کوئی اللہ کا بندہ خود کو سجدہ ہوتے دیکھ کر چپ نہیں بیٹھ سکتا۔

اگر کوئی باوردی کرے تو جرم عظیم ، شیروانی پہن کر کرے تو جمہوریت پسند اور فرشتہ، مشرف اگر ججوں پر پابندی لگائے، ملک میں اعلانیہ ایمرجنسی لگائے تو غلط اور قابل گرفت اقدام کرنے والا لیکن کوئی اپنی مطلق العنانیت کے زعم میں پسندیدہ میڈیا چینلز کے پٹے کھول دے، اپنی مرضی کے جج لگا کر مرضی کے فیصلے لے، ناپسندیدہ چینلز اور اینکرز پر پابندیاں لگائے، عملاََ کنٹینروں کی بہار موسم سیاست میں لا کر غیر اعلانیہ ایمرجینسی لگائے تو اس کو یہ حق دیا آئین نے۔ کوئی حکومتِ وقت کے خلاف برسرپیکار بگٹی کو قتل کرے تو اس کے نام پر یادگار ٹرینیں چلائی جائیں لیکن یہ خود ماڈل ٹاؤن میں چودہ لاشیں گرا کر بھی معصوم اور حق بجانب۔ منافقت کے اور کتنے چہرے ہوں گے بھلا، پاکستان میں تو لوٹ سیل لگی ہوئی ہے۔
سیاست کے سینے میں دل ہی نہیں، سیاست کے وجود میں اخلاقیات بھی نہیں ہوتیں، اصول بھی نہیں ہوتے اور دماغ کی جگہ مفاد پرستی کا گند بھرا ہوتا ہے۔ جس کی سوچ یہی ہوتی ہے کہ تمام تر لائقیت اس کے خاندان کی میراث ہے۔ ایک انگریزوں کے گھوڑے نہلانے والوں کے جری سپوت نے اسکندر مرزا کو قائد اعظم سے بڑا لیڈر قرار دیا ،تاریخ میں عبرتناک موت سے ہمکنار ہو کر بھی نہیں مرا اور اس کی بے چین روح جو کام زندگی میں سرانجام نہ دے پائی اب اپنی نام نہاد نسلوں کے سہارے پورے کرنے کو ایوان اقتدار کی بالکونیوں میں بھٹکتی پھرتی ہے۔ دوسرے ذات کے لوہار پاکستان کی تقدیر کے ان داتا۔ کسی پڑھے لکھے کو انہوں نے آگے آنے ہی نہیں دیا اور نہ ایسا کوئی ارادہ ہے ان کا۔ ان کی کل قابلیت ہے ان کا پیسہ جو ضیا الحق کو اپنا والد بزرگوار قرار دے کر پاکٹ منی کی صورت اکٹھا کیا ورنہ اس سے قبل ان کی زندگی کا پلان کیا تھا؟ یا فلم ایکٹر بننا یا پولیس میں انسپکٹر بھرتی ہو جانا۔ فلم ایکٹر نہ بن سکا کہ موزوں جان جثہ نہ تھا اور پولیس میں اس لئے بھرتی نہ ہو سکا کہ عمر زیادہ ہو چکی تھی۔

چھوٹے میاں شادیوں کے شوقین اور اس قدر زیادہ کے کسی شادی شدہ پر جو دل آیا تو اس کو طلاق دلوا کر اپنے حرم میں لے آئے۔ بڑے میاں کی تو بات ہی نہ کیجئے، عوام طاہرہ سید اور فریال گوہر کے ناموں سے بخوبی آشنا ہیں۔ یہ سب بتانے کا مقصد یہ کہ عوام جان سکے کہ جن کے پیچھے وہ گھوڑوں ، گدھوں کی طرح سر جھکائے چل رہے ہیں ان کا ویژن کیا تھا۔ سیاستدان کسی فیکٹری میں تیار نہیں ہوتا، سیاستدان پیدائیشی طور پر کچھ کرنے کا عزم رکھتا ہے، سیاست پیشہ نہیں ہے لیکن کیا کہنے اس ملک پاکستان کے جس کے انتخابی فارم میں لوگ پیشے کے خانے میں اپنا پیشہ ’’سیاست ‘‘ لکھتے ہیں اور پھر بھی 62۔63 کی زد میں نہیں آتے۔

سیاسی دلال میں اور سیاسی کارکن میں فرق ہونا چاہیئے ورنہ پھر رحمان ملک، یوسف رضا گیلانی، احسن اقبال، پرویز رشید کو گالی مت دیں۔ ہر غلط پر بھی آمنا صدقنا کہنے والا انسان نہیں ہو سکتا۔ انسان کا اختلاف تو اپنے سگے باپ سے ہو سکتا ہے، لیکن یہ کیا کہ اپنے لیڈر کے خلاف بات سننے کو ’’سیاسی شرک‘‘ قرار دے دیا جائے۔ یہ سیاسی کارکن نہیں ہو سکتے البتہ غلام کا لفظ موزوں ہے ان جیسوں کے لئے۔ دوسروں کا منہ سرخ دیکھ کر اپنا منہ سرخ کرتے ہیں، کبھی ان کو پی ٹی آئی کے جلسوں میں خواتین دکھائی دیتی ہیں تو کبھی اس میں ناچ گانا، اپنے جلسوں میں بھلے نوجوان لڑکیوں کی قمیضیں الٹ دی جائیں، نصیبو لعل کو بلا کر مجرہ کروایا جائے سب جائز ہے۔ میرا یہ ماننا ہے کہ جو اصول دوسروں کے لئے رکھتے ہو وہ پہلے خود پر تو نافذ کرو۔ آج ان کو کپتان کا ’’اوئے‘‘ کہنا برا لگتا ہے، کل یہ محترمہ کے سفر پر جو پھبتیاں اور واہیات جملے پارلیمان میں بیٹھ کر بولتے تھے وہ ان کو بھول گئے ہیں۔ ان کو لفظ ’’ اوئے‘‘ ہر اعتراض اس لئے ہے کہ اس سے ان کے غرور کو ٹھیس لگتی ہے اور یہ خود کو خدا سمجھ بیٹھے ہیں، جبھی تو اپنی بات کے خلاف بات کو سیاسی شرک کہنے پر برا نہیں منایا ورنہ کوئی اللہ کا بندہ خود کو سجدہ ہوتے دیکھ کر چپ نہیں بیٹھ سکتا۔
ABDUL SAMI KHAN SAMI
About the Author: ABDUL SAMI KHAN SAMI Read More Articles by ABDUL SAMI KHAN SAMI: 99 Articles with 104952 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.