مجھے درد ہے تو …………!

غریبوں کے لئے جنگ لڑنے ،انقلاب لانے،عوام کی تقدیر بدلنے ،اسلامی طرز کی طرح حکومت میں بدلاؤ کی خواہش اور آزادی جیسے نعرے لگانے کا شور اکثر نظر آتا ہے۔یہ چند ہمارے سوکلڈ رہنما خالصتاًغریب عوام کی حالتِ زار کو لے کر اٹھتے ہیں ۔جس کے لئے جان تک دینے کے دعوےٰ کیے جاتے ہیں۔یہاں تک کہ بیماری،دکھ،درد اور تکلیف کی بھی پرواہ نہ کرنے کا کہا جاتا ہے اور’’میرے دل میں عوام کے لئے بہت درد ہے۔میرے لئے اقتدار کا حصول کوئی معنی نہیں ‘‘۔بقول طاہرالقادری اسلام آباد میں آنسو گیس کی شیلنگ کے باعث پھیپھڑے اور گلا شدید متاثر ہوا یہاں تک کے امریکہ کے ڈاکٹروں نے انجیو گرافی کا مشورہ دے ڈالا ،لیکن آپ کا دکھ مجھے امریکہ علاج کی بجائے پاکستان لے آیا۔ میں اگر اپنی غریب عوام کے لئے مر بھی جاؤں تو مجھے غم نہیں ۔

عمران خان کا کہنا ہے کہ میں انتہائی خوش قسمت انسان ہوں جیسے قدرت کی ہر نعمت میسر ہے۔ مجھے کوئی ضرورت نہیں کہ میں اعلٰی اقتدار پر بیٹھوں ۔میں سو سے زائد دن کنٹینر میں اس لئے بیٹھا اور کہ مجھے غریب عوام کا درد ہے۔مجھے دکھ ہے بھوکے پیاسے لوگوں کا ،بیمار غریب کا،بے روزگاری کی وجہ سے در در ٹھوکریں کھاتے ہوئے مزدور کا۔میں کسی خوشی ،غمی پر نہ جا سکا ہوں ۔ صرف آپ کے دکھ کا مداوا بننا مقصد ہے۔ اگر میں لوگوں کو حکمرانوں کے آگے پھینکتا ہوں تو صرف اس لئے کہ تم آزاد ہو جاؤ، ورنہ مجھے کسی چیز کی تمنا نہیں ہے۔میں عدالتوں کا احترام کرتا ہوں ،ریاست کی رٹ کو چیلنج نہیں کرتا ،مگر جب عدالت نے دھرنا ختم کرنے کا حکم دیا تو میں نے اسے ہوا میں اڑا دیا ،یہ صرف آپ لوگوں کی خاطر تھا۔ میں پُر امن ہوں ،مگر مجھے سول نافرمانی کا اعلان کرتے ہوئے کوئی شرم محسوس نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی اب شہروں اور پورے ملک کو جام کرنے کی بات پر کوئی پریشانی ہے۔میں بااخلاق آدمی ہوں ،جو بھی بداخلاقی ہوتی ہے وہ آپ لوگوں کے دکھ درد میں ہوتی ہے۔ ۔خیبر پختونخوا میں حکومت لی ہے تو صرف آپ لوگوں کی فلاح کے لئے۔اے ڈی پیز کو سیاست کی نظر کر دیا ، صرف ملک میں امن کی خاطر۔مجھے اپنے لئے کچھ نہیں چاہئے یہ سب آپ لوگوں کی خاطر تکالیف برداشت کر رہا ہوں۔

میاں برادران کو اقتدار کا کوئی شوق نہیں،کیونکہ وہ کئی بار حکومت کر چکے ہیں۔ان کو کسی چیز کی تمنا نہیں۔خدا تعالٰی کا دیا سب کچھ ان کے پاس ہے۔ ملک اور بیرونِ ممالک میں بڑے کاروبار ،محلات اور جائیدادیں ہیں،انہیں اقتدار کی کیا ضرورت ہے ،وہ تو صرف اپنے ملک کی غریب عوام کے لئے درد دل رکھتے ہیں۔ جس وجہ سے وہ عمران خان اور کئی لوگوں کی انتہائی نا زیبا خیالات سنتے اور برداشت کرتے ہیں۔وہ اس بات سے قطہ نظر کہ دوسرے کیا سمجھ رہے ہیں وہ بجلی کا بحران ،گیس کا بحران اور دہشتگردی کاخاتمہکر رہے ہیں،سڑکیں ،میٹروبس پروگرام اور کئی منصوبے بنا رہے ہیں۔ پڑھے لکھے لوگوں کو ٹیکسی دے رہے ہیں۔سکول،کالج اور یونیورسٹیز کے ہونہار طلبہ کو لیپ ٹاپ دے رہے ہیں۔یہ سب کچھ وہ صرف آپ لوگوں کے درد میں ہی کر رہے ہیں ۔چاہے یہ تمام کام آپ لوگوں کے ٹیکس یا آپ کے نام پر باہر کے قرضوں سے ہی ہو رہا ہے مگر آپ کے درد میں کر رہے ہیں۔

پیپلز پارٹی نے تو صوبہ سندھ میں کرپشن کا نام و نشان مٹا دیا ہے ۔انہوں نے گزشتہ پانچ سالوں میں توغریب عوام کے لئے بے نظیر بھٹو سکیم کے تحت غریب عوام کو پیسے دے کر عوامی خدمت کی ہے۔ اس میں کرپشن تو بالکل نہیں کی ۔ویسے بھی کسی معاملے میں کسی نے بھی کرپشن نہیں کی ۔ روٹی،کپڑا اور مکان تو دینے ہی والے تھے کہ پانچ سال مکمل ہو گئے ۔صوبوں کے حقوق دینے کا قانون بنایا ۔یہ صرف غریب عوام کے لئے تھا۔

حقیقت اس کے برعکس ہے ۔یہ سب جھوٹ اور صرف جھوٹ ہے۔کسی کو بے چاری عوام سے کوئی غرض نہیں ۔ ان کیڑے مکوڑوں کو صرف ڈرامے کے کریکٹر کے طور پر رکھا جاتا ہے۔ ٹیشو پیپر کی طرح استعمال کر کے دور پھینک دیا جاتا ہے۔ صرف اپنے اقتدار کی ہوس کو پورا کرنے ،ذاتی مفادات اور خواہشات کی دلدل میں دھنسے ہوئیں یہ شخصیات غربت کو کیا جانیں ۔انہیں تو صرف ان کا نام لے کر اپنی اقتدار کی ہوس کو پورا کرنا ہے۔

دراصل ہم شخصیات کے نرغے میں پھنسے ہوئے ہیں۔اگر طاہر القادری نہ رہے تو عوامی تحریک نہ رہے ۔عمران خان نہ ہو تو تحریک انصاف ختم اور اگر میاں برادران نہ ہوں تو مسلم لیگ (ن) کا وجود نہیں اور اگر زرداری نہیں تو رہی سہی پیپلز پارٹی فارغ ہو جائے ۔ہمارے ملک میں شخصیات پر فوکس کیا جاتا ہے ۔ہمارے ہاں باحیثیت ادارہ کام کرنے کا رواج نہیں ہے ،بلکہ چھوٹے سے بڑا ادارہ شخصیات کی وجہ سے چلتا یا بگڑتا ہے۔ جس کی وجہ سے ہر طرف ڈکٹیٹر شپ نظر آتی ہے۔ ہمیں سب سے پہلے انسیٹیوشن بنانے ہونگے جس کی وجہ سے ہمارے مسائل درست سمت میں گامزن رہیں ۔ جیسے الیکشن کمشن سے لے کر کئی ایسے ادارے ہیں جن کے سربراہان نہ ہونے کی وجہ سے ادارے کام نہیں کر رہے ۔ ہمارا مقابلہ دنیا کی سپر پاورز سے ہے مگر ہم ابھی تک شخصیات کے حصار سے نہیں نکل رہے۔ اس طرح کب تک چلے گا……؟
 
Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 153 Articles with 95911 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.