انقلاب کھیل نہیں ہوتا

بات کا آغاز ایک معروف ادیب کے مختصر سے اقتباس سے کرتے ہیں۔ـ" ایک کرین میرے دفتر کی کھڑکی سے نظر آتی تھی۔سارا دن حرکت میں رہتی۔کرین خود تو بائیں سے دائیں اور دائیں سے بائیں گھومتی رہی۔لوہے کی تار سے بندھا ہوا کانٹا نیچے سے اوپر اور اوپر سے نیچے آتا رہتا۔ایک بار سامان سے لدا ہوا اور دوسری بار خالی۔ایک دن انقلاب آیا کرین جہاں کھڑی تھی وہیں کھڑی رہی۔پھر ایک ایک کرکے سارے شہر کی کرینیں کھڑی ہوگئیں"۔محترم مختار مسعود نے"لوح ایام ـ"میں انقلاب کے دوران تمام ترقیاتی منصوبوں کے فوری بند ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔اگرحکومت وقت کو طاقت کے ذریعے تبدیل کردیاجائے تو ان کے شروع کئے ہوئے تمام کام بھی رک جاتے ہیں۔حکومتوں اور اداروں کے دوبارہ مستحکم ہوتے ہوتے کئی سال لگتے ہیں۔پاکستان میں بھی ترقی کا جو کام ایک سال پہلے شروع ہوا ہے۔اور جس پر دن رات کام جاری ہے۔وہ طاقت کے ذریعے تبدیلی کے بعد رک جائے گا۔دوبارہ کب شروع ہوگا۔انقلاب لانے والوں کو بھی پتہ نہیں ہوتا۔جو صورت ایران میں تھی وہ صورت تو پاکستان میں ہے ہی نہیں۔یہاں تو الیکشن کے ذریعے ایک حکومت بنی ہے۔کروڑوں لوگوں نے اس حکومت کو ووٹ دیئے۔اب تک تمام سیاسی پارٹیاں ایک کے سوا،نواز شریف کو اپنا وزیراعظم تسلیم کرتی ہیں۔یہاں کوئیSavakجیسی سرکاری خفیہ تنظیم نہیں ہے۔جولوگوں کو اٹھا کر جیل میں پھینکے اور زبردست تشدد کرے۔خمینی کے مطابق شاہ کے زمانے میں60۔ہزار لوگوں کو اذیت دیکر ماردیا گیاتھا۔بے شمار لوگ انقلاب کے دوران اور بعد میں مارے گئے تھے۔بہت سے ایسے لوگ جو انقلاب کی قیادت کررہے تھے۔وہ بھی مارے گئے۔انقلاب کے بارے کہا جاتا ہے۔کہ وہ اپنے ہی بیٹوں کو نگل لیتا ہے۔انقلاب کے دوران اپنے اور پرائے کی پہچان ختم ہوجاتی ہے۔بیسویں صدی کے انقلاب کے دوران ایسا ہی ہوتا رہاہے۔روس کے انقلاب میں بھی لاکھوں لوگ مارے گئے تھے۔ان میں بہت سے انقلاب کے قائدین بھی تھے۔چین میں ماؤزے تنگ نے لاکھوں لوگوں سے لانگ مارچ شروع کیا تھا۔80%لوگ راستے کی تکلیفوں کی وجہ سے ختم ہوگئے تھے۔کئی سال کی لڑائیوں کے بعد1949ء میں ماؤ کی گرفت چین پر مکمل ہوئی تھی۔جہاں تک ایران کے انقلاب کا تعلق ہے۔وہ کئی سال سے جاری تھا۔جنوری1978 ء میں شروع ہونے والی تشدد آمیز کاروائیاں دسمبر1979ء میں آکر کچھ کم ہوئی تھیں۔پورے دوسال ترقیاتی پروگرام رکے رہے تھے۔لوگ بڑی تعداد میں بے روزگار ہوگئے تھے۔معیشت تباہ و برباد ہوگئی تھی۔اور پھر ایران کے پاس تو تیل تھا۔آمدنی کا بڑا ذریعہ۔ہم تو 80فیصد تیل درآمد کرتے ہیں۔نظر ایسا آتا ہے کہ پاکستانی انقلابی لیڈرطاہر القادری اپنے آپ کو آیت اﷲ خمینی سمجھتے ہیں۔وہ اپنے مریدوں سے یہی توقع لگائے بیٹھے ہیں۔کہ ان کے حکم دینے سے مرید پاکستان مسلم لیگ کی حکومت کا دھڑن تختہ کر دیں گے اور وہ چند دنوں بعد ہی قائد انقلاب براجمان ہوجائیں گے۔پولیس کے بارے وہ یہی کہہ رہے ہیں۔کہ جہاں بھی یہ نظر آئیں انہیں دھر لیا جائے۔ان کے گھروں میں گھس کرمارنے کی باتیں بھی وہ کرتے رہتے ہیں۔اور جو انقلاب کو ادھوراچھوڑ کر واپس آئیں۔انکے قتل کا فتویٰ بھی دیا جاچکا ہے۔وہ لگاتار جذباتی تقریروں کے ذریعے اپنے کارکنوں اور عوام کو بغاوت پر اکسا رہے ہیں۔ابھی تو یہ دیکھنے والی بات ہے کہ انہیں محاصرہ ماڈل ٹاؤن سے نکلنے کون دیتا ہے؟۔اگر یہ 15تا20ہزار لوگ نکلنے میں کامیاب بھی ہوگئے تو راستوں کی رکاوٹوں کے بعد کتنے رہ جائیں گے۔جناب طاہرالقادری نے ایک مخصوص مسلک کے لوگوں کو ساتھ ملانے کی کوشش کی ہے۔لیکن یہ لوگ طاہر القادری کے لئے گولیاں کھانے کے لئے تیارہونگے؟۔یہ بات ناممکن نظر آتی ہے۔اب تو انقلاب کی بات عمران خان نے بھی شروع کردی ہے۔انکی پارٹی کے لوگ پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں۔یہ بھی کافی منظم ہیں۔جب یہ لوگ بھی انقلاب لانے کے لئے اسلام آباد کارخ کریں گے تو "امام انقلاب"کا مسئلہ تو فوری طورپر پیدا ہوجائے گا۔ہرکوئی قیادت اپنے پاس رکھنا چاہے گا۔ہمیں انقلاب سے پہلے ہی جھگڑا بڑھتاہوا نظر آتا ہے۔عمران کے حامی پنجاب،خیبرپختونخواہ اور کراچی تک پھیلے ہوئے ہیں۔گزشتہ الیکشن میںppp کے برابر PTI نے ووٹ لیکر اپنی اہمیت ثابت بھی کردی ہے۔جناب طاہر القادری صاحب پنجاب سے باہر کہیں نظر نہیں آتے۔قدرتی طورپر قیادت عمران کی ہی بنتی ہے۔آج ہی طاہر القادری صاحب نے یہ اعلان کرنا ضروری سمجھا کہ ا نقلاب مارچ عمران خان کے آزادی مارچ کے ماتحت نہیں ہوگا۔قائدین میں اختلاف تو واضح ہوگیا ہے۔انقلاب کی کامیابی صرف اس وقت ہونے کا امکان ہوتا ہے۔جہاں قائد انقلاب صرف ایک ہو۔ایران میں خمینی،روس میں لینن اور چین میں ماؤزے تنگ انقلاب پر مکمل طورپر چھائے ہوئے تھے۔عمران خان اور طاہرالقادری ہر لحاظ سے مختلف شخصیات ہیں۔ایک نے زندگی کرکٹ میں گزاری اور دوسرے نے مذہبی کاموں میں۔ایک انتخابی اصلاحات اور ضمنی الیکشن کے لئے مارچ کر رہا ہے اور دوسرا موجودہ جمہوری نظام کو مکمل طورپر الٹنے کی بات کرتا ہے۔دونوں میں کچھ بھی مشترک نہیں ہے۔طاہرالقادری صاحب جو اپنے کو ایرانی انقلاب کے قائد کی طرح کا سمجھتے ہیں۔کیا انہوں نے ایرانی قائدین کی طرح پاکستانی لوگوں کے افکار میں تبدیلی کی ہے۔ایران میں علی شریعتی مطہری اور صادق ہدایت کے انقلابی افکارکئی سال پہلے سے وسیع پیمانے پر پھیل رہے تھے۔خمینی کی کیسٹوں نے بھی معاشرے کو تبدیل کیا تھا۔کیا طاہرالقادری کے افکار ملک کی بڑی آبادی تک پہنچے ہیں؟۔ان کے افکار یا کتابوں کو تو ملک کی5فیصد آبادی بھی نہیں جانتی۔انقلاب کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ معاشرے میں انقلابی لٹریچر اور افکار پہلے پھیلے۔لوگ ذہنی طورپر تیار ہوجائیں۔پھر انقلاب کی کال دی جاتی ہے۔اور جدوجہد بھی کئی سالوں پر مشتمل ہوتی ہے۔طاہرالقادری کے منہاج القرآن کے سکول صرف پنجاب کی حد تک ہیں۔باقی تینوں صوبوں میں کبھی سنا نہیں گیا کہ وہاں بھی کوئی ادارہ ہے۔کہ آؤ اب 14۔اگست سے انقلاب انقلاب کھیلیں۔پھرایک ایساملک جہاں ایک اسلامی آئین نافذ ہے۔بہت سی شقوں پر عمل ہورہا ہے۔کچھ پر نہیں بھی ہورہا۔سیاسی پارٹیوں کے لئے ضروری ہے۔کہ وہ پارلیمنٹ کے ذریعے باقی ماندہ شقوں پر عمل درآمد کرائیں۔انتخابات کے سسٹم میں اصلاح بھی ضروری ہے۔یہ کام بھی پارلیمنٹ نے ہی کرنا ہے۔اس کے لئے ایک کمیٹی بن بھی چکی ہے۔عمران خان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی توانائیاں پارلیمنٹ میں صرف کریں۔آزادی مارچ کرکے سڑکوں پر اپنی توانائیاں ضائع نہ کریں۔پاکستان اس وقت دہشت گردی کی جنگ لڑ رہا ہے۔فوج کے ساتھ تعاون کرنا ضروری ہے۔امیر جماعت اسلامی اپنی پوری کوشش کررہے ہیں کہ عمران خان اور حکومت کے د رمیان کوئی سمجھوتہ ہوجائے۔ان کی کوششوں کے اخلاص میں کوئی شک نہیں۔دونوں فریقوں یعنی حکومت اور عمران خان کو جناب سراج الحق کی باتیں مان کر حب الوطنی کاثبوت دینا چاہیئے۔کچھ حکومت بھی پیچھے ہٹے اور عمران خان بھی اپنے موقف میں نرمی پیدا کریں۔اس طرح قوم مشکلات سے نکل سکتی ہے۔اکیلے طاہر القادری کچھ بھی نہیں کرسکتے۔انقلاب اکثر اوقات اغوا بھی ہوجاتے ہیں۔کچھ اور ہی قوتیں ابھرتی ہیں اور انقلاب پر قابض ہوجاتی ہیں۔یہ کام شروع کرنا آسان ہے۔اس کوطے شدہ مقاصد تک محدود رکھنامشکل ہوتا ہے۔حالات قابو میں نہیں رہتے اور ملک میں انتشار اور فساد پھیل جاتا ہے۔انقلاب کوئی کھیل نہیں ہوتا۔اﷲ پاکستان کو اس فساد سے بچائے رکھے۔
Prof.Ch.Jamil
About the Author: Prof.Ch.Jamil Read More Articles by Prof.Ch.Jamil: 18 Articles with 10863 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.