قم شہر کا قاضی اور’’ گو نواز گو‘‘

شاہ ایران کے خلاف آیت اﷲ خمینی کی تحریک کا مرکز، شمالی ایران کا ایک مشہور شہر، تہران سے ۷۵میل جنوب میں دریائے ساوہ اور اصفہان کے درمیان عراقِ عجم میں واقع ہے۔ اس شہر کے نواح میں تیل کے چشمے ہیں، گل پائگان سے اس طرف ایک نہر نکلتی ہے۔ آیت اﷲ گل پائگانی مشہور شیعہ عالم اسی کی طرف منسوب ہے اور یہیں پر جناب خمینی صاحب نے فلسفے کی تعلیم حاصل کی ہے۔

آیت اﷲ گل پائگانی (جرباذکانی) کی برسی کی مناسبت سے یہاں ان دنوں ان کے قد آدم پورٹریٹ بھی جگہ جگہ آویزاں تھے۔ مولویوں کی حکومت میں ان بے تحاشاتصاویرپر بار بار نگاہ پڑنے سے دل ودماغ پر افسردگی سی چھا جاتی تھی، حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اﷲ تعالی عنہ نے یہ علاقہ ۲۳ھ/۶۴۴ء میں فتح کیا تھا۔ عباسی دورِ حکومت میں اہلِ قم نے دو مرتبہ (مامون اور معتز کے ادوار میں) بغاوتیں کیں، لیکن دونوں ہی مرتبہ ناکام ہوئیں۔ موجودہ دور میں یہاں کے قابل ذکر مقامات یہ ہیں:

۱۔مزار معصومہ، ۲۔مدرسہ امام خمینی، ۳۔ مرکز جہانی برائے علوم اسلامی، ۴۔مرکز تبلیغات اسلامی، ۵۔مکتبۂ مرعشی، ۶۔جامعہ امیر المؤمنین علی بن ابی طالب رضی اﷲ تعالی عنہ۔

قم کے قریب (تفریش) کا علاقہ بھی ہے، جہاں سے فارسی کے مشہور شاعر نظامی گنجوی کے آبا واجداد ہجرت کرکے گنجہ آئے تھے۔ پاکستان میں مارے جانے والے ایرانی سفارت کار صادق گنجی اسی گنجہ کی طرف منسوب تھے، نیز قم کے قرب وجوار میں نمک کے ذخائر بھی دریافت ہوئے ہیں۔

اسی شہر کے قریب مزدکیوں کا (قریۃ المجوس) بھی ہے، قم اہل تشیع کا اہم علمی ومذہبی مرکز سمجھا جاتا ہے، شیعوں کے آٹھویں امام علی بن موسیٰ الرضا رحمۃ اﷲ علیہ کی ہمشیرہ اور ساتویں امام موسیٰ الکاظم رحمۃ اﷲ علیہ کی دختر نیک اختر سیدہ فاطمہ معصومہ رحمۃ اﷲ علیہا کا مزار بھی اسی شہر میں ہے۔ جس کی تعمیر ترکی النسل بادشاہ ناصرالدین قاچار نے کرائی تھی۔ اہل تشیع کا مشہور، تاریخی، تعلیمی ادارہ ’’مدرسہ فیضیہ‘‘ بھی اس مزار کے بالکل اغل بغل میں ہے، جہاں ۱۳۸۰ھ میں آقائی بروجردی کے انتقال کے بعد آیت اﷲ خمینی باقاعدہ درس دینے لگے تھے، ان کے حلقۂ درس میں بیک وقت بارہ سو طلبہ شریک ہوتے تھے۔

رجب ۱۴۲۶ھ میں مفتی محمد تقی عثمانی اور مولانا فضل الرحمن کے اسفار دارالعلوم زاہدان کے ختم بخاری شریف میں شرکت کے لیے ہوئے۔ مفتی صاحب نے زاہدان کے علاوہ ایران کے مختلف شہروں کا سیاحتی دورہ بھی کیا، جس میں وہ اصفہان اور قم بھی تشریف لے گئے۔ چناں چہ قم کے متعلق اردو انسائیکلو پیڈیا(ص۷۶۲)، اسلامی انسائیکلو پیڈیا(ص۱۲۵۹)، جہاں نما(ص۳۰۵)، دائرہ معارف اسلامیہ پنجاب(ص۴۰۴/ج۱۶/جز۲) اور علامہ یاقوت الحموی کی معجم البلدان (ص۳۹۷۔۶/۳۹۸) میں جو کچھ ہے، ان سب کا جامع خلاصہ بمع مستزاد ،مفید اوردل چسپ معلومات عثمانی صاحب کے سفرنامے میں ہیں، وہ یوں رقم طراز ہیں:۔

’’قم کا علاقہ حضرت عمر رضی اﷲ تعالی عنہ کے عہد خلافت میں ۲۳ھ میں حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اﷲ عنہ نے فتح کیا تھا۔ اس وقت یہ کوئی بڑا شہر نہ تھا۔ بلکہ چھوٹی چھوٹی سات بستیوں کا مجموعہ تھا۔ جن میں سے ایک نام کمندان تھا، ۸۳ھ میں جب عبدالرحمن بن الاشعث نے حجاج بن یوسف سے بغاوت کی تو اس کے لشکر کے کچھ افراد یہاں آکر مقیم ہوئے اور انہوں ان ساتوں بستیوں کو ملاکر ایک شہر آباد کر دیا۔ اور یہ ساتوں بستیاں اس شہر کے محلے بن گئے (اور اس کی باقاعدہ فصیل یعنی چار دیواری بھی قائم کی گئی، جو علی بن ہشام المروزی نے مامون کے دورِ خلافت میں بغاوت کچلنے کے لیے ڈھا دی تھی) اس شہر کا نام کمندان سے مختصر اور معرب کر کے قم بنا دیا گیا۔ جن لوگوں نے یہ شہر آباد کیا تھا ان میں سب سے نمایاں شخص عبداﷲ بن سعد تھا، اس کا ایک بیٹا کوفہ میں پیدا ہوا تھا اور وہیں اہل تشیع کے ماحول میں اس کی تربیت ہوئی تھی۔ قم کے آباد ہونے کے بعد وہ کوفہ سے قم منتقل ہو گیا اور اس نے یہاں شیعہ مذہب کو فروغ دیا، یہاں تک کہ رفتہ رفتہ یہ پورا شہر شیعہ ہو گیا۔ اور یہی وہ شہر ہے کہ جس کے بارے میں لطیفہ مشہور ہے کہ صاحب بن عباد نے (جو وزیر بھی تھا اور اعلیٰ درجے کا ادیب بھی) ایک مرتبہ یہاں کے قاضی کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا:
’’أیہا القاضي بقم، قد عزلناک فقم‘‘․

قم کے معنی عربی زبان میں ہوتے ہیں: ’’کھڑے ہوجاؤ‘‘۔ چناں چہ اس جملے کا مطلب یہ ہوا کہ ’’اے قم کے قاضی! ہم نے تمہیں معزول کر دیا ہے، لہذا (اپنی مسندِ قضا سے) کھڑے ہوجاؤ۔‘‘ اس کے بعد جب کبھی ان قاضی صاحب سے پوچھا جاتا کہ آپ کو کس لیے معزول کیا گیا؟ تو وہ جواب میں کہتے: ’’أنا معزول السجع، من غیر جرم ولا سبب‘‘۔ یعنی ’’مجھے کسی جرم یا کسی اور وجہ نے نہیں، صرف قافیہ بندی کے شوق نے معزول کیا ہے‘‘۔
(معجم البلدان للحموي، ص: ۳۹۷ـ۳۹۸، ج:۶)

بہر کیف یہ شہر دوسری صدی کے آغاز ہی سے اہل تشیع کا مرکز بن گیا تھا۔ (اس لیے یہاں کے باشندے ہمیشہ ہی کٹر شیعہ رہے ہیں) اور یہاں سے مشہور شیعہ علما بڑی تعداد میں پیدا ہوئے، اب بھی یہ شیعہ علما کی متعدد اعلیٰ سطحی درس گاہوں کا شہر ہے، یہاں قم کا مایۂ ناز کتب خانہ بھی ہے، جو اپنی نادر کتابوں کے لحاظ سے عالم اسلام کے گنے چنے کتب خانوں میں شمار ہوتا ہے، شیعہ امامیہ کے اصولوں پر تعلیم کے لیے جو درس گاہیں یہاں قائم ہیں وہ اپنے اعلیٰ معیار کی بنا پر مشہور ہیں۔

اس کے علاوہ ہمیں ایک ایسے بین الاقوامی مرکز میں بھی جانے کا اتفاق ہوا جو خاص طور پر اہل سنت کے لیے قائم کیا گیا ہے۔ اس میں دنیا کے مختلف حصوں سے اہل سنت طلبہ کو لایا جاتا ہے اور انہیں حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی فقہ کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس مرکز کے ایک ذمے دار نے، جو ایک شیعہ عالم تھے، جب ہمیں یہ بتایا کہ اس مرکز میں تقریباً آٹھ ہزار طلبہ زیر تعلیم ہیں تو میں حیران رہ گیا۔ لیکن میرے رفیق مولانا محمد قاسم صاحب نے اس کی تصدیق کی اور بتایا کہ یہ تعداد اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے، کیوں کہ اس مرکز کی شاخیں مشہد وغیرہ دوسرے شہروں میں بھی موجود ہیں۔ اب یہ اہل سنت کے لیے ایک لمحۂ فکریہ ہے کہ دنیا بھر سے اہل سنت طلبہ کی اتنی بڑی تعداد یہاں تعلیم پا رہی ہے!

ان تعلیمی مراکز کے علاوہ قم اس بنا پر بھی عوام کا مرجع بنا ہوا ہے کہ اس میں حضرت علی رضا رحمۃ اﷲ علیہ کی بہن سیدہ معصومہ کا مزار واقع ہے۔ جس پر بڑی عالی شان مسجد بھی بنی ہوئی ہے۔ اس مزار پر زائرین کا ہر وقت بے پناہ ہجوم رہتا ہے اور بزرگوں کے مزارات پر عوام میں جو بدعات وخرافات رائج ہو گئیں ہیں، وہ اپنی تمام فتنہ سامانیوں کے ساتھ یہاں بھی موجود ہیں۔‘‘ (البلاغ/ رمضان المبارک۱۴۲۶ھ)

ہماری معلومات کے مطابق ’’المرکز العالمي للدراسات الإسلامیۃ بمدینۃ قم‘‘ میں اہل سنت واہل تشیع دونوں ہی طلبہ تعلیم حاصل کرتے ہیں اور جو یہاں آٹھ دس ہزار طلبہ کی تعداد ہوتی ہے ان میں شیعہ سنی دونوں ہیں، ایران کے اپنے ایک دورے میں ہم نے یہی دیکھا اور محسوس کیا، جب کہ عثمانی صاحب کو یہ بتایا گیا ہے کہ یہ صرف اہل سنت طلبہ کے لیے ہے، جسے دیکھ کر ہمیں اس حوالے سے خلجان سا پیدا ہوا، چناں چہ اس بات کی تحقیق ومزید تنقیح کے لیے میں نے (المجمع العالمي للتقریب بین المذاہب الاسلامیۃ) کے جنرل سیکرٹری جناب آیت اﷲ تسخیری صاحب کے دست راست حجۃ الاسلام مولانا میر آقائی صاحب سے فون پر بات کی، انہوں نے پھر سے اس کی تصریح کی ،یہاں شیعہ سنی دونوں قسم کے طالب علم پڑھتے ہیں، نیز انہوں نے بتایا کہ یہاں ۹۶ ملکوں کے دس ہزار طلبہ اور ۴۰ ملکوں کی ایک ہزار طالبات زیر تعلیم ہیں۔

اس مرکز کا بروشر بھی میرے پاس موجود ہے، اس میں بھی کہیں اہل سنت کے لیے اس کے اختصاص کی بات نہیں ہے۔
مختلف ملکوں سے طلبہ وطالبات کی اتنی بڑی تعداد کی یہاں تعلیم کی غرض سے آمد یقینا خوش آئندہے الب
تہ مفتی صاحب نے اسے اہل سنت کے لیے لمحۂ فکریہ قرار دیا ہے۔

بہرحال ایرانی انقلاب کے روح رواں جناب خمینی صاحب نے ایرانی قوم کو جو دو نعرے دیے تھے ’’ایران را مدرسہ بسازید‘‘ اور ’’ایران را سرسبز بسا زید‘‘ پورے ملک کے اعتبار سے تو اول الذکر نعرے کو عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکا، تاہم قم شہر کے تاریخی تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے اسے ایک تعلیمی شہر کی حیثیت سے خوب ترقی دی گئی اور ماضی قریب میں شاید برطانیہ، جس نے آکسفورڈشہر کو ایک باقاعدہ ایجوکیشنل سٹی کے طور پر متعارف کرایا، کے بعد ایران دوسرا ملک ہے جس میں ایک مستقل شہر کو تعلیم وتعلم کے مرکز کی حیثیت حاصل ہے اور اس حوالے سے اس کی ایک شناخت اور باقاعدہ تاریخی تسلسل ہے، تاریخ میں اس سے قبل بھی اہل تشیع کو ہی اس طرح کے ایک اقدام کا کریڈٹ جاتا ہے۔ مصر کا جامعۃالازہر علم ودانش کے حوالے سے ایک ایسا معتبر نام ہے کہ ہر طبقے اور ہر مسلک میں اسے قدر وعظمت کی نگاہ سے دیکھا اور ادب واحترام سے اس کا نام لیا جاتا ہے اور دنیا بھر میں رونما ہونے والے مختلف انقلابات اور تغیر وتبدل احوال کے باوجود اس کی اس امتیازی پوزیشن اور جداگانہ شان میں کوئی فرق نہیں آیا ہے، اس جامعۃ الازہر کی بنیاد فاطمی دور حکومت میں رکھی گئی تھی، ابتدا میں یہ ایک مسجد تھی، جس کی بنیاد جوہر الکاتب الصقلی نے رکھی تھی اور اس کی تعمیر دو سال میں پایہ تکمیل کو پہنچی تھی، بعد میں یہ مسجد باقاعدہ ایک عظیم الشان بین الاقوامی یونی ورسٹی کی صورت اختیار کر گئی، یہاں تک کہ معاصر دور میں یہاں قریباً ایک لاکھ طالب علم مختلف شعبوں میں اپنی علمی پیاس بجھاتے ہیں اور الازہر کا شیخ بلحاظ عہدہ مصر کے وزیر اعظم کے برابر سمجھا جاتا ہے۔ عرض کرنے کا منشا یہ ہے کہ عالم اسلام کے اس مشہور ومعروف مرکز کی بنیاد بھی اہل تشیع نے ہی رکھی ہے، اگرچہ اس کی تعمیر وترقی اور توسیع میں سنی حکمرانوں کا کردار سینکڑوں گنا زیادہ ہے۔ نیز مذکورہ بالا تعلیمی شہر کے حوالے سے ’’دیوبند‘‘ اور مذہبی مرجعیت کے متعلق روم شہر کے ایک حصے ’’ویٹی کن سٹی‘‘ کے نام بھی لیے جا سکتے ہیں۔

کیا ہم ملائیشیا کے ڈاکٹر محاضر (مہاتیر) محمد، شاہ فیصل کے فکری ونظریاتی جانشین سمجھے جانے والے سعودی عرب کے شاہ عبداﷲ اور جامعۃ الازہر کے فاضل دارالسلام (برونائی) کے شاہ سلطان حسن البلقیہ سے اس طرح کے لازوال، تاریخی، تعلیمی منصوبوں کی کوئی توقعات وابستہ کر سکتے ہیں؟؟؟…… علامہ اقبال نے کیا خوب فرمایا:
وہی جہاں ہے تیرا جس کو تو کرے پیدا
یہ سنگ وخشت نہیں جو تیری نگاہ میں ہے

بات لمبی ہوگئی،کہنا یہ تھا کہ کپتان کو’’گو نوازگو‘‘ کی سجع اتنی پسند آئی ہے،کہ صرف ان الفاظ کی تطبیق کے خاطر وہ بے چارے نوازشریف کو وزاراتِ عُظمیٰ سے معزول کرنا چاہتے ہیں۔
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 823283 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More