ملک کی اقتصادی حالت ایسی نہیں کہ بڑے پیمانے پر کرپشن کی جاسکے

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی سالانہ رپورٹ 2012 کے مطابق پاکستان میں ہر سال کرپشن میں ریکارڈ اضافہ ہورہا ہے، پچھلے پانچ برسوں کے دوران 12ہزار 600 ارب روپے کی کرپشن کی گئی جو ایک ریکارڈ ہے۔ یہ رقم سالانہ 2520 ارب روپے اور یومیہ تقریباً 7 ارب روپے بنتی ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق بدعنوانی کے حوالے سے پاکستان 47 نمبر سے 33 نمبرپر آ گیا ہے۔ اسی طرح سے 28نومبر2012 کو ورلڈ جسٹس پراجیکٹ کی سالانہ رپورٹ میں پاکستان کو 97 بدعنوان ممالک کی فہرست میں ساتواں بدعنوان ترین ملک قرار دیا گیا تھا۔ دو عالمی اداروں کی طرف سے پاکستان میں کرپشن میں ریکارڈ اضافہ کی یہ رپورٹیں اس حکومت کی بدعنوانیوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ بد قسمتی سے پاکستان کرپشن سے کبھی بھی پاک نہیں رہا، مگر ایسا بھی نہ تھا جیسا کہ آج ہے۔ آج آپ کسی بھی ادارئے کو دیکھ لیں ، پی آئی اے، اسٹیل مل اور ریلوئے کا حال تو سب جانتے ہیں مگر اس کے علاوہ وہ کونسا محکمہ ہے جو کرپشن سے پاک ہے۔ عوامی نمائندوں، اہم مناصب پر فائز افراد کی جائدادوں، ذرائع آمدنی کو دیکھ لیں اور پھر انکے ٹیکسوں کے گوشوارے دیکھ لیں ایسا لگتا ہے کہ ان سے زیادہ پاکستان میں کوئی غریب نہیں۔ حال ہی میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے 200ارکان قومی اسمبلی اور60سنیٹرز کو ٹیکس نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو 5لاکھ روپے سے زائد آمدن کے باوجود مالی سال 2012کے دوران ٹیکس ریٹرن جمع کرانے میں ناکام رہے۔ قومی اسمبلی کے ٹیکس ریٹرن جمع کرانے والے 126اراکین میں سے صرف 15نے 10لاکھ سے زائد ٹیکس ادا کیا جبکہ 68نے دس لاکھ سے بھی کم رقم جمع کرائی۔ بینکوں سے قرض لے کر معاف کرانے والوں کی اس ملک میں کمی نہیں، سرکاری کاموں کے ٹھیکے اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کو دینا اس حکومت کا اولین کام رہا ہے، حکومت کا وزیر ہو یا وزیراعظم وہ تو لوٹ ہی رہا ہوتا ہے ساتھ ساتھ اسکا پورا خاندان اس لوٹ مار میں شامل ہوجاتا ہے، سابق وزیراعظم گیلانی اوران کا خاندان ایک مثال ہیں۔ جب صدر، وزیاعظم، وزرا ہی کرپٹ ہونگے تو ذاتی سرکاری اداروں کے ملازمین بھی کرپشن میں اپنا اپنا حصہ وصول کرتے ہیں ۔ جب ملک میں کرپشن کا راج ہوتو پھر صنعتی و کاروباری اداروں کے لئے کام کرنا مشکل ہوتاہے، یہ ہی وجہ ہے کہ ملکی صنعت کار دیگر ممالک کا رخ کررہے ہیں، غیرملکی سرمایہ کاری جو پاکستان جیسے ملک کی معیشت کو ترقی دینے میں آکسیجن کا کام کرتی ہے نہ ہونے کے برابرہے، دہشت گردی اور لاقانونیت بھی کرپشن کی ہی پیداوار ہیں ۔ جن ممالک میں احتساب کا نظام مضبوط ہے ان ممالک میں یاتو کرپشن ہے ہی نہیں یا پھر بہت کم لیکن جن ممالک میں احتساب کا نظام کمزور ہو یا احتساب کرنے والے خود کرپشن میں ملوث ہوں وہاں کرپشن کو خوب مواقع ملتے ہیں جیسا کہ پاکستان میں عام دیکھا جاسکتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارا عدالتی نظام ناکارہ ہے اور ہماری ماتحت عدالتوں میں بھی کرپشن عام ہے۔ موجودہ حکومت نے تو کرپشن کی ایک اور مثال یہ قایم کی ہے کہ ہر اس فیصلے کو ردکیا ہے جو اس کے خلاف اور خاصکر اسکے کرپشن کے خلاف اعلی عدلیہ نے دیا ۔

حالیہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں نیب اور ٹرانسپرنسی کی جانب سے 6 سے 7 ارب روپے کی یومیہ کرپشن کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے وفاقی کابینہ نےوزیراعظم سے مطالبہ کیا ہے کہ چیئرمین نیب سے اس حوالے سے وضاحت طلب کی جائے۔ وزیراعظم نے معاملے کی تحقیقات کیلئے چار رکنی وزارتی کمیٹی قائم کردی جو نیب اور ٹرانسپرنسی رپورٹ کا جائزہ لے کر وزیراعظم کو آگاہ کریگی۔ اجلاس کے دوران اربوں روپے کی کرپشن کے الزام سے متعلق رپورٹ پر وفاقی وزراء کا کہنا تھا ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل رپورٹ پاکستان کو بدنام کرنیکی سازش ہے پتہ لگایا جائے کہ یہ کس کے ایجنڈے پر کام کر رہی ہے، ملک کی اقتصادی حالت ہر گز ایسی نہیں کہ اتنے بڑے پیمانے پر کرپشن کی جاسکے۔

چیئرمین نیب کے مطابق "ملک میں کرپشن کا حجم بڑھ گیا، دس بارہ ارب کی یومیہ کرپشن ہو رہی ہے اور اگر ٹیکس چوری، سرکاری وسائل کے ضیاع اور بیکنگ شعبے سمیت دیگر اداروں میں بدعنوانیوں کو شامل کر لیا جائے تو یہ بھی یومیہ 15 ارب روپے سے زیادہ کی کرپشن بنتی ہے، بڑے ٹھیکوں میں کک بیکس، ٹیکسوں میں ہیرا پھیری، اختیارات کے ناجائز استعمال، میگا منصوبوں میں تاخیر اور دیگر ذرائع سے بدعنوانیوں کا گراف بڑھ گیا۔ پبلک سیکٹر اداروں میں بھی سالانہ تین سے ساڑھے تین سو ارب روپے بدعنوانیوں کی نذر ہو رہے ہیں۔ نیب نے میگا منصوبوں میں 350 ارب روپے کی کرپشن کا تخمینہ لگایا ہے اس طرح سالانہ قومی دولت کے چار سے 5 ہزار ارب روپے کرپشن کی نذر ہو جاتے ہیں اس طرح دس سے 12 ارب روپے کی یومیہ کرپشن ہو رہی ہے جبکہ زرعی، ریونیو، قبضہ مافیا، بینک قرضے ہڑپ کرنے، ٹیکسوں کی چوری، کسٹمز ڈیوٹی کے ہیر پھیر، لوڈشیڈنگ کے نقصانات، اختیارات کے ناجائز استعمال سے سرکاری وسائل کے ضیاع اور بیکنگ سیکٹر میں بدعنوانیاں ہمارے کرپشن جائزہ میں شامل نہیں اگر یہ بھی شامل کر لی جائیں تو بات چھ سات ارب کی نہیں یہ بھی یومیہ 15 ارب روپے سے زیادہ تک جا پہنچی ہے۔ کرپشن کا حجم روز بروز بڑھ رہا ہے اور یوں لگتا ہے کہ ملک کا انتظامی ڈھانچہ تباہی اور زوال کی آخری حدوں کو چھونے لگا ہے یہ نظام کی خرابیاں ہیں جس سے بدعنوانیاں بڑھ رہی ہیں اور سرکاری وسائل کا صحیح استعمال نہیں ہو رہا۔ بینکنگ شعبے میں 650 ارب کی کرپشن معمولی بات نہیں اور یہ سب اعداد و شمار ہمارے جائزہ میں شامل نہیں کرپشن کے ہولناک اعداد و شمار ہم سب کیلئے لمحہ فکریہ ہیں" ۔

چار رکنی وزارتی کمیٹی جو خود کرپشن کا مجموعہ ہے نیب اور ٹرانسپرنسی رپورٹ کا جائزہ لے کر اُس وزیراعظم کو آگاہ کریگی جو خود کرپٹ ہے ۔ جس ملک کے صنعت کار دوسرئے ممالک کا رخ کریں، غیرملکی سرمایہ کاری رک جائے، جہاں اعلی عدلیہ کے فیصلوں کو رد کیا جائے اور ماتحت عدالتوں میں کرپشن عام ہو، دہشت گردی اور لاقانونیت کا راج ہو۔ جہاں صدرکو بدعنوان کہا جاتا ہو، وزیراعظم پہلے سے ہی بجلی چور کا خطاب یافتہ ہو،ہروزیر مشیرکرپشن کی گندگی میں دھنسا ہوا ہو،اس ملک کی اقتصادی حالت لازمی خراب ہوگی۔ ملک کی اس حالت کی ذمیدار موجودہ حکومت کی وفاقی کابینہ کا یہ شکوہ کہ ملک کی اقتصادی حالت ایسی نہیں کہ بڑے پیمانے پر کرپشن کی جاسکے سوائے اپنے منہ پر کالک ملنے کے سوا کیا ہوسکتاہے۔
ABDUL SAMI KHAN SAMI
About the Author: ABDUL SAMI KHAN SAMI Read More Articles by ABDUL SAMI KHAN SAMI: 99 Articles with 106102 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.