہے۔ طاہر قاضی کی اس بے مثال قربانی پر پوری قوم کوان پر فخر ہے۔ حقیقیت یہ ہے کہ انہوں نے فرض شناسی اور قربانی کی لازوال مثال پیش کر کے پوری اساتذہ برادری کا ہی نہیں بلکہ پوری قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے۔طاہر ہ قاضی کی جرٔت اور بہادری پر پوری قوم کاانہیں سلام۔ اسکول کی ایک اور بہادر استاد افشاں احمد نے بھی بہادری کی لازوال داستان رقم کی۔ اسکول کے ایک طالب علم عرفان اﷲ نے ایک گفتگو میں بتایا کہ اس کی ٹیچر افشاں احمد چھلانگ لگا کر بچوں اور دہشت گردوں کے درمیان آگئیں اور انہیں للکار کر کہا کہ ’تم میرے مردہ جسم پر میرے بچوں کو مار سکتے ہو۔ میں اپنے بچوں کو فرش پر خون میں لیٹے ہوئے نہیں دیکھ سکتی‘۔ دہشت گردوں نے انہیں زندہ جلا ڈالا لیکن وہ پھر بھی بچوں کو بھاکنے کا کہتی رہیں۔سلام ہو ایسی بہادر ماؤں اور بیٹیوں پر۔

ظلم کرنے والوں کی ڈھٹائی، بے رحمی ، بے غیرتی تو دیکھیں کہ اپنے بے رحمانہ عمل پر ان کے ہاتھ کا کانپنا تو دور کی بات ، دل نہیں دھلابلکہ اس سے بھی بڑھ کر کر گزرنے کے احکامات و ہدایت کے منتظر دہشت گردوں نے اسکول کے آڈیٹوریم میں چھوٹے چھوٹے بچوں کو خون میں نہلا نے کی کاراوئی کے بعد موبائل پر بات کرتے ہوئے اپنے آقاؤں سے کہا اور پوچھاکہ’ آڈیٹوریم میں تمام بچوں کو ماردیا ہے اب کیا کریں؟ یہ وہ الفاظ تھے جو دہشت گردنے کسی سے کہے۔ اس کے جواب میں اسے کہا گیا کہ’ فوج کا انتظار کرو‘ خود کو بم سے اڑانے سے پہلے انہیں اڑادو‘۔دہشت گرداور ان کے رہنما اس قدر سنگ دل اور سفاک ہوچکے ہیں کہ انہیں ان کے سامنے ان کے حقیقی والدین، بچے ، بیوی بھی ہو تو وہ انہیں بھی اسی بے دردی سے قتل کرنے میں دیر نہیں لگائیں گے کیونکہ انہیں تو یہ باور کرایا جا چکا ہے کہ ان کے عمل کے عوض انہیں جنت ملنے والی ہے۔ کاش انہیں کوئی یہ باور کراسکے کہ انہیں جنت نہیں بلکہ انہیں تو دوزخ بھی قبول نہیں کرے گی۔ پروردگار نے اگر دوزخ سے بھی بد تر کوئی ٹھکانہ بنایا ہوگا تو یہ دہشت گرد اس کا ایندھن ہوں گے۔

طالبان نے بچوں کو قتل کرنے کی ذمہ داری قبول کی بلکہ اپنے عمل کے حق میں لوگوں کو گمراہ کر نے کے لیے ایک حدیث بھی بیان کی دہشت گردوں کا یہ بیان سوشل میڈیا (فیس بک) پر ایک پیغام کے ذریعہ دیا گیا ۔ ترجمان طالبان محمد خراسانی نے کہا کہ مجاہدین ( دہشت گردوں)کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ صرف بڑے بچوں کا قتال کریں۔ پشاور کی کاروائی سنت نبوی ﷺ کے عین مطابق ہے۔ کیونکہ نبی کریم ﷺ نے بھی بنو قریظہ کے قتال کے وقت یہی شرط مبارک عائد کی تھی کہ صرف ان بچوں کو قتل کیا جائے جن کے زیر ناف بال دکھائی دینا شروع ہوگئے ہیں، بچو اور عورتوں کا قتل عین رسولِ پاک ﷺ کی تعلیم کے مطابق ہے ، اعتراض کرنے والے صحیح بخاری جلد پانچ(۵) حدیث ایک سو اڑتالیس (۱۴۸)کا مطالعہ کریں‘۔ اُف میرے خدا ،اپنے غلط اورمکروہ فعل کا بے با کی اور غلط بیانی کے ساتھ دفعہ کرنا ، اﷲ نے ان کے دلوں کو سیاہ کردیا ہے۔ سچائی کیا ہے ۔ کسی طور بھی یہ یقین نہیں کیا جاسکتا کہ ہمارے نبی ﷺ نے ایسا کرنے کا حکیم دیا ہوگا۔ ہمیں اس سلسلے میں تحقیق کرنے یا علماء اکرم سے رجوع کرنے کی بھی ضرورت نہیں اس بات کو ہر گز ہر گز تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ حدیث کے سیاق و سباق کو بدل کر غلط طور پر حدیث بیان کی گئی ہے۔ ویسے ہمارے علمائے کرام کا فرض ہے کہ وہ اس کی صحیح تصویر پیش کریں۔ غزوہ خندق میں بنو قریظہ کو معاہدے کی خلاف ورزی کی سزا دینے کا واقعہ ہے۔ جس میں بچوں اور عورتوں کو مارنے کے بجائے قیدی بنانے کا حکم ہے۔کالم نگار اور شاعر جناب عطا ء الحق قاسمی صاحب نے اپنے ایک کالم ’دہشت گردی براستہ مذہنی شدت پسندی‘ میں اپنے بیٹے علی عثمان قاسمی جنہوں نے ہائیڈل برگ یونیورسٹی جرمنی سے ڈاکٹریٹ اور لندن یونیورسٹی سے پوسٹ ڈاکٹر یٹ کی ہے کہ حوالے سے طالبان کی اس حدیث کا جواب دیا ہے ’ ڈاکٹر علی عثمان کے مطابق ’یہ حدیث غلط کوٹ کی گئی ہے۔ اصل واقعہ یہ ہے کہ غزوہ خندق میں یہودیوں کے قبیلہ بنو قریظہ کے ساتھ مسلمانوں کا معاہدہ تھا کہ وہ کسی جنگ میں مشرکین کا ساتھ نہیں دیں گے لیکن جب غزوہ خندق کے دوران ایک بھگڈر سی مچی توبنو قریظہ نے یہ سمجھ کر کہ مسلمان شکست کھا رہے ہیں، ان پر عقب سے حملہ کردیا۔ جب غزوہ اپنے اختتام کو پہنچا تو بنو قریظہ کو معاہدے کی خلاف ورزی کی سزا دینے کے لیے ان کے قبیلے کا محاصرہ کیا گیا جو ۲۵ دن جاری رہا ، بالآخر بنو قریظہ نے خود کو مسلمانوں کے سپرد کردیا اور معاہدے کی خلاف ورزی پر سزا کے لیے اوس قبیلے کے سردارسعد بن معاذ کو ثالث مقرر کیا اور کہا کہ اس کا ہر فیصلہ ان کے لیے قابل قبول ہوگا۔ سعد بن معاذ نے یہودیوں کی مقدس کتاب تورات کے مطابق اپنا فیصلہ سنایا اور وہ یہ تھا کہ بنو قریظہ کے سارے مرد قتل کر دیے جائیں اور عورتوں اور بچوں کو قید ی بنا لیا جائے یہ اصل واقعہ تھا مگر اس میں تحریف کر کے پشاور کے سانحہ عظیم کا جواز پیش کیا گیا ‘۔

سانحہ پشاور کے بعد حکومت کے ساتھ ساتھ مخالفینِ حکومت نے جس لائحہ عمل ،اتفاق و اتحاد کا عملی مظاہرہ کیا ہے وہ وقت کی اہم ضرورت تھی۔ معصوم بچوں کے بہیمانہ قتل اور شقاوتِ قلبی کی خون آلود واردات نے پاکستان کی قومی قیادت کو سر جوڑ کر بیٹھنے ، سیاسی اختلافات ختم کرنے پر مجبور کردیا۔ سیاسی و عسکری قوت نے ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر ملک قوم کو اس سانحہ سے نکالنے اور ملک سے دہشت گردی کی جڑیں اکھاڑ نے کا عزم کیا۔ عمران خان نے اپنے ۱۲۶ دن کے دھرنے کو سانحہ آرمی پبلک اسکول کے پیش نظر رول بیک کیا۔ تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے متفقہ طور پردہشت گردی کے خلاف حکومت کے ساتھ چلنے اور افواج پاکستان کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے پر اتفاق کیا۔ حکومت، مخالفینِ سیاست اور افواج پاکستان ایک پیج پر آگئے۔حکومتی ذمہ داران اور سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کے ۲۴ دسمبر کو ہونے والے اجلاس کا دورانیہ ۱۱ گھنٹے تھا ۔ اس طویل اجلاس کے بعد قوم کے نمائندوں نے دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی تیاری کی اور ۲۰ نکاتی ایکشن پلان تیار کیا ۔ایکشن پلان کے مطابق دہشت گردی میں ملوث سزا یافتہ مجرموں کی پھانسی کی سزا پر عمل درآمد کو یقینی بنا یا جائے گا، فوجی افسران کی سربراہی میں اسپیشل ٹرائل کورٹ کا قیام، خصوصی عدالتوں کی مدت دو سال ہوگی،انسداد دہشت گردی کے ادارے ٹیکنا کو مضبوط اور فعال بنایا جائے گا ۔ نفرتیں ابھارنے ، گردنیں کاٹنے ، انتہا پسندی اور فرقہ واریت اور عدم برداشت کو فروغ دینے والے لٹریچر اخبارات اور رسائل کے خلاف موثر اور بھر پور کاروائی کا فیصلہ، دہشت گردوں کی مالی اعانت کے تما م وسائل کومکمل طور پر ختم کرنا،کلعدم تنطیموں کو کسی دوسرے نام سے کام کرنے کی اجازت نہیں ہوگی، اسپشل اینٹی ٹیررازم فورس کا قیام، مذہبی انتہا پسندی کو روکنے اور اقلیتو ں کے تحفظ کو یقینی بنانا ، دینی مدارس کی رجسٹریشن اور ضابطہ بندی کاا ہتمام ، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر دہشت گردوں اور ان کے نظریات کی تشہیر پر مکمل پابندی، بے گھر افراد کی فوری واپسی، فاٹا میں انتظامی اور ترقیاتی اصلات کے عمل کو تیز کرنا، دہست گردوں کے مواصلاتی نیٹ ورک کا مکمل خاتمہ، انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا پر دہشت گردی کے فروغ کی روک تھام کے لیے اقدامات کرنا، کراچی میں جاری آپریشن کو اپنے منطقی انجام تک پہنچانا، وسیع تر سیاسی مفاہمت کے لیے تمام فریقین کی طرف سے حکومت بلوچستان کو مکمل اختیارات دینے کا فیصلہ، فرقہ واریت پھیلانے والے عناسر کے لیے فیصلہ کن کاروائی ، افغان مہاجرین کی رجسٹریشن جیسے اقدامات قومی ایکشن پلان کا حصہ ہیں۔فیض احمد فیضؔ کی غزل کے اشعار ؂
تجھ کو کتنوں کا لہو چاہیے اے ارض وطن
جو ترے عارضِ بے رنگ کو گلنار کریں
کتنی آہوں سے کلیجہ تر ا ٹھنڈا ہوگا
کتنے آنسوترے صحراؤ ں کو گلزار کریں گے

دہشت گردی کا نشانہ تو بے شمار پاکستان بن چکے ہیں لیکن آرمی پبلک اسکول کے معصوم بچوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے ملک کے عوام میں دہشتگردی سے نمٹنے کاشعور بیدار کردیا ہے، ملک کی سیاسی قوت کو باہمی اختلافات کو بھلا کر باہم مل کر دہشت گردی جیسے ناسور کو پاکستان سے نکال باہر کرنے کا حوصلہ عطا کیا ہے۔ فوجی قوت جو دہشت گردی سے پہلے ہی نبرد آزما تھی اس میں نیا جوش و ولولہ پیدا ہوا ہے۔اب امید ہوچلی ہے کہ ملک کی سیاسی قوت اسی طرح متحد اور متفق رہی تو پاکستان کے بے شمار مسائل خاص طو رپردہشت گردی کی لعنت سے پاکستانی قوم چھٹکارا پالے گی۔آرمی پبلک اسکول کے معصوم اور بے گناہ بچو اب تم اس دنیا میں نہیں رہے۔ تم تو شہادت کا مرتبہ پا چکے ہواور شہیدوں کے لیے جنت کی نوید ہے۔ تمہیں جنت مبارک ہو ،جنت کے پھولو تمہیں سلام۔(۲۷دسمبر ۲۰۱۴ء)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1284714 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More