لواں گے لواں گے کشمیر لواں گے

لو جی اپنے ہر دلعزیز سابق صدر پاکستان کے فرزند ارجمند اور بی بی بے نظیر بھٹو کے سکون قلب کو بھی پنجاب کے دورے پر تشریف لے آ ئے ،اس سے قبل انکے پنجاب کے دورے کا پروگرام سکیورٹی وجوہات کے باعث بار بار تبدیل ہوتا رہا …… سیلاب زدگان کی حالت زار نے انہیں تمام سکیورٹی چیلنجز کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ان کی خبر گیری کو مقدم جانا……میری مراد بلاول بھٹو زرداری سے ہے۔ بلاول بھٹو زرداری اپنے دورے میں چنیوٹ اور ملتان کے سیلاب زدہ علاقوں میں گئے اور پیپلز پارٹی کے کارکنوں سے بھی ملے۔ نوجوان بلاول بھٹو زرداری کیاس دورے میں بھرپور تیاری کرکے پنجاب آئے۔

پنجاب کے علاقے چنیوٹ کی فضاوں میں جب بلاول بھٹو کا ہیلی کاپٹر نمودار ہوا تو پیپلز پارٹی خصوصا بھٹو خاندان سے محبت کرنے والے عوام کے مصیبت زدہ چہروں پر خوشیاں بکھر گئیں…… فوٹنج کے مطابق غریب عوام اپنے دکھ بھول کر بی بی بے نظیر کے لخت جگر کے واری صدقے جانے لگے اور غریب اور عمررسیدہ خواتین انکی بلائیں لینے لگی……سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے انکی آنکھوں سے نیر بہتے رہے۔ لیکن انہیں اپنی فکر سے زیادہ بلاول بھٹو کی فکر دکھائی دی۔ خیر بلاول بھٹو نے اپنے پہلے دورہ پنجاب چنیوٹ کے سیلاب زدگان کی خبرگیری اور ان میں امداد اور خوراک کی تقسیم سے کیا ہے۔

میں بلاول بحٹو کے اس دورہ کو انکی ’’ منہ وکھائی‘‘ کی تقریب کہوں تو زیادہ بہتر ہوگا۔ کیوں کافی عرصے سے سکیورٹی وجوہات کی باعث انکا دورہ التواء میں جاتا رہا ،لیکن اس بار اس نے ہمت دکھائی اور ہیلی کاپٹر سے سیلاب زدگان تک بلٹ پروف گاڑی استعمال کرنے سے انکار کیا اور پیدل چل کر عوام تک گئے…… خصوصی جوتے پہنے بغیر وہ پانی میں اترے اور لوگوں میں گھل مل گئے۔ یہ مناظر دیکھ کر سید طہماسپ علی نقوی بے ساختہ کہہ اٹھا کہ ’’ یہ کیا ناں بلاول بھٹو نے صحیح کام اور فیصلہ……سید طہماسپ نقوی کا کہنا تھا کہ اسے پنجاب کے تمام سیلاب زدہ علاقوں میں جانا چاہیے اور ان سے دور ہونے والے عوام کو تاثر دینا چاہیے کہ ’‘ ہم آج بھی عوام کے ساتھ ہیں ،کل بھی تھے اور ہمیشہ عوام کے ساتھ رہ کر سیاست کریں گے‘‘

چنیوٹ کے بعد بلاول بھٹو زرداری ملتان بھی گئے اور وہاں کے سیلاب زدگان میں امدادی سامان تقسیم کرنے کے علاوہ پارٹی کارکنوں کے جذبات کو بھی گرما گئے اور اور ’’ مرسوں مرسوں پر پنجاب نہ ڈیسوں‘‘ کا نعرہ مستانہ بھی لگایا ……۹یہ بھی کہا کہ گنسوں گنسوں جنوبی پنجاب گنسوں……مرسوں مرسوں بلوچستان نہ ڈیسوں……مرسوں مرسوں خیبر پختونخواہ نہ ڈیسوں……مرسوں مرسوں پاکستان نہ ڈیسوں …… اس کے علاوہ چاروں صوبوں کی زنجیر بے نظیر بے نظیر کے نعرے بھی لگوائے اور خود بھی لگائے۔ انکا پنجاب دورہ مختصر ہونے کے باوجود پیپلز پارٹی کے مرد تن بدن میں زندگی کی ایک لہر سی دوڑ گئی ہے۔

بلاول بھٹو زرداری نے پہلی بار کشمیر لینے کا بھی نعرہ لگایا بلکہ پنجاب میں کہا ’’لواں گے لواں کشمیر پورا لواں گے‘‘ کے نعرے بھی عوام سے لگوائے، …… بلاول بھٹو نے اسوقت کشمیر کا نعرہ بلند کیا ہے جب ہماری حکومت پاکستان کاشمیر پر اس حد تک یوٹرن لے چکی ہے کہ ہم نے کاشمیر بناسپتی گھی کا کمرشل بھی بند کردیا ہے۔کشمیر بناسپتی گھی کے کمرشل میں یہ نعرہ تھا کہ’’ کشمیر پر سمجھوتہ کبھی نہیں‘‘ بھارت دوستی اور عالمی دباو میں آکر ہم نے گھی تک کے کمرشل کو بند کرنے میں عافیت جانی۔

بلاول بھٹو زرداری جب کشمیر پر بات کر رہے تھے تو انکے لہجے میں ’’فاتح جنگ ستمبر ‘‘ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی گھن گرج تھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے بلاول نہیں انکا نانا اور ماں تقریر کر رہی ہے۔ گ بلاول کے نانا ذوالفقار علی بھٹو نے بھی بھارت کے کشمیر پر غاصبانہ قبضے کو ستمبر میں للکارا تھا اور بلاول نے بھی کشمیر واپس لینے کا نعرہ ستمبر میں لگایا ہے ۔و بلاول کے کشمیر پر بولنے پر بھارت کی حکمران جماعت اور اپوزیشن دونوں سیخ پا ہیں۔اور بلاول کی تقریر کو بچگانہ باتیں قرار دیتے ہیں۔اور ساتھ ہی کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ بھی…… بھارت کے لیڈر کشمیر کے ذکر پر پاکستان کو جنگ کی دھمکیاں دینے اور پاکستان کو غرق کرنے کی باتیں کرنے لگے ہیں۔ حالانکہ بھارت خود اپنے گریبان میں جھاتی مارے تو اس کے رہنماوں کی باتیں بچگانہ نظر آئیں گی کیونکہ اقوام متحدہ میں انکے باپ نہرو لیکر گئے تھے نہ کہ پاکستان کی قیادتنے اقوام متحدہ سے رجوع کیا تھا۔اقوام متحدہ کی قراردادوں سے منحرف ہونے والے بھارتی ہیں نہ پاکستانی۔ میرا خیال ہے کہ پاکستان کی حکومت کو بھارتی عہدیداروں کے بیانات کا فوری نوٹس لینا چاہیے اور پاکستان کو جنگ کی دھمکیاں دینے پر احتجاج ریکارڈ کروانا چاہیے ویسے تو بھارتی پہلے ہی ہمارے اعصاب پر سوار ہو چکے ہیں اور ہم انکے ااگے بھیگی بلی بنے جا رہے ہیں۔

اگر بلاول بھٹو اسی طرح وقفے وقفے سے پنجاب آتے رہیں تو پیپلز پارٹی ایکبار آئندہ الیکشن میں ماضی کی طرح پنجاب میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔ جس طرح اسٹبلشمنٹ کے حلقے مسلم لیگ نواز سے نالاں ہیں اور انہیں اقتدار سے نکال باہر کرنے میں کوشاں ہیں۔ممکن ہے کہ آئندہ وہ پنجاب میں حکومت بنانے میں پیپلز پارٹی کی مدد کردیں۔ اور 1977کے بعد پیپلز پارٹی پنجاب پر قبضہ کرنے کے اپنے خواب کو تعبیر دینے میں کامیاب ہو جائیں۔
Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 144224 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.