تھر: بچوں کی اموات میں تیزی....حکومت سندھ غفلت کا شکار!

قحط کے شکار تھرپارکر میں حکومت سندھ کی عدم توجہی کے باعث بچوں کی اموات کا سلسلہ جاری ہے۔ علاقے میں سردی بڑھتے ہی غذائی قلت کے ساتھ ساتھ نمونیا اور دیگر بیماریاں بھی بچوں کی جان لینے لگی ہیں، لیکن صوبائی حکومت خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے اور حکومت کی جانب سے عدم توجہی کا شکار متاثرین امداد اور ادویات کے منتظر ہیں۔ تھر پارکر میں غذائی کمی اور سردی بڑھ جانے سے بیماریوں کے باعث منگل کے روز مزید 11 بچے، جبکہ گزشتہ روز بھی سات بچے دم توڑ گئے ہیں۔ اس طرح رواں مہینے تھرپارکر میں حکومتی نااہلی کی نذر ہونے والے بچوں کی تعداد 32 ہوگئی ہے، جبکہ رواں سال 553 تک جا پہنچی ہے اور ابھی بھی سول ہسپتال مٹھی میں غذائی قلت سے بیماریوں کا شکار 60بچے زیر علاج ہیں، جن کو مناسب طبی امداد میسر نہیں ہے۔ غذائی قلت، بیماریاں اور غربت تھر کے باسیوں کی جان لینے پر تلی ہوئی ہیں۔ روزانہ ماؤں کی گودیں اجڑ رہی ہیں اور وہ بے بسی کے ساتھ دکھ اور غم کی تصویر بنی ہوئی ہیں۔ موسمی تبدیلی بھی غذائی قلت کا شکار بچوں کے لیے وبال بن گئی ہے، جبکہ ہسپتالوں میں سہولیات کی عدم دستیابی سے اس مشکل میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ اس سنگین صورت حال کے باوجود سندھ حکومت غفلت کی نیند سورہی ہے، تھر پارکر کے سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی کمی پوری نہ ہوسکی اور دیہی علاقوں میں تاحال طبی ٹیمیں نہیں پہنچ پائی ہیں۔ سردی شروع ہونے کے بعد سے تھر میں غذائی قلت کا شکار بچے تیزی سے نمونیا، بخار اور دیگر وبائی امراض میں مبتلا ہورہے ہیں، حکومت سندھ اور محکمہ صحت کی جانب سے فوری مناسب اقدامات نہ کیے جانے کے باعث بچوں کی مزید ہلاکتوں کا خدشہ ہے۔ دوسری جانب سندھ حکومت نے امدادی گندم کا چوتھا فیز ایک ماہ سے بھی زاید عرصہ پہلے مکمل کر کے امدادی کاروائیاں بند کر دی تھیں۔ 60 ہزار خاندان امدادی گندم سے محروم بھی رہے تھے۔ اس کے باوجود صوبائی حکومت نے امدادی گندم کی تقسیم کا اگلا مرحلہ شروع کرنے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ کی ہدایت پر بھیجے گئے کمبل، کھجوریں اور دیگر سامان کی بھی ابھی تک تقسیم شروع نہیں کی گئی۔ متعدد علاقوں میں لوگوں کو پینے کا صاف پانی بھی دستیاب نہیں ہے اور متاثرین کے لیے امداد کا حصول بھی خواب بن کر رہ گیا ہے۔ متاثرین کا کہنا ہے کہ دعوؤں کے برعکس ان کی عملی امداد کو ممکن بنایا جائے۔ ادھر سندھ ہائیکورٹ نے وزیر اعلیٰ سندھ کی جانب سے تھر قحط سالی کیس میں جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کو غیرقانونی قرار دینے سے متعلق درخواست پر وزیراعلیٰ سندھ، چیف سیکرٹری سندھ اور دیگر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 16 دسمبر تک جواب طلب کیا ہے۔ ”پائلر“ کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نے عدالتی احکامات کے باوجود صحت، خوراک اور دیگر اہم امور پر تھر میں ریلیف کے کاموں پر کوئی توجہ نہیں دی۔ عدالت عالیہ سندھ میں جوڈیشل کمیشن سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ ہے۔ عدالت کی جانب سے جوڈیشل کمیشن کے قیام کے امکانات کے باعث حکومت نے اپنی نااہلی کو چھپانے کے لیے اپنی مرضی کا کمیشن تشکیل دیا ہے، اس لیے وزیر اعلیٰ سندھ کی جانب سے یکم دسمبر کو تشکیل کردہ جوڈیشل کمیشن کو کام کرنے سے روکا جائے۔ قومی عوامی تحریک کے صدر لطیف پلیجو کا کہنا ہے کہ تھر میں بچوں کی اموات کی ذمے دار سندھ حکومت ہے، تھر میں مسلسل بچے فوت ہورہے ہیں، لیکن سندھ حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ حکمرانوں کو چاہیے کہ تھر میں بچوں کی زندگیاں بچانے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔

تھر میں حکومتی کاہلی کے باعث بچوں کی اموات کا سلسلہ ایک عرصے سے جاری ہے، لیکن حکومت سندھ ابھی تک تھر میں مکمل طبی و غذائی امداد فراہم کر کے ان اموات کی روک تھام کا کوئی انتظام نہیں کر سکی ہے۔ تھرکا المیہ اس وقت میڈیا کی پوری توجہ کا مرکز بھی بنا ہوا ہے، ہر روز تھر کے مختلف علاقوں میں کتنے بچے بھوک سے دم توڑ رہے ہیں، میڈیا میں اس کی پوری تفصیل پیش کی جاتی ہے۔ ساری صورتحال میڈیا پر آنے کے باوجود بھی تھر کی المناک اموات کے حوالے سے حکومت سندھ انتہائی غیر ذمے داری کا ثبوت دے رہی ہے۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کا کہنا ہے کہ تھر میں ہونے والی اموات کوئی نئی بات نہیں ہے، یہاں ہر سال یہی صورت حال رہتی ہے، ماضی میں چونکہ میڈیا اتنا فعال نہیں تھا، اس لیے تھر کے واقعات سے عوام لاعلم رہتے تھے، اب میڈیا چونکہ فعال ہوگیا ہے، اس لیے تھر کی صورت حال تشویشناک نظر آرہی ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ کا یہ بھی کہنا ہے کہ تھر میں اموات بھوک سے نہیں، بلکہ بیماری سے ہو رہی ہیں، جب کہ سارا میڈیا عوامی اور سیاسی حلقے تھر میں ہونے والی اموات کو بھوک کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں اور اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ تھر میں اموات بھوک کی بجائے بیماریوں سے ہورہی ہیں تو یہ واضح ہے کہ تھری عوام کو طبی سہولیات فراہم کر کے بیماریوں کا علاج کرنا بھی تو حکومت سندھ کی ذمہ داری ہے اور اگر یہ المیہ نیا نہیں، بلکہ ایسا ہر سال ہوتا ہے تو حکومت نے اس نقصان کو روکنے کے لیے مناسب اقدامات کیوں نہیں کیے؟ کیا تھر کے عوام کو خشک سالی اور بیماریوں سے مرنے کے لیے چھوڑ دیا جانا چاہیے؟ کیا تھر ی عوام کی بیماریاں ناقابل علاج ہیں؟ اور ان کے مسائل کو حل کرنا کیا حکومت سندھ کی ذمے داری نہیں ہے؟ بقول وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ تھر کا مسئلہ نیا نہیں، بلکہ بہت پرانا ہے، لیکن یہ بھی تو حقیقت ہے کہ قیام پاکستان کے بعد سندھ میں پانچ بار پیپلز پارٹی کی حکومت رہی ہے اور 2008 سے اب تک پیپلز پارٹی کی ہی حکومت ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس طویل عرصے میں سندھ کی حکومت اس مسئلے سے ناواقف رہی ہے؟ اگر سندھ کی حکومت اس مسئلے سے واقف تھی تو اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے اس نے کیا کیا؟ تھری عوام کے مسائل کس قدر حل کیے ہیں؟ میڈیا رپورٹس کے مطابق تھر میں ڈاکٹروں کے فرائض کمپاؤنڈر اور دوسرا عملہ ادا کر رہا ہے، دوائیں نایاب ہیں، عوام کو کوئی طبی سہولت حاصل نہیں ہے۔ جو غذائی اجناس اور مالی امداد تھر بھیجی جا رہی ہے، وہ ضرورت مندوں تک نہیں پہنچ رہی ہے، بلکہ بدعنوانیوں اور کرپشن کی نظر ہو رہی ہے۔ ان مشکلات کا سد باب کرنا بھی تو حکومت سندھ کی ہی ذمے داری ہے۔

تھر میں سیکڑوں بچوں کے جانی نقصان کے بعد حکومت سندھ کا فرض تھا کہ وہ ہنگامی بنیاد پر یہاں امدادی کام کرتی، وزیر صحت یہاں مستقل پڑاؤ ڈالتے، بدعنوان اور کرپٹ عناصر کے خلاف سخت اقدامات کرکے تھری عوام خصوصاً بچوں کی غذا اور علاج کا بہترین بندوبست کیا جاتا، لیکن ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے، اس کے برخلاف عذرلنگ سے کام چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے، جو ایک منتخب اور جمہوری حکومت کے لیے باعث شرم ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ 2008 سے 2013 تک پیپلز پارٹی کی حکومت کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی ہے، ان پانچ سالوں میں سوائے الزامات کے کوئی نیک نامی پیپلز پارٹی کے حصے میں نہیں آئی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 2013 میں عوام نے پیپلزپارٹی کو مسترد کر دیا۔ اب عملاً پیپلز پارٹی سندھ دیہی تک سکڑ کر رہ گئی ہے، بلکہ سیاسی حلقے اب پیپلزپارٹی کو دیہی سندھ کی پارٹی کہہ رہے ہیں۔ اس صورت حال کا تقاضا تو یہ تھا کہ پیپلز پارٹی کم ازکم سندھ میں اپنی کارکردگی بہتر کرتی، لیکن حیرت ہے کہ پیپلزپارٹی سندھ میں اپنی کارکردگی بہتر بنانے کی بجائے تھر میں انتہائی مایوس کن کردار ادا کر رہی ہے۔ اگرچہ حکومت سندھ کی جانب سے تھر میں امدادی کام کرنے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے، لیکن ہر روز ہونے والی اموات پیپلزپارٹی کی حکومت کے دعوؤں کا منہ چڑا رہی ہیں۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 636074 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.