’مودی لہر‘کاکچھ خاص اثرنہیں،پھربھی ہوگی بھاجپااورنیشنل کانفرنس کےلئے وقارکی جنگ

جموںنگروٹہ اسمبلی حلقہ رائے دہندگان کی تعدادکے اعتبارکے ساتھ ساتھ جغرافیائی لحاظ سے سب سے بڑااسمبلی حلقہ ہے ۔گذشتہ الیکشن کی طرح اس باربھی نگروٹہ نشست پہ بھاجپاکے اُمیدوارکی نیشنل کانفرنس کے اُمیدوارکیساتھ کانٹے کی ٹکرہے جس کی پولنگ پانچویں مرحلے کے تحت 20دسمبرکوہوگی۔بھاجپاکےلئے اس نشست پرکڑاامتحان اس لحاظ سے بھی ہے کیونکہ یہ وہی نشست ہے جس کی وجہ سے ریاست میں بھاجپاکا وجودقائم ہواتھا،دومرتبہ اس نشست سے بھاجپاپہلے ہی جیت چکی ہے اس لیے اس باربھاجپااس نشست پرکامیابی حاصل کرکے نگروٹہ سے جیت کی ہیٹرک بناناچاہے گی وہیں دیگرجماعتیں بھاجپاکی ہیٹرک کے منصوبے کوناکام بنانے کےلئے جی توڑکوششیں کریں گی۔نیشنل کانفرنس کےلئے بھی یہ نشست نہایت ہی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اس اسمبلی حلقہ میں نیشنل کانفرنس کواس حلقہ کے خاص طبقہ مُسلم (گوجربکروال )جس کی حمایت ہمیشہ اسے رہی ہے کے رائے دہندگان کی بھاری تعدادکی حمایت اس باربھی حاصل ہے ۔قابل ذکربات ہے کہ گذشتہ اسمبلی الیکشن کے وقت اسمبلی حلقہ نگروٹہ میں گوجربکروال طبقہ کے رائے دہندگان کی تعداد 30 ہزارکے قریب تھی جس میں سے بھاری تعدادمیں مذکورہ طبقہ کے لوگوں نے نیشنل کانفرنس کے اُمیدواراجات شتروسنگھ کوووٹ دیئے تھے مگراس کے باوجودنیشنل کانفرنس کے اُمیدواراجات شتروسنگھ جیت حاصل نہ کرپائے تھے ۔واضح رہے کہ بھاجپانے ریاست جموں وکشمیرمیں سال 2002 کے اسمبلی انتخابات میں صرف ایک واحدنشست ”نگروٹہ اسمبلی حلقہ “ کی جیتی تھی جس پربھاجپاکے اُمیدوارجُگل کشورشرمافتحیاب ہوئے تھے ۔اس کے بعدسال 2008 میں بھارتیہ جنتاپارٹی نے 2008 کے وسط میں امرناتھ شرائن قضیہ کے سبب عوام میں پیداہوئی فرقہ بندی کافائدہ اُٹھاکرنگروٹہ نشست کے علاوہ دیگر10 نشستوں پربھی اپنے اُمیدواروں کوجیت دلانے میں کامیابی حاصل کی تھی۔2008 کے اسمبلی انتخابات میں نگروٹہ اسمبلی حلقہ سے بھارتیہ جنتاپارٹی کے اُمیدوارجُگل کشورشرمانے دوسری مرتبہ جیت درج کرکے نگروٹہ کوبھارتیہ جنتاپارٹی کاقلعہ بنادیاتھا۔2008 میںجگل کشورشرماکامقابلہ نیشنل کانفرنس کے اُمیدوارمہاراجہ خاندان کے چشم وچراغ اجات شتروسنگھ کے ساتھ ہواتھا۔جگل کشورشرمانے 11141ووٹ حاصل کرکے جیت درج کی تھی جبکہ اجات شتروسنگھ نے 9521ووٹ حاصل کرکے دوسرا مقام حاصل کیاتھا۔تیسرے مقام پر کانگریس سے وابستہ سینئر لیڈر ٹھاکورشیودیوسنگھ جو ٹکٹ نہ ملنے پرپارٹی سے باغی ہوگئے تھے نے بطورآزاداُمیدوارانتخاب میں حصہ لیاتھانے 7817 ووٹ حاصل کرکے رہے تھے۔چوتھامقام بہوجن سماج پارٹی کے اُمیدوارچودھری نجیب اللہ نے 4030 ووٹ حاصل کرکے حاصل کیا،ٹھاکورشیودیوسنگھ کونظراندازکرکے کانگریس لیڈران نے چودھری عبدالحمیدکواُمیدوارنامزدکیاتھا،وہ پارٹی قائدین کی توقعات پرکھرانہ اُترسکے اور2769 ووٹ لیکرپانچواں مقام ہی حاصل کرپائے تھے۔غورطلب بات ہے کہ شیودیوسنگھ کے آزاداُمیدوارکی حیثیت سے الیکشن لڑنے کے سبب کانگریس کوبھاری نقصان اُٹھاناپڑاتھا،ماہرین کامانناہے کہ اگر2008 میں کانگریس کے قائدین ٹھاکورشیودیوسنگھ کواُمیدوارنامزدکرتے تویہ نشست بہ آسانی کانگریس جیت سکتی تھی مگرغلط فیصلے کاخمیاز ہ بھگت کرکانگریس قائدین کوکوپچھتاوے کے سواکچھ ہاتھ نہ لگا۔ چھٹے مقام پر آزاد اُمیدوار بلبیرسنگھ منہاس رہے تھے اوراس کے بعدساتویں نمبرپرپی ڈی پی کے اُمیدواررشیدملک 2460 ووٹوں کیساتھ رہے تھے۔گذشتہ اسمبلی الیکشن میں نگروٹہ کی نشست سے کُل 25 اُمیدوارمیدان میں تھے اوررواں اسمبلی الیکشن میں نگروٹہ نشست سے اُمیدواروں کی تعداد12ہے۔جن میںسیاسی جماعتوں کے اُمیدوار بھاجپاکے نندکشور،نیشنل کانفرنس کے دویندرسنگھ رانا،کانگریس کے ٹھاکورشیودیوسنگھ، پی ڈی پی کے حسین علی وفا اوربی ایس پی کے راکیش وزیر،پنتھرزپارٹی کے ولکشناسنگھ،آل جموں وکشمیرمزدورکسان پارٹی کے بنسی لال ،جموں وکشمیرپیپلزکانفرنس کے ریاض احمد،جموں سٹیٹ مورچہ پروگریسیوکے عبدالغنی شامل ہیں۔ان کے علاوہ تین آزاداُمیدوارجن میں شاہ محمد،کمل کماراورنزاکت کھٹانہ شامل ہیں بھی میدان میں ہیں۔ذرائع کے مطابق اس نشست پرمقابلہ بھاجپا،نیشنل کانفرنس،پی ڈی پی ،کانگریس اوربی ایس پی کے اُمیدوارکے درمیان کانٹے کی ٹکرکاہے۔اس حلقہ میں تمام سیاسی جماعتوں کی گہری نگاہ گوجربکروال طبقہ کے رائے دہندگان پررہتی ہے ،گذشتہ اسمبلی الیکشن 2008 میں جہاں مسلم (گوجربکروال) رائے دہندگان کی تعدادتیس ہزارکے قریب تھی وہ اب بڑھ کر40ہزارکے قریب ہوچکی ہے جس کے سبب تمام سیاسی جماعتوں نیزآزاداُمیدواریہ چاہتے ہیں کہ وہ کسی نہ کسی طرح اس طبقہ کے رائے دہندگان کی حمایت حاصل کرلیں۔جہاں بھاجپاکے ریاستی صدرجگل کشورکے بھائی نندکشور،مودی لہراورحال ہی میں بھاجپامیں شامل ہوئے سینئرنیشنل کانفرنس لیڈراجات شتروسنگھ جوگذشتہ انتخاب میں بھاجپاکے حریف تھے ،کی حمایت کافائدہ اُٹھاناچاہ رہے ہیںوہیں نیشنل کانفرنس کے اُمیدواردویندرسنگھ راناایم ایل اے نہ ہونے کے باوجودنگروٹہ میں ترقی کے کرائے گئے کاموں کے سہارے جیتنے کے موقعہ کونہ گنوائیں گے۔اس وقت بھاجپا،نیشنل کانفرنس،پی ڈی پی،بی ایس پی ،کانگریس ودیگرپارٹیوں کے علاوہ آزاداُمیدوارجومیدان میں ہیں تمام سرگرمی کیساتھ انتخابی مہم چلارہے ہیں۔بھاجپاکے نندکشور،اپنے بھائی جگل کشورکے کاموں کے سہارے برہمن طبقہ پرپکڑبنائے ہوئے ہیں اوردویندرراناراجپوت اورگوجربکروالوں کیساتھ مکمل رابطہ بنائے ہوئے ہیں۔اسی طرح پی ڈی پی کے اُمیدوارحسین علی وفابھی رائے دہندگان کواپنی طرف متوجہ کررہے ہیںلیکن انہیں مشکل یہ درپیش ہے کہ گوجربکروال طبقہ ،راجپوت طبقہ ودیگرطبقوں کے رائے دہندگان کوبھی انہیں اپنی طرف کرنے میں سخت محنت کرنی پڑرہی ہے کیونکہ دویندرراناکی زبردست پکڑ گوجربکروال طبقہ کے علاوہ راجپوت طبقہ کے رائے دہندگان پربھی ہے۔تاہم گذشتہ الیکشن میں آزاداُمیدوارکی حیثیت سے اسمبلی انتخاب لڑنے والے رچھپال سنگھ جس نے 2283 ووٹ حاصل کیے تھے کی بھی بھرپورحمایت پی ڈی پی اُمیدوارحسین علی وفاکوحاصل ہے ۔الیکشن لڑنے کے بعدرچھپال سنگھ نے پی ڈی پی میں شمولیت اختیارکرلی تھی۔انتخابی مہم کے دوران حسین علی وفارچھپال سنگھ عرف بٹوکے سہارے راجپوت طبقہ کواپنی طرف متوجہ کرنے میں مصروف ہیں۔کانگریس کے اُمیدوارٹھاکورشیودیوسنگھ کاجہاں تک تعلق ہے وہ تیسری مرتبہ نگروٹہ اسمبلی نشست سے انتخاب لڑرہے ہیں۔ایک مرتبہ وہ اس نشست سے ایم ایل اے رہ چکے ہیں ،مگردوسری مرتبہ سال 2008 میں کانگریس قائدین کے غلط فیصلے کے سبب شیودیوبطورآزاداُمیدوارلڑے تھے اورحریفوں کوسخت ٹکردینے کے ساتھ ساتھ کانگریس قائدین کوبھی اپنی مقبولیت سے باخبر کردیا تھا۔ کانگریس قائدین کواپنے فیصلے پرپچھتاواہواتھامگرہوااس وقت تھاجب چڑیاں چگ گئی تھیں کھیت۔اس باربھی شیودیوسنگھ کوبھاری تعدادمیں رائے دہندگان کی حمایت حاصل ہے اوروہ بھی انتخابی مہم کوزوروشورسے چلارہے ہیںتاہم اس بات سے بھی انکارنہیں کیاجاسکتاہے کہ جس قدرگرفت 2008 میں رائے دہندگان پرشیودیوسنگھ کی تھی اس باروہ گرفت تھوڑی سی کمزور نظر آرہی ہے۔اس کی وجہ راناکی چادر کا پھیلاﺅ اور مودی لہرکے سبب بھاجپاکی طرف کانگریسیوں کامائل ہونابھی ہے۔اس کے علاوہ بی ایس پی کے اُمیدوارراکیش اپنی پارٹی بی ایس پی جس کی شناخت پسماندہ طبقوں کے مفادمیں کام کرنے والی جماعت کے طورپرہے کے سہار ے ایس سی (شیڈولڈٹرائب )طبقہ کی حمایت حاصل کرنے میں کافی حدتک کامیاب نظرآرہے ہیں۔مگرلوگوں کاکچھ نہیں کہاجاسکتاہے۔جولوگ ایک لیڈرکیساتھ ریلی میں جاتے ہیں وہی دوسر ے لیڈرکے جلسے میں بھی پہنچے ہوتے ہیں۔مجموعی طورپریہی کہاجاسکتاہے کہ نگروٹہ اسمبلی حلقہ میں طبقوں کے اعتبارسے رائے دہندگان خانوں میں بٹے ہوئے ہیں،جہاںنندکشورکیساتھ برہمن طبقہ کھڑانظرآرہاہے وہیں دویندرراناکے ساتھ گوجربکروال اورراجپوت نظرآرہے ہیں۔حسین علی وفابھی گوجربکروال طبقہ اورراجپوت طبقہ کی طرف بھی خاص طورپرتوجہ دے رہے ہیں۔ٹھاکورشیودیوسنگھ بھی پرانے رائے دہندگان کوڈھونڈرہے ہیں اورتمام طبقوں کیساتھ رابطے میں ہیں۔راکیش وزیربھی ایس سی طبقہ کے علاوہ دیگرطبقوں کی حمایت حاصل کرنے میں دِن رات مشغول نظرآرہے ہیں۔گوجربکروال طبقہ کاووٹ کوئی بھی لیڈریکطرفہ طورپرحاصل کرلے گاتواس کی جیت یقینی ہوسکتی ہے مگراس طبقہ کے لوگ تمام سیاسی جماعتوں اورلیڈروں کیساتھ نظرآنے سے تصویرعیاں نہیں ہورہی ہے ۔ماضی میں یہی ہوتاآیاہے کہ اس طبقہ کے رائے دہندگان کوسیاسی لیڈران نے تقسیم کرکے جیت حاصل کی ۔گذشتہ اسمبلی انتخابات کی بات اگرکی جائے تواس میں 25 اُمیدواروں میں سے دس کے قریب اُمیدواروں کاتعلق مُسلم (گوجربکروال طبقہ) سے تھا۔ جن میں چودھری عبدالحمید۔(کانگریس)،انجینئرغلام علی (پنتھرزپارٹی)،امیرالدین کسانہ ۔(عوامی نیشنل کانفرنس )،صوبت علی (پیپلزڈیموکریٹک فرنٹ) ،چودھری نجیب اللہ (بی ایس پی)،محمدرشیدملک (پی ڈی پی)،عبدالمجید(بیکورڈکلاس ڈیموکریٹک پارٹی) ،ممتازبیگم سلاریہ (لوک جن شکتی پارٹی)،ڈاکٹرغفور(آزاداُمیدوار)اورحاجی محمدحسین (آزاداُمیدوار)شامل ہیں ۔ان مسلم (گوجربکروال) اُمیدواروں نے جوووٹ حاصل کیے وہ اس طرح ہے ۔چودھری عبدالحمیدنے2769 ،انجینئرغلام علی نے 161۔امیرالدین کسانہ نے 333 ،صوبت علی نے 450،چودھری نجیب اللہ نے 4030 ووٹ ،ممتازبیگم سلاریہ نے 162،ڈاکٹرغفورنے 613،حاجی محمدحسین نے 118،رشیدملک نے 2460 اورعبدالمجیدنے 627 ووٹ حاصل کیے تھے۔ان تمام اُمیدواروں کے ووٹوں کامجموعہ 11723 بنتاہے۔سیاسی مبصرین کے اندازہ کے مطابق مذکورہ مسلم اُمیدواروں نے 9ہزارتک ووٹ گوجربکروال طبقہ کے رائے دہندگان کے حاصل کیے تھے ۔مُسلم طبقہ سے زیادہ تعداداُمیدواروں کی ہونے کے سبب ہی بھاجپااس نشست سے جیت گئی اورنیشنل کانفرنس جیتنے کے قریب پہنچ کربھی ہارگئی۔اس مرتبہ گوجربکروال طبقہ سے تعلق رکھنے والے اُمیدواروں کی تعدادمحض 5ہے جن میں حسین علی وفا، چودھری، عبدالغنی ،ریاض احمد،شاہ محمداورنزاکت کھٹانہ شامل ہیں۔پچھلی مرتبہ چودھری عبدالحمید،چودھری نجیب اللہ ،رشیدملک جیسے بڑے مُسلم چہرے اُمیدواروں کی فہرست میں شامل تھے مگراس مرتبہ ایسانہیں ہے ۔حسین علی وفاکے علاوہ کوئی بھی اُمیدوارعوامی مقبولیت نہیں رکھتاہے۔ اس لیے جوبھی طبقہ گوجربکروال طبقہ کے رائے دہندگان جن کی تعداداندازے کے مطابق اس اسمبلی الیکشن میں 35ہزارسے زائدہے کوحاصل کرے گاوہ بہ آسانی جیت درج کرلے گااوراگرکوئی بھی لیڈرطبقہ کے رائے دہندگان کوایک طرف نہ کرسکا تو بھاجپا کے اُمیدوارکی جیت یقینی بننے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔یہ بات قابل ذکرہے کہ اس حلقہ میں مودی لہرمحدودہے یایوں کہاجائے کہ مودی لہرنگروٹہ اسمبلی حلقہ میں بے اثردکھائی دے رہی ہے ،اس میں کوئی شبہ نہیں بھاجپاکوبرہمن طبقہ کے رائے دہندگان کی بھرپورحمایت ہے مگربھاجپامسلم رائے دہندگان کواپنی جانب متوجہ نہ کرسکی ہے جوکہ بھاجپاکے اُمیدوارکےلئے لمحہ فکریہ ہے اورایسے میں اگرکوئی اُمیدواربرہمن طبقہ کے رائے دہندگان کی توجہ بھاجپاسے ہٹاکراپنی جانب کرنے میں کامیاب ہواتواسمبلی حلقہ نگروٹہ جسے بھاجپاکاقلعہ تصورکیاجاتاہے منہدم بھی ہوسکتاہے۔موجودہ صورتحال یہ ہے کہ دویندرراناکے ساتھ گوجربکروال طبقہ کی بھاری تعدادہے مگردوسری جماعتوں کادباﺅبھی اس طبقہ کے رائے دہندگان کی طرف تیزی سے بڑھ رہاہے۔دویندرراناآئندہ دس یابارہ دِنوں کے دوران چلنے والی انتخابی مہم میں گوجربکروال طبقہ کے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے تووہ بھاجپاکےلئے پریشانی کاسبب ثابت ہوگااوردویندرراناکےلئے جیت کویقینی بنانے کے مترادف ہوگا۔ذرائع کے مطابق نیشنل کانفرنس کے اُمیدواردویندررانا کی بھرپورکوشش ہے کہ وہ گوجربکروال طبقہ کے رائے دہندگان کے ووٹ حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ دیگرطبقوں کے رائے دہندگان کوبھی اپنے حق میں کرسکیں۔اس لیے یہ کہاجاسکتاہے کہ راناکی جیت کادارومدارگوجربکروال طبقہ کی رائے دہندگان کے رجحان پرمنحصرہے ۔سیاسی مبصرین کامانناہے کہ اگرگوجربکروال رائے دہندگان نے دیگرپارٹیوں کونظراندازکرکے نگروٹہ کونیاجموں بنانے کے نعرہ کودیکھ کردویندرراناکوووٹ دیئے تودویندرراناہی جیت درج کریں گے۔دویندرراناکےلئے بڑی سردردپی ڈی پی کے مدمقابل اُمیدوارحسین علی وفاہیں جوبڑی تیزی کیساتھ گوجربکروال طبقہ کے رائے دہندگان کواپنی طرف متوجہ کررہے ہیں،اورراناکی راہوں میں کانٹے بچھانے میں کوئی کسرباقی نہ چھوڑرہے ہیں۔پی ڈی پی کے اُمیدوارحسین علی وفاپارٹی کے سینئرلیڈران کی حمایت سے اس نشست پہ جیت درج کرنے کےلئے کوئی کسرباقی نہ چھوڑرہے ہیںلیکن ان کی سرگرمیاں کس قدرثمرآورثابت ہوں گی یہ کہناقبل ازوقت ہوگا۔کون ہوگانگروٹہ اسمبلی حلقہ سے نیاایم ایل اے؟یہ فیصلہ انتخاب سے پہلے کے دوہفتوں کی مہم پرمنحصرکرے گاکہ کون سالیڈرزیادہ سے زیادہ طبقوں کی حمایت کوحاصل کرے گا؟۔خیر یہ فیصلہ وقت ہی کرے گامگریہ بات طے ہے کہ اس نشست پرنیشنل کانفرنس کے اُمیدواردویندررانااوربھاجپاکے اُمیدوارنندکشورکے درمیان کاٹنے کی ٹکرہوگی۔کیابھاجپاہیٹرک بناپائے گی یانیشنل کانفرنس کااُمیدواردویندررانایاکوئی دیگراُمیدواربھاجپاکے خواب کوچکناچورکرے گا؟اس سوال کےجواب کےلئے سب کو23 دسمبرتک انتظارکرناپڑے گا۔
Tariq Ibrar
About the Author: Tariq Ibrar Read More Articles by Tariq Ibrar: 64 Articles with 53314 views Ehsan na jitlana............. View More