دختر ِ مشرق

بینظیر اپنے نام کی طرح اسم بامسمی شخصیت تھیں۔ بینظیر کے لغوی معنی ہیں جس کی کوئی نظیر یا مثال نہ ملتی ہو اور واقعی پاکستانی ٹاپ خواتین کی فہرست اٹھا کر دیکھ لیں بینظیر جیسی کوئی شخصیت موجود نہیں۔ بے نظیر بھٹو کے نظریات سے خواہ کسی کو کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو اس بات کا ان کیبڑے سے بڑے دشمن بھی اعتراف کرتے ہیں کہ ان جیسی آہنی عزائم اور بلند حوصلے کی مالکہ خاتون اب تک پاکستان کے افق پر نظر نہیں آئیں بینظیر بھٹو واقعی دختر مشرق کہلانے کی صحیح حقدار ہیں۔

محترمہ بینظیر بھٹو پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم تھیں اور ایسی خاتون جس نے مشرق کا پیرہن زیب تن کرکے عالمی سطح پر پاکستان کا سفرفخر سے بلند کردیا محترمہ کے نظریات سے اختلافات تو ممکن ہے مگر بحیثیت خاتون انہوں نے جس قدرانتھک محنت اور جانفشانی سے کام کیا اس کی مثال نہیں ملتی۔بینظیرکی پوری زندگی انتھک محنت جدوجہد اور برداشت کی اعلیٰ مثال تھی ان کی زندگی عملی سیاست کے دوران لمیوں، غموں اور مدوجزر سے بھرپور رہی پاکستانی سیاست کی تاریخ بینظیر بھٹو دختر مشرق کے تذکرے کے بغیر بہت ادھری محسوس ہوگی۔

بینظیر بھٹو نے ابتدائی تعلیم پاکستان جبکہ اعلیٰ تعلیم ہارورڈ یونیورسٹی سے حاصل کی دوران تعلیم بھی وہ قائدانہ صلاحیتوں کا اظہار بڑے جوش و خروش سے کیا کرتی تھیں حصول علم کے بعد وطن واپسی کے ساتھ ہی ان کی زندگی کی مشکلات کا آغاز ہوگی اتھا جس وقت جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی منتخب حکومت کا تختہ الٹا اس وقت تک بینظیر فارغ التحصیل ہوچکی تھیں۔

ایئرپورٹ پر ان کا فقید المثال استقبال کیا اس بات کا احساس تو ایک عام پاکستانی خاتون کو بھی ہوگا کہ گھریلو خانگی ازدواجی زندگی اور بیرونی ملازمت کے درمیان توازن برقرار رکھنا کس قدر کھٹن کام ہوتا ہے اور وہ بھی پاکستانی معاشرے میں جہاں مرد کو غالب حیثیت حاصل ہوتی ہے یہ امر اور بھی مشکل ثابت ہوتا ہے کہ پاکستانی مرد عورت کو برابری کی سطح پر ترقی کے مراحل طے کرتا دیکھ کر کسی نہ کسی صورت میں اپنی غالب حیثیت برقرار رکھنے کی کوشش ضرور کرتا ہے بے نظیربھٹو نے اپنی ازدواجی زندگی اور سیاسی زندگی میں انتہائی بے مثال متوازن راہ اپنائی جوان کے انتہائی ذہین اور بے مثال ہونے کا بین ثبوت ہے۔

بے نظیر بھٹو نے بطور وزیراعظم پاکستان کا عہدہ وزارت عظمیٰ کے دوران ماں بننے کا اعزاز بھی حاصل کیا یہ کوئی آسان کام نہ تھا 1990ء میں دوران وزارت عظمیٰ ان کی بیٹی آصفہ کی پیدائش ہوئی ان کے ہمت حوصلہ اور برداشت کی انتہا تھی۔

ایک عام گھریلو عورت بھی ان مراحل سے گزرنے کے دوران جس طرح کی ذہنی جذباتی اور جسمانی تبدیلیوں سے گزرتی ہے اس کا اندازہ ہر پاکستانی عورت کو ضرور بخوبی ہوگا اور دوران وزارت عالیہ محترمہ نے جس ہمیت حوصلے اور برداشت سے یہ سارے مراحل عبور کئے وہ بلاشبہ پاکستان کی تمام ملازمت پیشہ اور گھریلوں ماؤں کے لئے ایک بے نظیر مثال ہے۔ یقینا محترمہ ہر حوالے سے بے پناہ ہمت کی مالک خاتون تھیں ازدواجی اور سیاسی زندگی میں جس طرح سے انہوں نے توازن قائم رکھا وہ اپنی مثال آپ تھا اور پاکستانی ملازمت پیشہ خواتین کے لئے بالخصوص ایک قابل تقلید مثال ہے۔ دوران وزارت عظمی ہی اپنے بھائی کے المناک قتل کے حادثہ سے بھی دوچار ہوئیں کہنے والوں نے بہت کچھ کہا سنا مگر اس بار بھی وہ برداشت اور ہمت کی چٹان ثابت ہوئی۔

بے نظیر بھٹو کیلئے ضیاء الحق کے دور آمریت سے شروع ہونے والی مشکلات کا سلسلہ مشرف کے دور آمریت تک جاری رہا اٹھارہ اکتوبر دو ہزار سات کو کراچی کے ایئرپورٹ پر ایک بار پھر ان کا فقید المثال استقبال کیا گیایہ بات ایک حقیقت ہے کہ ملکوتی مسکراہٹ کی مالک یہ خاتون دلوں پر راج کرتی تھیں ان کی سیاست کی جڑیں عوام کے اندر دور تک اتری ہوئیں تھیں وہ عوام سے براہ راست تعلق رکھنا جانتی تھیں بے نظیر کے نظریات بہت واضح اور دو ٹوک ہوا کرتے تھے لال مسجد واقعے کی جس طرح اور دو ٹوک ہوا کرتے تھے لال مسجد واقعے کی جس طرح کھل کر مخالفت بے نظیر بھٹو نے کی کوئی اور نہ کرسکامحترمہ کا جھکاؤ امریکی مفادات کے ساتھ وابستہ تھا اور اس بات کا اظہار بھی وہ برملا کیا کرتی تھیں جموں و کشمیر کے حوالے سے بھی وہ بڑے واضح اور دوٹوک نظریات رکھتی تھیں نظریات سے اختلاف رائے تو اظہار جمہوریت ہے ہی مگر بطور پاکستانی۔

Nusrat Sarfaraz
About the Author: Nusrat Sarfaraz Read More Articles by Nusrat Sarfaraz: 42 Articles with 44769 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.