ششماہی نتائج:۶ ماہ کے اندر چھٹی کا دودھ یاد آ گیا

نئی مرکزی حکومت نے کسی طرح اپنی عمر کا آدھا سال مکمل کرہی لیا ہے۔ اب اگر کوئی انتخابی وعدوں کی روشنی میں جائزہ لے کہ اس عرصہ میں ہم نے کیا کھویا کیا پایا تو اس کے سامنے دلچسپ انکشافات ہوں گے ۔ اسے پتہ چلے گا کہ جوخواب دکھلائے گئے تھے وہ تو چکنا چور ہوگئے لیکن جو کچھ ہوا وہ بھی کسی کے خواب و خیال میں نہیں تھا۔ مثلاً جب وزیراعظم گوہاٹی میں خفیہ ایجنسیوں کےاعلیٰ افسران سے خطاب کرتے ہوئے اچانک بھول گئے کہ وہ بچوں کی کلاس روم نہیں ہیں اور کسی استاد کی طرح اے فور ایپل کی گردان پر ہال میں موجود شرکاء کو’’اسمارٹ پولیسنگ‘‘ کا مطلب سمجھا نے لگے۔ ایس سےحساس اور سخت(sensitive & strict)، ایم سے جدید اور متحرک(Modern & mobile)، اے سے ہوشیار اور جوابدہ (alert & accountable)، آر سے قابل بھروسہ اور مدد کو آنے والا (reliable & responsive)،اور ٹی سے تربیت یافتہ اور تکنیکی ماہر(trained & technical savvy) ہوتا ہے تو اس وقت سی بی آئی کے ڈائرکٹررنجیت سنہا نیند کے جھونکے کیتے ہوئے پائے گئے۔ٹیلی ویژن کے پردے پر ساری دنیا ان کے اونگھنے کا نظا رہ کیا۔ سوال یہ ہے پیدا ہوتا ہے کہ نام نہاد خطیب اعظم کی تقریر کے دوران یہ نوبت کیوں پیش آئی؟وجہ صاف ہے سرکاری افسران کے کان پردھان پرچارک کے گھسے پٹے پروچن سن سن کر پک چکے ہیں ۔

عوام کے اندر جو بیزاری پیدا ہوئی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قومی ذرائع ابلاغ میں وزیر اعظم کی تعریف و توصیف میں لکھے جانے والے کئی مضامین کی سرخی متضاد لگی ہوتی ہے مثلاً حال میں ایک خبر چھپی جس کا عنوان تھا مودی سرکار صرف باتوں کی شیرہے لیکن اندر سارا مضمون وزیراعظم کی تعریف سے اٹا پڑا تھا اس کے باوجود یہ منفی سرخی اس لئے لگائی گئی کہ لوگ مودی کی خوشامد پڑھتے پڑھتے اس قدر بور ہو گئے ہیں کہ اب مزید پڑھنا گوارہ نہیں ہے ۔ ۶ ماہ کے اندر اس قدر جوتبدیلی واقع ہوئی ہے اس کی وجہ وزیراعظم کے طریقۂٔ کار ہے۔ مثلاًمودی جی نے نیپال جاتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ وہ اپنے ساتھ۲۶ سالہ جیت بہادر کو لے جارہے ہیں جو ۱۶ سال قبل اپنے والدین کو چھوڑ کر ان کے پاس آیاتھا۔ بڑی مشکلوں سے اس کے ماں باپ کا پتہ لگایا گیا ہے اور اب وہ جیت بہادر کو اپنے والدین سے ملانے والے ہیں۔ اس جھوٹ کا بھانڈہ اس وقت پھوٹ گیا جب جیت بہادر کے فیس بک پر اس کی دوسال قبل اپنے والدین کے ساتھ کھنچوائی گئی تصویر ذرائع ابلاغ کی زینت بن گئی۔ جو شخص اس قدر جھوٹ بولے اور اس طرح شیخی بگھارے تو بھلا اس کی بات پر کس طرح یقین کیا جائے اوراسے کس طرح سنجیدگی سے لیا جائے۔

وزیراعظم کو اشتہار باز صحافی بڑی مہارت کے ساتھ اقتدار میں تو لے آئے لیکن اب وہی لاشعوری طور پر ان کے دوست نما دشمن بنے ہوئے ہیں اور انہیں اس طرح کی اوچھی حرکات سجھاتے ہیں جن پر بغیر سوچے سمجھے مودی جی عمل پیرا ہوتے ہیں۔ نئی حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ خود وزیراعظم ہیں اس لئے کہ انہوں نے ساری توجہات کا مرکز اپنی ذات کو بنا لیاہےتمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لےرکھے ہیں اس لئے ان کے ذاتی مسائل بھی حکومت کے لئے دردِسر بن جاتےہیں ۔ سچ تو یہ کہ بہت زیادہ تیز دوڑنے کے چکر میں وزیراعظم نت نئے مسائل میں بری طرح گھر چکے ہیں اور اس قلیل سےمدت میں حکومت مختلف محاذ پرناکام ہوچکی ہے ۔ وزیراعظم کے لئےگھر سے لے کر حلقۂ انتخاب تک سنگین مشکلات کا سامنا ہے۔اندرون ملک اور عالمی سطح پردرپیش چیلنجز کو دیکھ کر صاف محسوس ہوتاہے کہ مودی جی کا ستارہ گردش میں آچکاہے۔کوئی بعید نہیں جلدہی وہ بھی وزیر تعلیم سمرتی ایرانی کی طرح کسی جیوتش کو اپنا ہاتھ دکھلاتے ہوئے نظر آئیں لیکن اصل مسئلہ ہاتھ کا نہیں سر کا ہےبہتر ہوگا کہ وہ کسی ماہر نفسیات سے رجوع فرمائیں تاکہ دماغ درست ہو سکے۔

وزیر اعظم کو اپنی سرکار کی پہلی نصف سالگرہ پر بہترین مبارکباد ان کی نصف بہتر جشودھا بین نے دی ۔ انہوں نے مہسانہ پولس تھانے میں جاکر حق معلومات کے تحت جو وضاحتیں طلب کی ہیں وہ شکایات کاایک ایسا دفتر ہے کہ اس نے ساری قوم کو اقوام عالم کے سامنےرسوا کردیا۔ ساری دنیا کے لوگ زبانِ حال سوال کرر ہے ہیں کہ کیا کوئی پتی اپنی دھرم پتنی کے تئیں اس قدر کٹھور ہوسکتا ہے؟اگر شخص اپنی زوجہ کی اس طرح حق تلفی کرے تو کیا اس کے پاس حکومت کرنے کا اخلاقی استحقاق ہوتا ہے؟ کیا ایسے سربراہ مملکت سےملک کی خواتین اپنےحقوق کا محافظ بنا سکتی ہیں؟ ایک زمانے میں شہنشاہ سلیم جہانگیر کی ملکہ نورجہاں نےقیام عدل کی خاطر انصاف کا ترازو نصب کروایا تھا لیکن آج ایک جمہوری بادشاہ کی ملکہ خود اپنے حقوق کی خاطر دردر کی ٹھوکریں کھارہی ہے۔ وہ اپنے شوہرنامدار کی جانب سے اپنی حفاظت پر تعینات محافظین سے خوف کھاتی ہے اور برملا کہتی ہے کہ اس کے ساتھ انصاف نہیں ہوا۔ محترمہ جشودھا بین نے اپنے سوالنامہ میں دس وضاحتیں طلب کی ہیں اور ۶ مرتبہ یہ لکھا ہے کہ میں جشودھا بین وزیراعظم نریندر مودی کی زوجہ یہ جاننا چاہتی ہوں کہ ۰۰۰۰۰۔مودی جی کو اپنی حکومت کے ۶ ماہ کی تکمیل پر اس سے بہتر تحفہ اور کیا مل سکتا تھا ؟

وزیراعظم نریندر مودی ریاستِ گجرات کے رہنے والے ہیں وہاں سے ایک نہایت دلچسپ خبر یہ آئی ہے کہ کرایہ دار اور زراعتی زمین کا قانون جو نریندر مودی نے ؁۲۰۱۱ میں وزیراعلیٰ کی حیثیت سے منظور کرکے دہلی بھیجا تھا اسےوزیراعظم مودی کی وزارتِ داخلہ نے تکنیکی بنیاد پر نامنظور کرکے واپس بھیج دیا ہے۔ اس قانون پر نہ صرف گورنر نے بلکہ یو پی اے سرکار نے بھی اعتراض کیا تھا لیکن وہ سب تو خیر دشمن تھے اب تو ان کی اپنی حکومت ہے اس کے باوجود وضاحت کی خاطر اس بل کا واپس ہوجانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ آدرش گجرات میں کیا کچھ ہوتا رہا ہے ۔ مرکزی حکومت کے ادارے سی اے جی کی رپورٹ گجرات سرکار کے اس دعویٰ کی تردید کرتی ہے کہ ریاست میں اسکول سے نکلنے والے طلباء کی تعداد گھٹ کر ۷۹ء۰فیصد تک پہنچ گئی ہے ۔ اعدادو شمار بتلاتے ہیں کہ یہ تعداد ۷ء۱۹ فیصدہے۔ اس کی وجہ اسکولوں میں سہولیات کی عدم فراہمی بتلائی جاتی ہے۔ وزیراعظم کو معلوم ہونا چاہئے کہ یوم اساتذہ پر تقریر کرنا جس قدر آسان ہے تعلیم کے فروغ کی خاطر سنجیدہ کوشش اسی قدر مشکل ہے۔ معیشت کے میدان میں بھی حکومت ہند کے حالیہ انکشاف کے مطابق گزشتہ سال کے اعدادوشمار کی بنیاد پرملک کی سب سے زیادہ جی ڈی پی(مجموعی پیداوارکی شرح) والی جن پانچ ریاستوں کے نام کا اعلان کیا گیاہے اس میں گجرات تو کجا بی جے پی حکومت والی کوئی ایک بھی ریاست نہیں ہے۔ سب سے اوپر مہاراشٹرجو حال میں بی جے پی کے ہاتھ آئی ہے اور یکم دسمبر کی خبر کے مطابق وزیراعلیٰ فردنویس کے علاقہ ودربھ کے اندر ایک دن کےمیں ۱۸ افراد نے خودکشی کی ہے اور وزیراعلیٰ سیاسی جوڑ توڑ میں مصروف ہیں۔ اس کے بعد اتر پردیش، آندھرا پردیش،تمل ناڈو اور پھر اڑیسہ کا نمبر آتا ہے۔ اس کے باوجود بی جےپی والے بے شمار خوش فہمیوں کو شکار ہیں۔بی جے پی کی ریاستی سرکاروں پر یہ شعر صادق آتا ہے کہ ؎

خوش فہمیوں کے سلسلے اتنے دراز ہیں ہر اینٹ سوچتی ہے کہ دیوار مجھ سے ہے۔

وزیر اعظم نے بڑودہ کے علاوہ (جہاں وہ کسی زمانے میں سنگھ پرچارک تھے) وارانسی سے بھی انتخاب لڑا لیکن حلف برداری کے بعد بڑودہ سے استعفیٰ دے کر وارانسی کی نمائندگی کرنے کا فیصلہ کیا ۔ اب پتہ چلا ہے کہ وارانسی میں ۳ لاکھ گیارہ ہزارفرضی رائے دہندگان کی شناخت ہو چکی ہے۔ اورتفتیش جاری ہے ۔ ان فرضی وووٹرس کی تعداد ساڑھے چھے لاکھ تک جانے کا امکان ہے ۔ یہ کوئی ہوائی الزام تراشی نہیں ہے بلکہ الیکشن کمیشن کے ذریعہ گھر گھر جاکر رائے دہندگان کی شناخت کے کام کا نتیجہ ہے۔ ایسے میں جب یکم جنوری کو نئی فہرست جاری ہوگی اوراس میں سے فرضی ووٹرس نکال دئیے جائیں گے تو اروند کیجریوال کے اچھے دن اپنے آپ آجائیں گے اس لئے کہ مودی جی کا انتخاب تو کالعدم قراد دے دیا جائیگا۔ ویسے بھی الہ باد کی عدالت میں زوجہ جشودا بین کی آمدنی کےحوالے لاعلمی کے اظہار پر حلف نامہ میں دروغ گوئی کا مقدمہ چل ہی رہا ہے۔ اس قضیہ میں ایک الزام کا اضافہ ہو جائیگا۔

مودی جی وارانسی کے بارے میں خاصے فکر مند ہیں جب کبھی انہیں نروان ہوتا ہے کہ پاپیوں کے پاپ دھوتے دھوتے رام جی کی گنگا میلی ہوچکی ہے تو وہ پھاوڑا لے کر اس کے گھاٹ کی صفائی کیلئے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ جاپان جاتے ہیں تو کاشی کو کیوٹو کی طرح بنانے کا عزم کرنےلگتے ہیں۔ نیپال میں جاکراسے گوتم بدھ کے جائے پیدائش لوم بینی اور نروان گاہ بودھ گیا سے جوڑنے کیلئے بس روانہ کرواتے ہیں جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ بنارس ہندو یونیورسٹی میں ایک دوسرے سے برسرپیکار طلباء کوایک دوسرے سے جوڑا جائے ۔ بی ایچ یو میں ودیارتھی سنگھ اورودیارتھی پریشد کی لڑائی ٹھاکر اور براہمنوں کا تنارع بن گئی ہے ۔ ۱۱۰ طلباء گرفتار کرکے جیل بھجوائے جاچکے ہیں۔ اس جھگڑے میں یقیناً براہمنوں کو جوشی جی کا تو ٹھاکروں کو راج ناتھ کا آشیرواد پراپت ہوگا لیکن مودی جی کے ساتھ ان میں سے کوئی نہیں ہے ۔ مودی جی کو چاہئے کہ وہ اپنی پارٹی کے کارکنوں کو علی گڑھ کے بجائے بنارس ہندو یونیورسٹی کے کیمپس میں بھیج کر اپنا قلع محفوظ کرائیں ورنہ اگلی بار ضمانت ضبط ہو جائیگی۔

حلقۂ انتخاب سے نکل کر اگرقومی سطح پر آئیں تو وہاں آج کل کالا دھن چرچے میں ہے ۔ سپریم کورٹ اس معاملہ میں سرکار کو پھٹکار لگا چکا ہے اس کے باوجود کمال ڈھٹائی کے ساتھ وزیر پارلیمانی اموروینکیا نائیڈو نےانتخابی وعدے سے مکرتے ہوئے اعلان فرمادیا کہ ہم نےکبھی کہا ہی نہیں تھا کہ ۱۰۰ دن کے اندرکالا دھن واپس لائیں گے ۔ سفید دھن کی بات کریں تو غریب عوام کیلئے جو جن دھن یو جنا شروع کی گئی ہے اس کے تحت لاکھوں لوگوں کے بنک کھاتےتو کھولے گئے لیکن ان میں ڈالنے کیلئے سرکار کے پاس ایک دمڑی نہیں ہے جبکہ گوتم اڈانی کو وزیر اعظم خود اپنی موجودگی میں آسٹریلیا کے اندر سرمایہ کاری کی خاطرسرکاری بنک سے ۶ ہزار کروڈ کا قرض مہیا کروادیا۔ اب یہ واپس ہوگا یا نہیں اس کا علم نہ لینے والے کو ہے اور نہ دینے والے کو جہاں تک دلانے والے کا سوال ہے اس کے فرشتے بھی اس بابت کچھ نہیں جانتے۔ ایسے میں ہندوستان کے غریب لوگ جنہوں نےاپنا قیمتی ووٹ دے مودی جی کو کامیاب کیا تھا سوال کرتے ہیں؎
خود اتنا جو ہوادار سمجھ رکھا ہے کیا ہمیں ریت کی دیوار سمجھ رکھا ہے

اس دوران گاندھی جینتی کے موقع پر راشٹر پتا گاندھی جی کوخراج عقیدت پیش کرنے کیلئے صفائی مہم چلائی گئی ۔ اس کار خیر میں شریک ہونے کیلئےقومی سطح پر وزراء اور افسران کی فوج جھاڑو لے کر سڑکوں پر اتر آئی ۔ اس مہم کے نتیجے میں کچرا صاف تو نہیں ہوا لیکن کچرے کی مانگ ضرور بڑھ گئی اور اس کی قدروقیمت میں بھی خوب اضافہ ہوا۔ اس لئے کہ صفائی مہم سے پہلے سڑک کو بڑے اہتما م سے صاف کیا جاتا تھا پھر کچرے کو دھو کر وہاں پھیلایا جاتاتھا۔ ٹیلی ویژن والوں کو خبر کی جاتی تھی اور جب وہ پہنچ جاتے تو سرکاری افسران اور وزرائے کرام میک اپ کرکے جھاڑو تھامتے اور کچرے کی جانب بڑھتے تو پتہ چلتا کہ کچرا کم ہے اورصفائی کرنے والے زیادہ ہیں ۔ خود وزیراعظم کے حصے میں جو دوچار ہرے پتے آئے جنہیں دیکھ کر ماہرین نباتات حیران رہ گئے کہ ان سبز پتوں کو آخر ہوا نے اپنی شاخ سے کیسے الگ کردیا ۔ اس معمہ کا راز انڈیا اسلامک سینٹر پر کھل گیا جہاں ٹیلی ویژن کا کیمرہ مین وقت سے پہلے پہنچ گیا اور اس نے کچرا صاف کرنے والوں سے قبل اس کے پھیلانے والوں کی رنگ برنگے کچرے کے ساتھ فلم بندی کرلی نتیجہ یہ ہوا کہ کچرا پھیلانے والے ہیرو ہوگئے اور اس کو صاف کرنے والے زیرو ۔ اس طرح گویا ہمارےسیاستدانوں نے اپنے مفاد کی خاطرگاندھی جینتی کا بھی کچرا کردیا۔

وزیراعظم فی الحال اپنے گھر سے نکلتے ہیں تو کسی انتخابی مہم میں جٹ جاتے ہیں یا غیر ملکی دورے پر نکل جاتے ہیں ۔ ان چھے ماہ میں پورے ایک ماہ تو وہ ملک سےباہر رہے جب اندرتھے تو آنے جانے کی تیاریوں میں مصروف عمل رہے ۔ ان کی کفایت شعاری کا یہ عالم ہے کہ ہے برازیل جاتے ہوئے جرمنی کی چانسلر سے ملنے کی ناکام کوشش کرڈالی۔ اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کی غرض سے امریکہ گئے تو ناچ گانے والوں کے ساتھ وہاں رہنے بسنے والے ہندوستانیوں کی تفریح طبع کا سامان کیا۔ تاجروں اور صنعتکاروں کی خوشامد میں لگے رہے اور اسرائیل کے وزیراعظم سے مل کر ہتھیاروں کا سودہ بھی کرآئے۔ صدر وابامہ کے مہمان بن کر شہرت بٹورنے کی کوشش کی ۔جاپان میں جاکر ڈھول تک بجا دیا لیکن اس کے باوجود نیوکلیائی بجلی گھر کی تکنیک لا نے میں ناکام رہے ۔ آسٹریلیا پہنچے ہر تصویر میں اپنے مخاطب کے بجائے فوٹو گرافر کو دیکھتے نظر آئے۔ آسٹریلیا والوں سے اپنے ملک میں سرمایہ کاری کرانے کے بجائے خود ان کے ملک میں سرمایہ کاری کرآئے لیکن ان سب سے دلچسپ سفر نیپال کا رہا۔

نیپال کا سفر وزیر اعظم نے دومرتبہ کیا۔ پہلی بار وہ صرف پشوپتی ناتھ مندر میں پوجا پاٹ کرنے کیلئے گئے تھے اور ڈھائی ٹن صندل ہون میں پھونک آئے۔ دوسری بار سارک کانفرنس میں جانے کا ارادہ کیا تو ساتھ ہی لوم بینی، مکتی ناتھ اور جنک پوری جانے کا بھی منصوبہ بنا لیا۔ یہ شہر مدھیش کی ترائی میں ہیں جہاں ہندی بولنے والے کثیر تعداد میں رہتے بستے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب حکومت نیپال نے اس کی اجازت نہیں دی تو اس کے خلاف وہاں کے لوگوں نے احتجاج کرکے یہ ثابت کردیا کہ مودی جی کا دورہ نیپال کی داخلی سیاست میں مداخلت کے مترادف تھا ۔ بظاہردورے کے اختصار کی وجہ اندرونِ ملک مودی جی مصروفیت کو قرار دیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ ایسی کون سےناگہانی مصروفیت اچانک آگئی تھی جو دورہ مختصر کرنا پڑا؟ ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے آخر رام بھکت مودی کو اچانک سیتا جی کی جنک پوری کیوں یاد آگئی؟

وشوہندو پریشد ہر پانچ سال میں ایک مرتبہ ایودھیا سے جنک پوری تک رام بارا ت کا اہتما م کرتی ہے ۔ اس بار وہ بارات ۱۷ نومبر کو ایودھیا سے نکلی۔ وی ایچ پی والے چاہتے تھے مودی جی ایودھیا سے اس بارات کو ہری جھنڈی دکھلائیں لیکن وزیر اعظم کے دفتر نے انہیں زعفرانی جھنڈی دکھا کر آگےبڑھا دیا ۔ وی ایچ پی والوں نے اترپردیش کے گورنر رام نائک سے کام چلا لیا ۔ اس بارات کو ۳۰ نومبر کے دن جنک پوری پہنچنا تھا اور اگر وزیراعظم کادورہ منسوخ نہ ہوتا تو مودی جی اسی کے آس پاس جنک پوری پہنچتے گویا بارات کا استقبال کرتے لیکن سارے کئے کرائے پر نیپالی حکومت نے پانی پھیر دیا۔ اس قضیہ کا دلچسپ ترین پہلو یہ ہے ایک ہندوراشٹر نےسیتا کی نگری جنک پوری میں ایک رام بھکت وزیراعظم کو رام بارات کا استقبال کرنےسے محروم کردیا۔ ایسا ظلم تو شاید راون بھی نہیں کرتا لیکن یہ کل یگ اس میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ مودی جی نے ٹراما سینٹر کا افتتاح کرتے ہوئے نیپالی حکومت پر اپنا نزلہ اتارا۔ انہوں نیپالی حکومت کونہایت سخت انداز میں دونصیحتیں کرڈالیں اول تو یہ کہ میعاد مقررہ کےاندر دستور سازی کا کام مکمل کرلیا جائے نیز اس کام میں اکثریت کی رائے کے بجائے اتفاق رائے پر انحصار کیا جائے۔

مودی جی کے اس پروچن کی نیپال کے ایوانِ سیاست اور ذرائع ابلاغ میں خوب جم کر تنقید ہوئی۔ عوام و خواص دونوں کو پھر ایک بار بڑے بھائی والا ہندوستانی کردار یاد آگیا۔ مودی جی کی نصیحت کو داخلی معاملات میں مداخلت سمجھا گیا ۔ اتفاق رائے کی سیاست کا درس دینے والے وزیراعظم مودی نے خود اپنے پرنسپل سکریٹری نرپندر مصرا کا تقرر حزب اختلاف کو اعتماد میں لئے بغیر کیا۔ دستور کے مطابق ٹی آر اے آئی کے سربراہ کو کوئی اور سرکاری ذمہ داری دینے کی اجازت نہیں ہے لیکن اس بل کو بالائے طاق رکھ ایوان زیریں میں اکثریت کی بنیاد پر آرڈیننس کو حق بجانب ٹھہرا دیا گیا جبکہ ایوان بالا میں حکمراں جماعت کو اکثریت حاصل نہیں ہے اور وہاں سب سے بڑی جماعت کانگریس اس کی مخالف تھی اس کے باوجود من مانی کی گئی۔ جو لوگ خود اپنی دستوری ذمہ داریوں کا پاس و لحاظ نہیں رکھتے انہیں دوسروں کو نصیحت کرنے قبل یہ بھی سوچنا چاہئے کہ ؎
شیش محل میں رہنے والو ہم پر پتھر نہ پھینکو
پتھر واپس لوٹیں گے تو پھر شیش محل کا کیا ہوگا
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2049 Articles with 1237858 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.