صوبہ یا منصوبہ

لگتا ہے جیسے ہم جارج آرویل کے ناول 1984کی بہت سی ترامیم اور اضافہ شدہ کہانی کا حصہ بن گئے ہوں۔

ایک دن ہمیں بتایا جاتا ہے کہ تم مہاجر ہو۔ ابھی ہم تصور میں مہاجریت کا چوڑی دار پے جامہ چڑھانے کی تگ ودو میں ہوتے ہی ہیں کہ اگلے روز حکم جاری ہوتا ہے، تم اردو بولنے والے سندھی ہوں، اور ہمارا تصور اجرک اوڑھ لیتا ہے۔

پھر کوئی طلوع ہوتی صبح ہماری پہچان مہاجر ہوجاتی ہے، مگر ایک نیا دن اردو بولنے والے سندھی کی شناخت دے دیتا ہے۔

ہمیں پانچویں قومیت کا فلسفہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ تمھارے مطالبات کوٹا سسٹم کا خاتمہ، محصورین بنگلادیش کی واپسی وغیرہ ہیں۔

پھر اعداد کی ہیر پھیر ہوئی اور ہانچویں قومیت کا فلسفہ سرتاپا تبدیل ہو کر دو فی صد اور اٹھانوے فی صد کے نظریے میں ڈھل گیا۔ ہم نے مان لیا۔

ہم سے کہا گیا کہ سندھ ہماری دھرتی ماں ہے، جس کی تقسیم ہم نہیں چاہتے۔ ہم نے آمناوصدقنا کہا۔

پھر صدا آئی کہ "سندھ میں ہوگا کیسے گزارا، آدھا ہمارا آدھا تمھارا" ہم نے مان لیا۔

اس نعرے نے یکایک قلابازی کھائی اور دیواروں اور تقریروں سے غائب ہوگیا۔

اب سندھ دھرتی ایک بار پھر ہماری ماں تھی اور ہم سو فی صد سندھی تھے۔

ابھی ہم سندھی ٹوپی اپنے سر میں فٹ کر ہی رہے تھے کہ اچانک ہمیں مہاجر کردیا گیا اور صوبہ ہماری منزل قرار دے دی گئی۔

لہٰذا آئندہ خبریں آنے تک ہم مہاجر ہیں اور ہم اپنا صوبہ لے کر رہیں گے، لیکن اسے ہمارا آخری موقف اور نظریہ نہ سمجھا جائے عین ممکن ہے کہ نیا سویرا ہمیں پھر سندھی بناچکا ہو اور صوبہ تو کجا "بلدیاتی حقوق" پر بھی چپ سادھے بیٹھے ہوں۔

تو سائیں، ہماری پہچان، نظریہ، فلسفہ، حقوق۔۔۔سب کچھ لندن کے ہوائوں کے دوش پر آتی بس ایک تقریر کی مار ہیں۔ اس تقریر کے ساتھ کے ہی سب کچھ بدل جاتا ہے، ہماری قسمت بھی۔ "افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر" ہو یا نہ ہو، ہماری تقدیر تو بس ایک فرد کے ہاتھوں میں ہے۔
یہ ہوتی ہے وڈیرا شاہی
اسے کہتے ہیں جاگیردارانہ نظام
یہ ہے صحٰیح معنوںمیں شہشاہی
بات کرتے ہو۔

سائیں، غصہ نہ کریں، بھیا پریشان نہ ہو، کوئی صوبہ نہیں بن رہا، بس ایک منصوبہ ہے، جو عمران خان کے کراچی میں ہونے والے جلسے کی بوکھلاہٹ اور گھبراہٹ نے جنم دیا۔ بس ادھر سندھ کی حصے دار دونوں جماعتوں کا یہ خوف دور ہوا، اُدھر نیا صوبہ اور مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں کے نعرے سکون کا سانس لیں گے اور سو جائیں گے۔ اس دوران کچھ سندھی اور اردو بولنے والے جان سے گئے تو شہادت کا رتبہ پائیں گے اور دنوں تک یاد رکھے جائیں گے، یہ ہمارا وعدہ ہے۔

ایسی تحریریں خودکش حملہ یا سوسائڈ نوٹ بھی ثابت ہوسکتی ہیں، مگر کیا کریں، ہمارے دانش ور ایسے لمحات میں خوف اور مصلحت کے بلوں میں جاگھستے ہیں، سو عقل ودانش سے محروم ہم جیسوں کو زبان کھولنی پڑتی ہے۔
M Usman Jamaie
About the Author: M Usman Jamaie Read More Articles by M Usman Jamaie: 36 Articles with 26760 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.