کیا کوئی افغانوں سے لڑ سکتا ہے؟

خیبرپختونخواہ کی پٹھان آبادی کے ساتھ افغانستان کی پٹھان آبادی کے صدیوں سے خونی رشتے اور رشتہ داریاں ہیں جیسے آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے کشمیریوں کی ایک دوسرے سے صدیوں سے خونی رشتے اور رشتہ داریاں ہیں سخت سردیوں میں کوہ سفید سے یہ لوگ پاکستان کے میدانوں میں اپنے مال موشیوں کے ساتھ صدیوں سے آتے رہے ہیں ان لوگوں کو مقامی زبان میں پاوئندے کہتے ہیں جیسے ہی موسم کی شدت کم ہوتی ہے یہ لوگ واپس کوہ سفید کی طرف افغانستان چلے جاتے ہیں اس طرح یہ ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک رہتے ہیں لہٰذا طالبان چاہے پاکستانی ہوں یا افغانی اصل میں یہ ایک ہی ہیں پورے پاکستان میں آباد ہیں کاروبار بھی کر رہے ہیں۔جہاں تک افغانستان کاتعلق ہے سترویں صدی میں جب برطانیہ نے ہندوستان میں اپنے پنجے جمانے شروع کیے اوراپنی حکومت مستحکم کر لی تواس کے بعداس نے افغانستان پراقتدار قائم کرنے کی کوشش شروع کی انگریزوں نے سرخ انقلاب کو دریائے آمو تک محدود رکھنے کی غرض سے افغانستان پر ۱۸۳۸ ء میں اپنے جنوبی پنجاب اور بمبئی کے مرکزوں سے حملہ کیا اور شاہ شجاع کو تخت پر بٹھایا۔ اس کے بعد افغان قبائل نے انگریزوں پر حملے شروع کیے کابل میں انگریز ایجنٹ سر الیک زنڈر برنیس کو قتل کر کے ٹکرے ٹکرے کر دیا ۔ اسی دوران دوست محمد خاں کا فرزند ، اکبر خاں اپنی جمعیت کے ساتھ انگریزوں پر حملہ آور ہونے کے لیے افغان قبائل کے ساتھ آ ملا اور انگر یزوں سے کہا شاہ شجاع کود ست بردار کریں، انگریز سپاہ ملک خالی کریں اس وقت سیاسی اقتدار انگریز سفیر میک ناٹن کے ہاتھ میں تھا اکبر خان نے اسے طلب کیا اس نے اکبر خان سے بدتہذیبی سے بات کی اس پر اسے فوراً گولی سے اُڑا دیا گیا تمام توپیں اور گولہ بارود اکبر خان نے قبضے میں لے لیں باقا عدہ فوج جو پانچ ہزار اور لشکری گیارہ ہزارتھے ۱۸۴۲ ء کو پشاور کی طرف روانہ ہوئے ان فوجیوں کو کابل کے تنگ درے میں غلزئی قبائل نے گھیر لیا اور ختم کر دیا کیوں کہ اس قبیلے پر انگریزوں نے بہت ظلم کیا تھا مشہور ہے کہ پورے لشکر میں سے صرف ایک فرنگی ڈاکڑ واپس پشاورآیا۔محسوس ہوتا ہے کہ خاموشی سے انگریزوں نے اپنی فوجیوں سے کہا ہو گا کہ ہم ان لوگوں سے نہیں لڑ سکتے۔ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ترکوں کے زوال کے دنوں میں تقریباً ۳۵۰ سال سے روس کی زار حکومت اور اس کے بعد اشتراکی روس کی حکومت نے ترک مسلمانوں سے وسط ایشیا کے علا قوں پر علاقے فتح کیے ۔ ایک طرف سنکیانک تک کے علاقے اور دوسری طرف افغانستان کی سرحد دریائے آمو تک کے علاقے چھین لیے۔ روسی حکومت کے بانی حکمران ایڈورڈ نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ دنیا میں وہ قوم حکمرانی کرے گی جس کے قبضے میں خلیج کا علاقہ ہو گا ۔اس پلائنگ کے تحت روس نے ا فغانستان میں ظاہر شاہ کے دورحکومت کے دوران کام کرنا شروع کر دیا تھا ایک وقت آیا کہ کابل یونیورسٹی میں اشتراکیوں کا قبضہ ہو گیا اور سارے افغانستان کو روشن خیال معاشرے میں تبدیل کرنے کے ایجنڈے پر کام شروع کر دیا گیا۔کچھ مدت بعد داؤد نے روس کے کہنے پر ظاہر شاہ کو معزول کر کے افغانستان کی حکومت پر قبضہ کر لیا اور ذلفقار علی بٹھو کی حکومت کے دوران پاکستان کا دورہ بھی کیا تھا۔یہ چیز روس کو پسند نہ آئی اور آ خر کار روس نے داؤد کو قتل کروا کر اسی بہانے ببرک کارمل روسی ایجنٹ کو روسی ٹنکوں پر سوار ہو کر کے افغانستان پر قبضہ کر لیا۔ افغانوں نے دنیا کی سب سے بڑی مشین، جس کے پاس ایٹمی ہتھیار کے علاوہ ہر قسم کے جنگی ہتھیار تھے کا مقابلہ درے کی بندوقوں سے شروع کیا۔ روس جو اپنے بانی لیڈر کا خواب کہ جو قوم خلیج پر قابض ہو گی وہ دنیا پر حکومت کرے گی افغانستان کے راستے سے خلیج پر قبضے کرنے کے لیے افغانستان پر حملہ آور ہوا تھا۔ اس وقت دنیا دو بلاکوں کے اندر تقسیم تھی اس لیے روس مخالف بلاک امریکہ نے بھی اس جنگ میں اشتراکیوں کو شکت سے دو چار کرنے کے لیے جنگ میں تین سال بعد شرکت کی۔ یہ جنگ افغانیوں نے خود لڑی لاکھوں شہد ہوئے ،لا کھوں اپاہج؍معذور ہوئے، لاکھوں نے پڑوسی ملکوں اور دنیا میں مہاجرت کی زندگی اختیار کی اور بلا آ خر روس کو شکت ہوئی اور چھ اسلامی ریاستیں اور مشرقی یورپ کی ریاستیں آزاد ہوئیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ افغان کبھی بھی محکوم نہیں رہے کیونکہ کہسار باقی․․․ افغان باقی ۔ شکست کے بعدکیا روسیوں نے اپنی فوج سے نہیں کہا ہو گا کہ ہم ان سے نہیں لڑ سکتے۔ایک بار پھر دنیا کے چالیس سے زائد صلیبی ملکوں کے نیٹو اتحادی ،امریکہ اور پاکستانی لاجسٹک سپورٹ کے ساتھ عرصہ ۱۳ سال سے افغانستان پر حملہ آور ہوئے پھر ظلم کی داستان شروع ہو گئی ہے بلگرام اور گوانتا موبے جیل کے قید ی ان ظالموں کی داستا نیں سنا رہے ہیں۔پاکستان کے سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے ایک فون کال پر ان کے سارے مطا لبات مان لیے جبکہ امریکی خود اپنی کتابوں میں لکھ رہیں کہ ہم تو سمجھ رہے تھے تین چار مطالبات مانے جائیں گے مگر پاکستانی کمانڈو جنرل نے سارے کے سارے مطالبات مان لیے۔ امریکہ نے تمام افغانستان کو نیست ونابود کر دیا ہے۔ مگر اب ا مریکہ افغانستان سے فرار کے راستے تلاش کر رہا ہے اور اب امریکہ اپنی جنگ کو پاکستان میں لے آیا ہے ہمارے ملک کا۱۰۵؍ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے ہمارے ۹ جرنل اور ہزاروں فوجی شہید ہو چکے ہیں، ہمارے پچاس ساٹھ ہزار سے زائد شہری شہید ہو چکے ہیں ڈرون حملوں کی وجہ سے خود کش بمبار تیار ہوئے جو خودکش حملے کر رہے ہیں۔ نیٹو کنٹینرز کی وجہ سے ہماری سڑکیں تباہ ہو رہی ہیں،غیر ملکی جاسوس ہمارے ملک میں انسانیت دشمن کاروائیاں کر رہے ہیں، بلیک واٹر دہشت گرد تنظیم ملک دشمن کاروائیاں کر رہی ہے، ہمارے جنرل ہیڈ کواٹر، نیوی، ایئر فورس، ایئر پورٹس، پولیس ، خفیہ کے ہیڈ کواٹر، مساجد،امام بارگاہیں، چرچ، بزرگوں کے مزار، ہمارے بازار، کرکٹ میچ کے مہمان،ہمارے سیاسی لیڈر اور ان کے بچے، ہمارے مذہبی رہنما،ہماری بچیوں کے اسکول، کیاکچھ ہے جو تباہ نہ ہو گیا ہو؟ اس پر بھی صلیبی ؍امریکہ خوش نہیں ہے ڈو مور، ڈومور کی رٹ لگا تے رہتے ہیں شمالی وزیرستان میں کاروائی کرنے پر زور دیتے رہے ہیں۔ ایسا کرنے سے پہلے سے تباہ شدہ ملک میں مذید تباہی پھیلے گی۔ امریکہ خود تو شکست کھا چکا ہے طالبان سے معاہدہ کر کے اپنے ایک فوجی کا ۵طالبان قیدیوں سے تبادلہ بھی کروا چکا ہے مگر ہمیں اپنے ہی عوام سے جنگ کرنے کا کہتا ہے ۔کیا جٹ طیاروں کی بمباری اور خود کش حملوں سے مسئلہ حل ہو سکتا ہے؟ نہیں قطاً نہیں! صرف مذاکرات سے مسئلہ حل ہو سکتا ہے ۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ فاقہ مست قوم ہے جو روٹی کے سوکے ٹکرے کھا کر لڑنے والے ہیں پینتیس۳۵ سال سے حالت جنگ میں ہے ۱۳ سال سے ۴۰ سے زائد صلیبی ملکوں کی فوجوں سے مقابلہ کر رہے ہیں مگر پھر بھی زندہ ہیں۔ جس قوم سے برطانیہ، جس کا سورج غروب نہیں ہوتا تھا شکست کھا چکا۔ جس قوم سے روس، جس کی فوجیں جس ملک میں داخل ہوتیں واپس نہیں نکلتی تھیں شکست کھا چکا۔ جس قوم سے اب دنیا کی سپر پاور امریکہ شکست کھا چکا ہے تو یاد رکھیں کیا کوئی ان سے لڑ سکتا ہے۔اب چند دن پہلے کراچی ایئر پورٹ پر حملہ ہوا جس میں بھارتی اسلحہ استعمال کیا گیابھارت تو پہلے سے ہی پاکستان دشمن طالبان کے گروپس کو ٹرینگ دیتا رہا افغانستان میں امریکی اور بھارت کی مدد سے پاکستان مخالف حکومت قائم ہے۔امریکہ کے وزیر دفاع نے کہا تھا کہ پاکستان میں کاروئیاں بلیک واٹر کرے گی اور ذمہ واری طالبان کا ایک مخصوص گروہ قبول کر لے گا۔کیا معلوم ہمارے کس دشمن نے یہ کاروائی کی ہے۔ان اُلجے ہوئے حالات کو ہم نے ہی درست کرنا ہے طالبان کے ۶۰ سے زائد گروپ کام کر رہے ہیں کئی گروپوں کو ہمارے دشمن بھارت اور امریکہ استعمال کر رہا ہے کچھ بھی ہو ہمارے دشمن نے ہماری فوج کو اپنے ہی شہریوں سے لڑا دیا ہے ۔ شمالی وزیرستان میں فوجی کاروائی جاری ہے ۔ان سے لڑنے سے زیادہ بہتر یہ ہے ان کے ساتھ مذاکرات کر کے کوئی نہ کوئی امن کا راستہ تلاش کرنا چاہیے ۔امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ حکومت کو تمام جماعتوں نے مذاکرات کا کا مینڈیٹ دیا ہوا ہے تاکہ ملک مذید خرابی سے محفوظ ہو۔ جتنا جلد ہو آپریشن مکمل کر کے ان سے مذاکرات کی میز سجانی چاہیے ۔امن کا راستہ تلاش کرنا چاہیے اسی میں پاکستانی قوم کی بھلائی ہے۔ اﷲ ہمارے ملک کی حفاظت فرمائے آمین۔
Mir Afsar Aman
About the Author: Mir Afsar Aman Read More Articles by Mir Afsar Aman: 1118 Articles with 956858 views born in hazro distt attoch punjab pakistan.. View More