بدعنوانی اور جعلی نوٹوں کے مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لئے ضروری ہے کہ نوٹوں کو چھوٹا کیا جائے

بدعنوانی اور جعلی نوٹوں کے مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لئے ضروری ہے کہ نوٹوں کو چھوٹا کیا جائے
ہمارے ملک کا تقریبا ہرسماجی ومعاشی نقشہ ایک کلاسیکل تضاد پیش کرتاہے ۔ایک طرف توجہاں ہمارے ملک کی 70 فیصد آبادی روزانہ دوامریکی ڈالر کمانے کی جدوجہد کر تی ہے۔ وہیں آج ہمارے پاس 500 روپے کے3500 ملین نوٹ ہیں اور100 روپے کی کرنسی کے 1000ملین نوٹ معاشی مارکیٹ میں موجود ہیں !آربی آئی کی ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ مارچ 2010 میںجوٹوٹل کرنسی مارکیٹ میں تھی اس میں 500 اور 1000 کے نوٹ76.5 فیصدتھے یعنی ایک سال کے اندر اس میں.5 69 فیصد کا اضافہ ہوا ہے ۔ یہ اپنے آپ میں ایک انوکھی بات ہے۔

بات صرف بڑے نوٹوں کی نہیں جومارکیٹ میں چل رہے ہیںبلکہ اس سے زیاد ہ ان سے معاملت کی ہے۔بلاشبہ یہ نوٹ بڑی قیمت کے کیش کے تبادلہ میںزیادہ تراستعمال کیے جاتے ہیں۔ لاکھوں غریب ہندوستانی جو مشکل سے اپنی روزمرہ کی ضروریات پوری کرتے ہیںان کو کم ہی استعمال کرتے ہیں۔

ہائی کرنسی کے نوٹ مثلا500 کے یا1000 کے نوٹ کرپشن بڑھانے کا ایک اہم سبب ہیں! کالے دھن کے بڑے حصہ کی معاملت اورلانڈرنگ ان ہائی کرنسی نوٹوںکے ذریعہ ہی ہوتی ہے۔ ےہی نوٹ متوازی اکانومی کی ریڑھ کی ہڈی ہیں ۔ کیونکہ وہ نسبتاً کم قیمت کے حا مل ہوتے ہیں۔سادہ لفظوںمیں اگر کہا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ 10کروڑروپوںکو100 روپے اور50 روپے کے نوٹوں میں لیاجائے تواس کا خرچ بڑھ جائے گا بمقابل اس کے کہ اگران کو 1000 یا500 کے نوٹوں میں لیاجائے ۔

مزیدبرآں چونکہ زیادہ اونچے درجہ کے معاملات پلاسٹک منی یعنی کریڈٹ کارڈ اورڈیبٹ کارڈ اوروائرٹرانسفر سے چلتے ہیں اس لیے ہائی کرنسی کا استعمال زیادہ تر نقدمعاملات تک ہی محدودہے جوعموما ٹیکسوں سے بچنے اورقانونی طریقوںکو بائی پاس کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ ہرچیز یعنی خدمات پر پریمیم کی ادائیگی سے لیکربے نامی پراپرٹی خریدنے اورناجائز طریقوں سے کیش ٹرانسفرکرنے کے لیے اس میں وہ رقم استعمال کی جاتی ہے جو بڑے نوٹوں پر مشتمل ہو۔ یہ توسوچنابھی بے وقوفی ہوگی کہ کالے دھن کو چھوٹے نوٹوں میں رکھاجائے ۔ مثال کے طورپر چھوٹے نوٹوں کی صورت میں منی لانڈرریاحوالہ سے بھیجنے والا 50 کلوگرام کے بیگ میں ایک ملین پاﺅنڈ اٹھا کر جائے گا جبکہ اگرپانسوکے یوروکے نوٹ استعمال کرے گاتو اس رقم کا وزن دوکلوگرام سے زیادہ نہ ہو گا۔ یہ بھی دلیل دی جاتی ہے کہ ہائی کرنسی نوٹ نکالنے سے کالے دھن پر روک لگ سکتی ہے!ترقی یافتہ قومیں جیسے امریکہ اورانگلینڈ جوکبھی 10000 تک کے پرنٹ کرنسی نوٹوں کو استعمال کرتے تھے اب سب سے بڑانوٹ صرف 100 کارکھتے ہیں۔آخری بارامریکہ میں 1945میں یہ بڑے نوٹ چھاپے گئے تھے ۔جبکہ برطانیہ میں موجودہ وقت میں مارکیٹ میں سب سے بڑاجونوٹ چل رہاہے وہ 50 پونڈکا ہے۔

برطانیہ نے یہ قدم اس لیے اٹھایاکہ نقلی کرنسی اوردوسرے ناجائز کاموں جیسے منشیات اورمنی لانڈرنگ پرپابندی لگائی جاسکے! تاہم لگتاہے کہ تمام ظاہریا خفیہ اسباب کے باعث ہمارے پالیسی ساز اس سے قائل نہیں ہوسکے۔ !حقیقت یہ ہے کہ انڈیاالٹی سمت میں رکارڈ بنارہاہے۔ گزشتہ دہائی میں500روپے کے نوٹ چھاپنے کو سترہ گناکردیاگیاہے ۔دیہی علاقوںمیں 500 کانوٹ بہت کم ملتاہے اور1000 کانوٹ توملتاہی نہیں۔ یہاں تک کہ آج بھی یہ علاقے چھوٹے نوٹوںمیں ہی کاروبارکرتے ہیں بلکہ سکوں میں کرتے ہیں جوحادثاتی طورپر کم ملتے ہیں۔بڑے نوٹ بڑی رقموں کوکھینچتے ہیںاوران کے ذریعہ ہی معیشت میں نقلی کرنسی چلائی جاتی ہے۔ مرکزی وزارت مال کے تحت 2010-11 میں مرتب کی گئی فائنانس انٹیلی جنس یونٹ ( FIU ) کی ایک رپورٹ کے مطابق انڈیاکے فائنانشل چینلوںنے رکارڈ کیاہے کہ جعلی کرنسی کے معاملوںمیں 400 فیصداضافہ ہواہے۔ ایف آئی یونے مزیدبتایاکہ ان جعلی کرنسیوںمیں زیادہ تر500 کے نوٹ تھے جوکل رقم کا 60.74 فیصد تھے۔

1000 روپے کے جعلی نوٹ بھی تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ جون 2011 میں ڈائرکٹوریٹ آف ریونیو انٹیلی جنس نے جعلی نوٹوں کو پکڑاجو1.54 کروڑکی مالیت کے تھے اور500 کے نوٹوں پرمشتمل تھے۔ رااورسی بی آئی کے قرطاس ابیض کے مطابق 1000 روپے کے چارنوٹوںمیں سے ایک نوٹ جعلی ہے۔ بڑی کرنسی منی لانڈرنگ کو آسان بنادیتی ہے کیونکہ پیدا کردہ کیش ملک سے باہر نکل جاتاہے اورFIIکے ذریعہ مختلف ٹیکس کے ٹھکانوںسے واپس لایاجاتاہے ۔

ایک ایسا ملک جہاں غریبوں کی کثرت ہے اورچندہی مالدارہیں ، کے لیے یہ مناسب نہیںکہ وہ بڑے نوٹ رکھے ۔ نہ صرف یہ ہمیں سارے بڑے نوٹ واپس لے لینے چاہےں بلکہ اعلی سطی تجارتی معاملات کے لیے الیکٹرانک ذرائع کو ترقی دینی چاہئے ۔ جب تک ہم ایسا نہیں کرتے تب تک بدعنوانی اور جعل سازی پر قابو نہیں پا یا جا سکتا ۔ جعل سازی اور بدعنوانی کے خاتمہ کے لئے ضروری ہے کہ ہماری حکومت ہوش کے ناخن لے اور جتنی جلد ممکن ہو بڑے نوٹوں پر پابندی عائد کرے ،جیسا کہ یوروپی ممالک پہلے ہی کر چکے ہیں۔ ہمیں ان سے سیکھنا چاہئے کہ کس طرح انھوں نے نوٹوں کو چھوٹا کر کے اپنے نقصان کو بڑی حد تک گھٹا لیا ہے۔جعلی نوٹوں کا مسئلہ ایک بہت بڑا اور بہت سنگین مسئلہ ہے۔ اس مسئلہ کا بھی حل صرف ایک ہے وہ یہ کہ نوٹوں کو چھوٹا کر دیا جائے تاکہ جو لوگ جعلی نوٹوں کا کاروبار کرتے ہیں ،انھیں اس سے کوئی فائدہ نہ ہو۔
ABDUL SAMI KHAN SAMI
About the Author: ABDUL SAMI KHAN SAMI Read More Articles by ABDUL SAMI KHAN SAMI: 99 Articles with 106073 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.