میاں صاحب’’گو نواز گو ‘‘سننے کے عادی ہیں۔۔مگر اب ۔۔!

’’گو نواز گو ‘‘کا نعرہ 16نومبر 1992 ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی سربراہی میں نکالے گئے‘ نوازحکومت کے خلاف لانگ مارچ میں‘پہلی بار سنا گیا تھا۔جس کا آج کل بہت شہرہ ہے ۔سوال یہ ہے کہ یہ نعرہ دوبارہ عوام کی زبان پر کیوں آیا ہے ؟ اور جہاں تک سوال دھرنوں ،جلسوں اور لانگ مارچ کا ہے اگر ہم تاریخ کے اوراق کو پلٹ کر دیکھیں تو پچھلی پانچ دہائیوں میں پاکستان نے کئی سیاسی تحریکیں دیکھیں ہیں ان میں دو سب سے زیادہ مشہور ہوئیں جن میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے ایک دوسرے کے خلاف لانگ مارچ کئے تھے ۔اگر ہم مسلم لیگ (ن) کی سیاسی تاریخ کا مختصراً جائزہ لیں تو یہ حقیقت ہم پرآشکار ہوتی ہے کہ ان کے رفقاء کے غیر ذمہ دارانہ رویے کے نتیجہ میں اپوزیشن میں سے کچھ یا کسی نہ کسی نے ہمیشہ علم مخالفت اٹھایا اور اس نے حکومتی کاروبار میں پریشانیاں پیدا کر دیں ۔
16نومبر 1992ء میں نواز حکومت پر1990 ء کے انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے پہلی بار میاں صاحب کے خلاف لانگ مارچ کا اعلان کیا گیا تھا ۔ اپوزیشن لیڈر بے نظیر بھٹو کے زیر قیادت‘ قومی جمہوری اتحاد نے‘ لاہور سے لانگ مارچ شروع کیا اور ان کی والدہ بیگم نصرت بھٹو نے لاڑکانہ سے نکلنے والے لانگ مارچ کی قیادت کی۔لیکن دونوں لانگ مارچ ناکامی سے دوچار ہوئے اور محترمہ پابند سلاسل ہوئیں ۔اس وقت کے آرمی چیف جنرل آصف نوازجنجوعہ نے اس لانگ مارچ کی’’ حوصلہ افزائی ‘‘نہ کی اور نوازشریف کو اس مارچ سے نپٹنے کے لیے فری ہینڈ دے دیا ۔حکومت نے ریاستی طاقت کا استعمال کیا اس طرح اس لانگ مارچ کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ‘اس تحریک کی وجہ سے مرحوم صدر غلام اسحاق خان نواز شریف کی حکومت کو ختم کرنے پر مجبور ہو گئے تھے ۔اس وقت بھی شاید میاں صاحب کی یہ غلطی تھی وہ تمام امور اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے تھے ۔اسی لیئے صدر محترم ان سے نالاں تھے ۔اور 26مئی 1993کو نواز حکومت کو سپریم کورٹ کے احکامات پر بحال کر دیا گیا تھا ۔

مگر اگلے سال محترمہ پھر مضبوط حکمت عملی کے ساتھ لانگ مارچ کی تحریک لے کر سامنے آئیں اوراس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل عبد الوحید کاکڑ نے ان کے لیے راہ ہموار کرا دی اور یہ عہد کرا لیا کہ وہ نوے دن کے اندر انتخابات کروا کر ہی دم لیں گے ۔او راس طرح یہ لانگ مارچ بھی ختم ہو گیا ۔

1996 ء میں سردار فاروق احمد خان لغاری رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور محترمہ نے انھیں اپنی کابینہ میں وزیر خارجہ بنایا ۔1996 ء میں محترمہ اور آصف علی زرداری کے کرپشن میں ملوث ہونے کے سبب فاروق خان لغاری نے اٹھاون ٹو بی کے تحت محترمہ بے نظیر بٹھو کی حکومت کو ختم کر دیا اور ایک بار پھر 1997ء میں مسلم لیگ (ن) بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی ۔میاں نواز شریف نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ صدر کے اسمبلیاں توڑنے اور فوجی سربراہان کی تقرری کا اختیار واپس لینے کا فیصلہ کیا اور اسی مقصد کے لیے آئین میں ترمیم کی اور اس ترمیم کی منظوری کے لیے اس وقت کی حزب اختلاف کی قائد محترمہ بے نظیر بھٹونے ان کی بھر پور حمایت کی ۔یعنی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) ہمیشہ سے جہاں مخالف بڑی جماعتیں رہیں وہاں ذاتی اغراض و مقاصداور مشترکہ مفادات کا معاملہ ہ جہاں آیا اس کے لیے افہام و تفہیم کی پالیسی پر بھی عمل پیرا رہیں۔مگر درپردہ نورا کشتی کرتی رہیں ۔

1997 ء میں نواز حکومت اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے درمیان تنازعے کی وجہ سے فاروق لغاری نے 2 دسمبر 1997 ء کو صدر کے عہدے سے استعفی دے دیا ۔اور اس کے بعد نواز شریف نے رفیق تارڈ کا انتخاب کیا جو کہ یکم جنوری 1998 ء سے 20 جون 2001 ء تک پاکستان کے صدر رہے ۔میاں صاحب نے تیرویں ترمیم کے ذریعے صدر کے اختیارات تقریباًختم کر دئیے تھے اور ان کا انتخاب بھی اسی لیے کیا گیا تھا کہ وہ سپریم کورٹ کے سابق جج اور اس 7 رکنی بنچ کا حصہ تھا جس نے میاں صاحب کو دھاندلی کے الزامات سے بری کیا تھا ۔

1999 ء کو جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور ان پر طیارہ اغواہ کرنے کا مقدمہ بنا لیا اور عدالت نے سماعت کے بعد قید کی سزا سنا دی ۔میاں صاحب پابزنجیر ہوئے ،تنگ و تاریک کوٹھریوں میں ظلم و ستم برداشت کرنے کے بعد آخر کار سعودی عرب کے شاہی خاندان سے ان کا رابطہ کام آگیا اور دسمبر 2000 ء میں وہ سعودی عرب چلے گئے ۔اس کے بعد وکلاء تحریک چلی جس نے ایک بار پھر نظام پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا ۔میاں صاحب نے اس تحریک کی قیادت اپنے ہاتھ میں لی اور لانگ مارچ کا اعلان کیا اور لاہور سے اسلام آباد کی طرف مارچ شروع کیا ابھی مارچ راستے میں ہی تھا کہ تمام مطالبات مان لیے گئے ۔اور اسی تحریک سے میاں صاحب نے بعد میں 2013 ء کے الیکشن میں بھی بھرپور فائدہ اٹھایا ۔دلکش وعدوں اور بلند و بانگ نعروں کے ساتھ آصف علی زرداری کی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا اورعوام نے میاں نواز شریف کو ایک بار پھر 2013 ء میں بھاری مینڈیٹ کے ساتھ عنانِ حکومت سے سرفراز کیا جبکہ وہ الیکشن اس وقت متنازعہ ہو چکا ہے ۔

اگر میاں صاحب کے گزشتہ طرزِ حکومت کا عمیق نظری سے مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت ہم پر آشکار ہوتی ہے کہ انھوں نے ہمیشہ ذاتی مفادات کے تحفظ کے لیے اپنے عزیزوں اور قریبی دوستوں کو ہر طرح کے با مقصد اور دلکش عہدوں پر فائز کیا اور ان سے بہترین نتائج کی اندھا دھند توقعات وابسطہ کر لیں اور کبھی مڑ کر نہیں دیکھا کہ وہ کیا کر رہے ہیں ۔جس کا نتیجہ یہ نکلتا آرہا ہے کہ ان کے ووٹرز اور سپوٹرز ‘کا جب کوئی کام نہ ہوا اور وفاداری اک انعام بھی نہ ملا‘توپھر جس کو جہاں سے سہاراملا وہ وہاں نکل گیا ۔درحقیقت میاں صاحب نے صرف ایک پالیسی پر عمل کیا ’’مال بناؤ ۔۔۔وقت ٹپاؤ ۔۔۔اور خاندان کو کھلا ؤ‘‘ جس نے ہمیشہ انھیں نقصان پہنچایا مگر ان کے طرزِ سیاست اور طرزِ حکومت نہ بدلا ۔اب جبکہ ملک کا ’’سیاسی منظر نامہ ‘‘ تشویس کن صورت حال اختیار کر چکا ہے۔’’سٹریٹ شو سیاست ‘‘ اور ’’ دھرنا سیاست ‘‘ مڈ ٹرم الیکشن کا عندیہ دے رہا ہیں۔برسر پیکار پارٹیا ں عوامی طاقت سے بد امنی پھیلا کر حالات کو اس نازک موڑ پر لے آئیں گے کہ حکومت کو مجبور ہو کر سول انتظامیہ کی مدد لینا پڑے گی‘ایسے گھمبیر حالات میں میاں صاحب کے اپنے حلیفوں کے بیانات ان کی ہچکولے کھاتی سیاسی ناؤ کے لیے سوالیہ نشان ہیں ۔

مسلم لیگ (ن) کے سابق صدر غوث علی شاہ کا کہنا ہے کہ ’’جہاں چوٹ لگتی ہے ،وہاں آواز آتی ہے!یہ دھرنے اسی بات کا ثبوت ہیں کہ قانون پر عمل درآمد نہیں ہوتا اور میں تحریک انصاف کی حمایت کا اعلان کرتا ہوں میں ہرا س احتجاج کا حصہ ہوں جو ظلم کے خلاف ہو ‘‘یعنی یہ تصدیق ہو چکی ہے کہ میاں صاحب آپ سے پے در پے غلطیاں ہوئیں ہیں اور آپ حسب ِ وعدہ قوم کو صحیح معنوں میں ڈلیور نہیں کر سکے ۔مگر یوں لگتا ہے آپ نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور نہ ان ہی آپ کا طرزِ حکمرانی بدلا ہے جو کہ آپ اتنے مہنگے ہوٹل میں قیام فرمانے چل پڑے جو کہ اس غریب ملک کے منہ پر جو کشکول گلے میں ڈالے‘ ہر ایک کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے‘ اس کے منہ پر کسی طمانچے سے کم نہیں ہے ۔حیرت ہے کہ جناب وزیراعظم کو ایسے مشوروں سے نوازتا کون ہے ۔مگر اب یہ بات نوشتہ دیوار کی طرح ہے کہ اگر آپ نے موجودہ حالت میں واضح تبدیلی لانے کے لیے اپنی روش نہ بدلی اور ملکی استحکام و فلاح کے لیے بنیادی اصلاحات عملی طور پر نافذ نہ کیں تو تاریخ کے اوراق میں آپ کا نام ان سیاہ ابواب میں لکھا جائے گا جنھوں نے نشۂ اقتدار میں مست مئے پندار ہو کر اپنا سب کچھ گنوا دیا اور قوم کامستقبل بھی تاریک کر ڈالا ۔میاں صاحب سوچئیے ۔۔یوں لگتا ہے کہ جیسے زمانہ چال قیامت کی چل گیا ۔

یہ تو حقیقت ہے اس انقلاب مارچ ، آزادی مارچ اور دھرنوں کا مستقبل بھی محترمہ بے نظیر بھٹو کے 1992ء والے لانگ مارچ جیسا ہوگا او ر گو ’’گو نواز گو ‘‘ کا نعرہ آپ کے لیے نیا نہیں ہے مگر آپ کا مستقبل کیا ہوگا اگر مڈ ٹرم الیکشن ہوئے تو ؟
بھرم کھل جائے ظالم تیرے قامت کی درازی کا
اگر اس طرہ ء پر پیچ و خم کا پیچ و خم نکلے
Ruqqaya Ghazal
About the Author: Ruqqaya Ghazal Read More Articles by Ruqqaya Ghazal: 50 Articles with 34095 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.