جنگلی و آبی حیات کو درپیش خطرات

آبی و جنگلی حیات کی متعدد اقسام ناپید یا کم ہو رہی ہیں۔ اس کا سبب انسانی مخلوق کو قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ کچھ ماحولیاتی عوامل بھی اس کی وجہ بن رہے ہیں۔ پھلدار پودوں‘ پھولوں کی اقسام‘ جڑی بوٹیوں اور چراگاہوں کا خاتمہ نیک شگون نہیں۔ زرعی اراضی پر کنکریٹ کی فصلیں اگانے سے غذائی قلت کا ہی سامنا ہو گا۔ ہم کھانے پینے کی اشیاء بھی درآمد کرنے لگے تو سوچیئے حالات کیا ہوں گے؟ جنگلات کے کٹاؤ ،Over Grazing ‘ زمینی کٹاؤ‘ لینڈ سلائیڈنگ‘ بے تحاشا شکار اور مچھلیوں کو مختلف زہریلے مادے استعمال کر کے مارنے کے باعث ’’بائیو ڈائیورسٹی‘‘ کو شدید خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ حیوانات و نباتات کی حفاظت اور بڑھوتری بھی فرائض میں شامل ہے۔ انسانی حرکات سے پیش آنے والے خطرات میں آبادی کا بے تحاشہ بڑھنا سب سے بڑا سبب ہے۔ آبادی کا دباؤ وسائل کے بے دریغ خاتمے کی بنیاد ہے۔ آبادی بڑھے گی تو ضروریات میں بھی اضافہ ہو گا اور اگر وسائل کم ہوئے تو مشکلات مزید بڑھیں گی اور انسانی معیار زندگی گر جائے گا۔ معاشی ترقی کے سفر میں پہلے ہی ’’عدم مساوات‘‘ جابجا نظر آتی ہے۔ غریب کا قدرتی وسائل پر انحصار زیادہ ہو رہا ہے۔ آج بھی جہاں گیس کی سہولت نہیں وہاں درختوں کی بے دریغ کٹائی جاری ہے۔ ہمیں اس ضمن میں قدرتی وسائل کا پائیدار استعمال سیکھنا ہو گا۔ اگر قدرتی وسائل ختم ہو گئے تو غیروں کی محتاجی یقینی ہو جائے گی۔ بڑھتی ہوئی آبادی کی ایندھن کی ضروریات‘ گوشت‘ دالیں‘ دودھ سمیت دیگر اشیاء ضروریہ کی فراہمی ناممکن ہو کر رہ جائے گی۔ شجرکاری نہ ہو گی تو درخت کہاں سے آئیں گے‘ درخت نہیں ہوں گے تو ماحول پر برا اثر پڑے گا۔ زمینی کٹاؤ بڑھے گا۔ دریاؤں کے کنارے زرعی اراضی‘ پھلدار پودے‘ جنگلات بھی خطرات سے دوچار ہیں۔ ان دریاؤں میں مچھلیوں سمیت مختلف آبی حیات ہوتی ہیں۔ کھیتوں میں پانی زیادہ مقدار میں چھوڑے جانے سے اور کبھی کبھی خشک سالی سے حیوانات و نباتات تباہ ہو جاتے ہیں۔ان کے مسکن تک ختم ہو جاتے ہیں۔ بے تحاشہ شکار بھی مختلف النوع جانوروں کی کمیابی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ پاکستانی معاشرے میں ’’شکار کا شوق‘‘ ہر طبقے میں پایا جاتا ہے۔ مغلیہ خاندان نے رواج ڈالا اور آج اس کے لئے عرب شہزادوں کو باقاعدہ لائسنس دیئے جاتے ہیں۔ بدقسمتی دیکھئے ہمارے حیوانات کو مارنے کے بدلے ہمیں پیسہ اور دیگر سہولیات کی لالچ دی جاتی ہے اور ہم ’’قدرتی ماحول‘‘ کی تباہ کاری کا ذرا بھر بھی خیال نہیں رکھتے۔ جنگلی حیات کو شکار کے شوق میں مارا جاتا ہے جو ناپید ہو رہی ہیں۔ سانپ اور چھپکلی تک کو کھالوں کی خاطر مارا جاتا ہے۔ پرندے ختم کئے جا رہے ہیں۔ کچھوے پکڑ پکڑ کر بیچے جا رہے ہیں۔ مچھلیوں کی افزائش پر اتنی توجہ نہیں دی جا رہی جتنی اسے بے رحمی سے مارنے پر دی جا رہی ہے۔جنگلات کے کٹاؤ سے جانوروں کے مسکن ختم ہو رہے ہیں۔ جنگلی حیات کو شکار سے بھی زیادہ جنگلات کی بے دریغ کٹائی سے خطرات لاحق ہیں۔ شکاری سے تو بچا جا سکتا ہے مگر ٹھکانہ ہی نہ رہے تو حیات کیسے گزرے گی۔ جنگلات میں آگ لگا دینا چرند پرند کی تباہی ہے۔ قیمتی جڑی بوٹیاں مقامی جانوروں کے چارہ کی نذر ہو رہی ہیں۔ محکمہ وائلڈ لائف کو آبی و جنگلی حیات کو انسانوں کے ہاتھوں درپیش خطرات سے بچانے کیلئے مؤثر اقدامات کرنے ہوں گے۔ مچھلیوں کی افزائش کے لئے محکمہ ماہی پروری کو بھی حرکت میں آنا ہو گا۔ جنگلات کی بے دریغ کٹائی روکنے کے لئے محکمہ جنگلات کو خاموشی توڑنا ہو گی اور اشرف المخلوقات کو بھی مالک دوجہاں کی دیگر مخلوقات کے تحفظ کیلئے اپنا طرز عمل بدلنا ہو گا۔ ایکو سسٹم تب ہی تو برقرار رکھا جا سکتا ہے اور اگر یہی بے ڈھنگی چال چلتی رہی تو نہ فلورا رہے گا اور نہ فانا کا نام و نشان۔ ۔۔ ماحول کی بہتری کے لئے جنگلی حیات‘ نباتات کا وجود ضروری ہے۔ پرندے چہچائیں نہ تو زندگی بیزار ہو جاتی ہے۔ انہیں چہچہانے دیں انہیں اپنے شوق کا نشانہ نہ بنائیں۔ خوشی کی خبر بھی پڑھ لی جیے محکمہ وائلڈ لائف کے اہلکاروں نے بنوں ڈیرہ روڈ پر کاروائی کرتے ہوئے برڈ سمگلر کو گرفتار کرکے اس کے قبضے سے بڑی تعداد میں قیمتی پرندے برآمد کرلئے ہیں ڈی ایف او بنوں عبدالحلیم مروت کی نگرانی میں جنگلی حیات کے اہلکاروں نے ایس ڈی ایف او عبدالرحمان کی سربراہی میں وانڈہ بنوچی کے مقام پر ناکہ بندی کرکے ملتان جانے والی بس روک کر تلاشی کے دوران مبینہ برڈ سمگلر رفیق کے قبضے سے بڑی تعداد میں قیمتی پرندے برآمد کرلئے پرندوں میں31بھورے تیتر،10کالے تیتر،8تیتر(کڑکابے) اور15سی سی تیتر شامل ہیں ملزم کا تعلق بنوں سے ہے اور وہ مذکورہ قیمتی پرندے ملتان سمگل کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ ڈی ایف او عبدالحلیم مروت کا کہنا تھا کہ صوبائی سیکرٹری ماحولیات ڈاکٹر اویس آغا اور چیف کنزرویٹر وائلڈ لائف سید مبارک علی شاہ کی خصوصی ہدایت پر شکار اور قیمتی پرندوں کی سمگلنگ پر لگائی گئی پابندی پر عملدرآمد کے لئے ٹھوس اقدامات کی بدولت کامیابی حاصل ہوئی ہے ۔شہر شہر وائلڈ لائف پارک کی تعمیر ضروری ہے۔ حکومت وقت کو اس طرف توجہ دینی چاہئے۔ یہ ماحول دوست کام بھی ہے اور انٹرٹینمنٹ اور ریونیو کا ذریعہ بھی۔
 
Waqar Fani
About the Author: Waqar Fani Read More Articles by Waqar Fani: 73 Articles with 63616 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.