کالم ''کوئی راجہ ہو کہ مہتر ''گالیائے '' گا ضرور سے کچه سطریں

غالب نے جہاں ہماری نظم و نثر کو زباں و بیاں کے نئے زاویہ عطا کئے ہیں ،وہیں ہمیں گالی دینے کا صحیح سلیقہ بهی بخش گئے ہیں ۔یعنی بہ قول مرزا اسد اللہ خاں ،بچے کو ماں کی ، جوان کو بیوی کی اور بوڑهے کو بیٹی کی گالی اشتعال دلاسکتی ہے ۔تاہم ، یہ '' غالبی فارمولا''اشتعال دلانے کے لئے کارگر ہے ۔، اگر محض دل کی بهڑاس نکالنا مقصود ہو تو گالی کا تعلق اس کے ''وصول کنندہ '' کی عمر کے بجائےُدشنام طراز کے جذبات کی شدت سے جڑ جاتا ہے ۔

گرامر کی طرح گالی کے بهی کچه قوائد و ضوابط ہیں ۔اگرچہ یہ قواعد و ضوابط بعض ممالک کے دساتیر کی طرح غیر تحریری ہیں ، مگر ان کا احترام کچه ریاستوں کے تحریری آئین کے مندرجات سے زیادہ کیا جاتا ہے ۔اس طرح کئی ملکوں میں گالی آئین سے کہیں زیادہ معتبر حیثیت رکهتی ہے ۔ جہاں تک پاکستان میں رائج قوائدِ دشنام کا تعلق ہے تو ہمارے یہاں تین قسم کی گالیاں مروج ہیں ۔ 1 ۔موٹی سی گالی ،2 ۔ چهوٹی سی گالی ، 3 ۔ جهوٹی سی گالی۔ ان گالیوں کی مزید کئی قسمیں ہیں ۔آئیے ہم ان گالیوں کا قسم وار جائزہ لیتے ہیں ۔

موٹی سی گالی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس گالی کو موٹی سی گالی اس لئے کہتے ہیں کیوں کہ یہ موٹی سی ہوتی ہے اس لئے منہ سے بہ مشکل ، ُرک ُرک کر اور پهنس پهنس کر نکلتی ہے ۔ یہ گالی غزل کی ضد ہے ،لیکن اسے ''نثری نظم ''قرار دے کر ہم نثری شاعروں سے موٹی سی گالی کهانا نہیں چاہتے ۔چناچہ یوں سمجه لیں کہ جس طرح غزل نزاکت ، نفاست ، تہزیب ، شائستگی دهیمے پن اور نرم الفاظ کا مجموعہ ہے ۔اسی طرح کرختگی ، خباثت ، بد تہزیبی ،ناشائستگی ،بلند آہنگی اور سخت الفاظ موٹی سی گالی کے عناصر ترکیبی ہیں ۔

چهوٹی سی گالی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چهوٹی سی گالی اپنے حجم مقام اور مرتبہ کے لحاظ سے موٹی سی گالی کے مقابلے میں بہت چهوٹی سی ہوتی ہے ۔جب موقع محل موٹی سی گالی بکنے کی اجازت نہ دے تو چهوٹی سی گالی سے کام چلایا جاتا ہے ۔یہ اتنی چهوٹی ہوتی ہے کہ ماہرینِ دشنام تمام تر کوششوں کے باوجود اسے قسموں میں تقسیم نہیں کر پائے اور اس ناکامی پر خود کو ایک موٹی سی گالی دے کر اپنی کوششوں سے دستبردار ہو گئے ۔

جهوٹی سی گالی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس گالی کے موجد وہ شرفاﺀ ہیں جو گالی دینے کا شوق رکهتے ہیں لیکن جرات سے محروم ہوتے ہیں ۔ ان کے منہ سے گالی یوں جهجکتی ہوئی باہر آتی ہے ، جیسے کسی شریف گهرانے کی باپردہ بہن، بیٹی دل کے ہاتهوں مجبور ہو کر ڈری ڈری سہمی سہمی اور ''جیسے کوئی گناہ کئے جا رہا ہوں میں ''کی تصویر بنی محبوب سے ملنے گهر سے نکلتی ہے ۔یوں اپنی ''مشہورِ زمانہ '' شرافت کی لاج رکهنے کی خاطر ہر گناہ سے دامن بچاتے ان شرفاﺀ کی شخصیت کی طرح ان کی گالی بهی ادهوری رہ جاتی ہے ۔
(محمد عثمان جامعی)
M Usman Jamaie
About the Author: M Usman Jamaie Read More Articles by M Usman Jamaie: 36 Articles with 26770 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.