شاید کہ رفتہ رفتہ لگے دلربا کے ہاتھ

پاکستان کے ایک معروف صحافی لکھتے ہیں کہ جنرل ضیاء کے حلقہ احباب میں ایک صاحب روحانی یا ماورائی علوم سے علاقہ رکھتے تھے۔جنرل صاحب کو ان کے بہی خواہوں نے بتا رکھا تھا کہ اگست ان کے لئے بھاری ہے۔جب ان صاحب کو خبر ملی کہ جنرل صاحب بہاولپور تشریف لے گئے ہیں تو انہوں نے ان سے بات کر نے کی دیوانہ وار کوشش کی کہ انہیں آنے والے خطرے سے آگاہ کر سکیں۔شومئی قسمت کہ بات نہ ہو سکی اور جنرل صاحب کا طیارہ ہوا میں پھٹ گیا۔میں حیران ہوں کہ صاحبانِ نظر کیاموت کو بھی ٹال لیتے ہیں۔میں صاحبِ نظر تو نہیں لیکن اگست آ رہا ہے۔اﷲ میاں نواز شریف کی حفاظت کرے۔انہیں جس سمت سے ممکنہ خطرہ ہے میری دعا ہے کہ وہ ظالم اب اس ملک کی کسی معصوم سی چڑیا کو بھی نقصان نہ پہنچا سکیں نواز شریف تو ہمارے ملک کے وزیر اعظم ہیں۔اگست وزیر اعظم اور ان کی حکومت پہ بھاری ہے یہ اندازہ لگانے کے لئے صاحبِ نظر ہونے کی ضرورت نہیں کہ یہ تو نوشتہ دیوار ہے۔

نواز شریف اور ان کے ساتھی خود بھی اس خطرے سے آگاہ ہیں۔وہ جانتے ہیں کہ کون کیا کر رہا ہے۔ان کی ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ گھوڑے کے منہ میں پھونک مارنے میں پہل کریں لیکن نصیب یاوری نہیں کرتا اور عین وقت پہ گھوڑے کو چھینک آ جاتی ہے اور دوائی بجائے گھوڑے کے منہ میں جانے کے خود ان کے اپنے حلق سے نیچے اتر جاتی ہے۔اب کی بار عمران خان سامنے ہیں۔شیخ رشید عمران کی پشت پہ سوار جبکہ طاہر القادری ان کی پشت پہ اورقادری صاحب کی پشت پہ گجرات کے چوہدری۔چوہدری پتے چھپانے کے ماہر ہیں کون جانے ان کی پشت پہ کون ہو اور اچانک منظرِ عام پہ آ جائے۔تحریک انصاف کے اندر کی تیاریاں بتاتی ہیں کہ مارچ ہوگا تو سہی لیکن یہ اسلام آباد میں نہیں ہوگا۔ عمران خان لاہور سے چلیں گے۔میاں صاحب جانتے ہیں کہ لاہور سے چلنے والے اکثر مارچ گوجرانوالہ تک پہنچ جائیں تو نتیجہ برآمد ہو جاتا ہے۔اس کے باوجود سادگی ملاحظہ ہو کہ صبح فوجی پریڈ ہو گی اور شام کوسولین کی پریڈ ہو گی۔کوئی پوچھے لاہور سے چلنے والا مارچ جس میں لاکھوں نہ سہی ہزاروں بندے ہوں کبھی اسی دن پنڈی پہنچا ہے۔اس کے باوجود پرویز رشید کی ساری تیاریاں اور سارا زور چودہ اگست پہ ہے۔وزیر داخلہ تو خیر لیکن پرویز رشید تو نواز شریف کے نفس ناطقہ ہیں کیا وہ بھی۔۔۔خیر اسے چھوڑئیے۔

نواز شریف صاحب تک ہماری بات کہاں پہنچے گی کہ ہم نہ تو صاحبِ نظر ہیں نہ ہی کوئی بڑے صحافی کہ جنابِ وزیر اعظم ہمارا کالم روز پڑھتے ہوں لیکن کہنے میں کیا حرج ہے کہ بقول شاعر
سنگِ حنا پہ لکھتا ہوں اپنے دل کی بات
شاید کہ رفتہ رفتہ لگے دل ربا کے ہاتھ

شنید ہے کہ انتخابی اصلاحات پہ اندر خانے کہیں نہ کہیں کوئی کچھڑی پک رہی ہے۔اس کچھڑی کو جس قدر جلد ممکن ہو چولہے سے اتارئیے اور قوم کے سامنے پیش کیجئیے ۔سوچئیے کہ انتخابی اصلاحات میں سب سے زیادہ فائدہ تو آپ ہی کی پارٹی کا ہے۔محتاط رہئیے کہ اب کی بار آنکھوں میں مٹی جھونکنے سے کام نہیں چلنے والا۔مامے چاچے سمدھی بھانجے بھتیجے کی سیاست کا دور اب نہیں رہا۔لمیٹیڈ کمپنیوں پہ پابندی لگنے کا وقت آ پہنچا۔حمزہ یا مریم اگر قابل ہیں میرٹ پہ ہیں تو ہماری سر آنکھوں پہ اسی طرح بلاول اور مونس الہی بھی۔قادری اور عمران کے بیٹے بھی لیکن یہ ہمارے حکمران ہوں اس لئے کہ یہ آٹھ فیصد اشرافیہ کا حصہ ہیں بالکل بھی نہیں۔اب اس کا وقت ختم ہو چکا۔بات لمبی ہے اور کالم کا پیٹ مختصر ۔دوسری گذارش یہ ہے کہ یکم اگست سے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کو ختم کر دیں بھلے اس کے لئے آپ کو اپنی جدہ کی سٹیل مل ہی کیوں نہ بیچنی پڑے۔یہ عمل بھی آپ کی مشکلات میں کمی کرے گا۔بجلی ہو گی تو روزگار ہوگا۔ روزگار ہوگا تو لوگوں کے چہروں پہ خوشی آئے گی۔ گرمی سے جھلسے ہوئے لوگ ،لوڈ شیڈنگ کے ستائے ہوئے لوگ،بجلی نہ ہونے کی وجہ سے بے روزگار لوگ جب سارا دن اپنی دوکانوں سے خالی ہاتھ اٹھ کے گھر جاتے ہیں اور ان کے بچے حسرت بھری نظروں سے ان کے خالی ہاتھوں کو دیکھتے ہیں تو میاں صاحب آپ نہیں جانتے کہ بندے کے دل پہ کیا گذرتی ہے کہ آپ کی اولاد تو منہ میں سونے کا نوالہ لے کے پیدا ہوئی ہے۔آپ اور آپ کی اولاداس حسرت اور یاس بے بسی اور بے کسی کا اندازہ ہی نہیں کر سکتے۔

گھوڑے کے منہ میں دوائی ڈالنے سے پہلے کوشش کریں کہ کوئی آپ کے اور آپ کے مخالفین کے درمیان صلح کروا دے۔کچھ لو اور کچھ دو کے تحت زرداری کی کرپٹ ترین حکومت نے بھی پانچ سال پورے کر لئے تھے تو آپ کی حکومت کیوں نہیں کر سکتی۔اس لئے کہ آپ میں برداشت کم ہے آپ حکمران کم اور تاجر زیادہ ہیں۔تاجر دوسرے تاجر کو ہمیشہ نیچا دکھانا چاہتا ہے حکومت لیکن کاروبار کی طرح چلتی نہیں۔اشرافیہ کو نہیں عوام کو شرکت اقتدار کا موقع دیں۔بھائی بندوں کے حوالے کرنے سے کیا یہ بہتر نہیں کہ حقدار کو اس کا حق دے دیا جائے۔اب جو بھی آئے گا اسے عوام کو شریکِ اقتدار کرنا پڑے گا۔اگر یہ نیک کام آپ کے ہاتھ سے ہو تو تاریخ میں آپ کا نام سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔دل پہ ہاتھ رکھ کے خود ہی بتائیے کہ آپ کے اس بدبودار انتخابی نظام میں بیس کروڑ عوام کا کوئی حقیقی نمائندہ جس نے کبھی بھوک دیکھی ہو،جو کبھی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے ساری رات سو نہ سکا ہو۔جس کی بیوی کے پھٹے کپڑوں سے جھانکتا بدن سارا دن اسے اذیت میں مبتلا رکھتا ہو،کیا ایساشخص کبھی برسر اقتدار آسکتا ہے۔

اربوں روپے ہڑپ کرنے والے،جن کے مور کتے اور ریچھ ائرکنڈیشنز میں رہتے ہو،جن کی بلیاں امریکہ سے منگوایا کیٹ فوڈ کھاتی ہوں،جن کے بچے بلٹ پروف گاڑیوں میں سفر کرتے ہوں کیسے ان کے نمائندے ہو سکتے ہیں جن کے بچے بھوک سے بلکتے ہوں۔جنہیں گرمی بھی ستائے اور مچھر بھی۔حضور یہ تو بتائیے کہ ڈینگی سے شیدا میدا اور گاما ہی کیوں مرتے ہیں؟دل کی جعلی دوائیوں سے آج تک کوئی میاں چوہدری قادری اور زرداری کیوں نہیں مرا؟اس لئے جناب کہ جناب نہ ہماری دوائیاں سانجھی ہیں نہ مچھر۔باتیں تلخ ضرور ہیں لیکن آپ کے بھلے کی ہیں۔اس وقت سے ضرور ڈریں جب عدالتیں گلی گلی لگ جائیں اور ہاتھوں کی نرمی دیکھ کے گلے گلوٹین میں رکھے جائیں۔اور ہاں چودہ اگست سے پہلے ہی اگر ممکن ہو تو اپنی منجی کے نیچے بھی ڈانگ پھیریں بہت سے غبی کام چور اور سیاہ کار وہاں سے بھی ممکن ہے برآمد ہوں۔اﷲ اس ملک کی اور آپ کی حفاظت کرے کہ غریب تو اپنے دشمن کا بھی برا نہیں چاہتا۔قذافی صدام اور حسنی مبارک کا پیسہ انہیں نہیں بچا سکا تو کیا پاکستان کے حکمرانوں اور سیاستدانوں کا پیسہ انہیں بچا پائے گا۔

Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 269570 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More