عرب بہار پر خزاں لانے والے

دو اسلامی ملکوں میں جمہوری اصولوں اور روایات کی دھجیاں اڑاکر دو اسلام دشمن ہی نہیں بلکہ غاصب اور ظالم افراد نے منصب صدارت پر اپنے آپ کو غیر اصولی و غیر جمہوری طریقوں سے ہی نہیں بلکہ غیر شریفانہ انداز میں نام نہاد انتخاب (دراصل ڈھکوسلوں اور ڈرامہ بازی) کے ذریعہ منتخب کروالیا۔ ایک تو مصر کا اسرائیلی ایجنٹ عبدالفتاح السیسی ہے تو دوسرا شام کا دشمن اسلام ہی نہیں بلکہ جس کا مسلمان ہونا ہی مشکوک ہے۔ مغربی دنیا ہی نہیں بیشتر عرب ممالک کی منافقت کا یہ حال ہے کہ مصر کے جنرل السیسی کی کامیابی پر خوش ہیں تو دوسری شام کے صدر بشارالاسد کے صدر بنے رہنے پر ناراض ہیں۔ شام کا ساتھ دینے والوں میں روس کے ساتھ ایران بھی ہے۔ روس کی اسلام دشمنی تو خبر نئی نہیں ہے اس لئے قابل فہم ہے لیکن ایران کی بشارالاسد کی تائید نہ صرف ناقابل فہم ہے بلکہ حیرت انگیز ہے!

مشرق وسطیٰ میں ایک اور انتخاب عراق میں بھی ہوا جہاں عراق کے کٹھ پتلی حکمراں نوری المالکی گزشتہ انتخابات کی طرح اکثریت حاصل نہ کرسکے اور نہ ہی تاحال حکومت بناسکے ہیں لیکن ایران کی مدد سے حکومت پر قبضہ کرنے کے لئے ان کی ریشہ دوانیاں جاری ہیں۔ ویسے فی الحال عراق کی صورت حال واضح نہیں ہے تاہم شام کے پڑوسی ملک ایران کا رویہ شیعہ طبقے کے لئے مفید اور فائدہ مند بھلے ہی ہو لیکن عالم اسلام کے لئے نقصان دہ ہے۔ یہ سب ہی جانتے ہیں کہ اسلام کے دشمن اسلام دشمنی کرتے ہوئے شیعہ یا سنی کی تفریق نہیں کرتے ہیں۔ امریکہ نے ہی عراق میں جہاں صدام حسین (جو سنی تھے) کو پھانسی پر لٹکاکر شہید کیا تو دوسری طرف ہلاک و تباہ ہونے والوں میں شیعہ و سنی دونوں ہی شامل تھے۔ تمام عراقی شیعہ قائدین امریکہ نواز بلکہ امریکہ کے دوست ہیں اور ایران جو امریکہ کا بدترین دشمن نہ سہی مخالف ہے عراق قائدین سے محض مسلک کی ہم آہنگی کی وجہ سے دوستی کئے ہوئے ہے بلکہ اس حدتک دوستی ہے کہ عراق اپنا عرب ہونا بھول کر ایک عجمی ملک پر ان کی خاطر عرب ملک (شام) کی مخالفت کررہے ہیں۔ دوسری طرف انقلاب اسلامی کا داعی ایران اسلام پسند اخوان المسلمین پر اسلام دشمن السیسی (جس کو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات زبردست تائید و حمایت حاصل ہے) کی اسلام دشمنی پر خاموش ہے۔ بڑی زیادتی ہوگی اگر اس معاملہ میں صرف ایران کو ہی موردِ الزام ٹھہرایا جائے۔ جہاں تک ہماری معلومات ہیں قطروترکی کے علاوہ شائد ہی کسی عرب اسلامی ملک نے السیسی کی مذمت کی ہو لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ایران کے علاوہ کوئی اور اسلامی ملک اسلامی انقلاب کا داعی بھی نہیں ہے۔ ایران نے تو اخوان المسلمین کی تائید نہیں کی لیکن اس سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ وہ ملک جو کبھی اخوان المسلمین کی پناہ گاہ تھا جس کی مدد اور حمایت کی وجہ سے مصر کے مختلف ظالم حکمرانوں خاص طور پر جمال عبدالناصر کے دور میں اپنا وجود برقرار رکھا تھا اور اب اسی عظیم سعودی عرب کے اسلام دوست حکمرانوں خاص طور پر شاہ فیصل شہید کے وارث شاہ عبداﷲ نے جانے کیوں اور کیسے پوری قوت سے اخوان المسلمین کی مخالفت پر کمر بستہ ہیں اور غاصب و جابر السیسی کی حمایت کررہے ہیں؟

عرب و اسلامی ممالک کی اکثریت مغربی دنیا کے زیر اثر ہی نہیں بلکہ ان کے دباؤ میں رہتی ہے لیکن ساری مغربی دنیا جو خود کو دنیا بھر میں جمہوریت کا علمبردار قرار دیتی ہے وہ آخر مصر میں جمہوریت کے قتل پر خاموش کیوں ہے وہ آخر مصر میں جمہوریت کے قتل پر خاموش کیوں ہے ؟ شام کے بشارالاسد کے انتخاب پر معترض ہے جو اس انتخاب کو غیر جمہوری قرار دیتی ہے جو واقعی غیر جمہوری ہے لیکن جب جنرل السیسی اخوان المسلمین کی منتخبہ جمہوری حکومت کا فوجی بغاوت کے ذریعہ خاتمہ کیا جاتا ہے بلکہ نہ صرف اخوانی قائدین بلکہ اخوان کے کارکنوں اور ہمدردوں پر ننگ انسانیت مظالم توڑے جارہے ہیں۔ مصر کے موجودہ حکمرانوں نے یہ عزم کررکھا ہے کہ عدل و انصاف ہی نہیں بلکہ انسایت کے تمام تقاضوں اور اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر اخوان المسلمین کی پوری تنظیم کا مکمل خاتمہ کرنا چاہتے ہیں۔ مصر میں جو صورت حال ہے وہ نہ صرف عالم اسلام بلکہ پوری دنیا کی توجہ کی ہی نہیں بلکہ اسے فوری روکنے کے لئے ضروری اقدامات کی شدت سے متقاضی ہے لیکن ساری دنیا اور عالم اسلام کی خاموشی مجرمانہ ہے بلکہ عالم اسلام کے لئے غیر اسلامی ہے کیونکہ اخوان المسلمین ایک تنظیم یا جماعت ہی نہیں ہے بلکہ ایک تحریک ہے جس کے دو اہم مقاصد ہیں ایک تو اسلام کا صحیح معنوں میں نفاذ اور فروغ دوسرے تحریک آزادی فلسطین کی حمایت اور اسرائیل کی مخالفت بلکہ عرب دنیا میں تحریک اخوان المسلمین اسرائیل کی نہ صرف سب سے بڑی مخالف ہے بلکہ عالمی صیہونی تحریک اور اسرائیل کے لئے سب سے زیادہ خطرناک مانی جاتی ہے ۔ اسی لئے اسرائیل، صیہونیوں اور مغربی دنیا اخوان المسلمین کی جمہوری حکومت ختم کرکے اب اس تحریک کا مکمل خاتمہ کرنے کی جان توڑ کوشش ہورہی ہے۔ افسوس صدافسوس اس المناک اسلام دشمنی کی سازش کو کامیاب بنانے عرب ممالک سے کام لیا جارہا ہے اور تمام عرب ممالک میں متحدہ عرب امارات کا کردار سب سے زیادہ شرمناک ہے (سعودی عرب سے بھی بڑھ کر )عرب حکمران اکثر غیرجمہوری اور بادشاہت سے وابستہ ہیں ان پر امریکہ کے دباؤ سے زیادہ اپنی حکمرانی بچانے کی کوشش کا دخل ہے۔ افسوس کہ انہیں اسلام دشمنی گوارہ ہے، اسرائیل کا وجود گوارہ ہے لیکن حکمرانی کے لئے کسی قسم کا خطرہ گوارہ نہیں ہے۔

اسرائیل کا دوسرا سب سے منظم، خطرناک اور اہم دشمن لبنان کی عسکری تنظیم حزب اﷲ ہے۔ حزب اﷲ نے جس بے جگری سے نہ صرف اسرائیل کا مقابلہ کیا ہے بلکہ اسے شدید نقصانات پہنچائے وہ اپنی مثال آپ ہیں اور یہ بھی کس قدر بڑا حزنیہ ہے کہ اسلام دشمن بشارالاسد کو بچانے کے لئے انقلاب اسلامی کا علمبردار ایران (جو حزب اﷲ کا نہ صرف سرپرست بلکہ اسپانسر کفیل ہے) حزب اﷲ کو بشارالاسد کے دفاع کے لئے استعمال کرکے اسے تباہ کررہا ہے جو عسکری فوت صیہونیوں اور اسرائیل کے دانت کھٹے کرسکتی ہے۔ وہ اسلام دشمن بشارالاسد کو بچانے میں تباہ ہورہی ہے جس طرح مصر کی صدارت پر السیسی کا انتخاب غیر جمہوری ہے اسی طرح شام کی صدارت پر بشارالاسد کا اپنے آپ کو فائز کرانے کا عمل اس سے بھی زیادہ نہ صرف غیر جمہوری بلکہ قابل مذمت ہے۔ اگر عرب ممالک خاص طور پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات اخوان اور السیسی کے معاملہ میں قابل مذمت ہیں تو ایران کی اس سے بھی زیادہ مذمت کرنی چاہئے جس نے پہلے عراق میں امریکہ کے غلام نوری المالکی کی مدد کی پھر بشارالاسد کی خاطر حزب اﷲ کو داؤ پر لگایا اور اخوان و صدر مرسی کی بھی کوئی مدد نہیں کی۔ ایران یہ بھی بھول گیا کہ اخوان دشمن حسنی مبارک نے رضا شاہ ایران کے آخری شہنشاہ کی مدد کی تھی۔

اخوان المسلمین سے دشمنی، السیسی کی حمایت اور شام میں خانہ جنگی کو ہوا دینے کی اسلام دشمن حرکتوں کا سبب یوں تو مغرب کی عمومی اسلام دشمنی ہے لیکن اسلام دشمنی کی آگ پر تیل ڈالنے کا کام تو ٹیونس تقریباً تین سال قبل شروع ہونے والی وہ عرب بہار ہے جس کو شباب پر پہنچنے سے قبل ہی خزاں میں تبدیل کردیا گیا۔

تیونس میں سیکولرازم کی گاڑی پر سوار ہوکر اسلام دشمنی کرنے والوں نے ٹیونس میں انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے برسراقتدار آنے والی حکمراں جماعت النہضہ کو اسلامی دستور نہیں بنانے دیا گیا اور اس وقت ٹیونس میں حالات غیر یقینی ہیں۔ یہاں ہم یہ بھی بتادیں ٹیونس کے ساتھ شمالی افریقہ کے عرب و اسلامی ممالک الجزائر، مراکش اور ماریطانیہ میں اسلام پشندوں اور اسلام دشمن نام نہاد سیکولر عناصر میں مستقل چپقلش جاری ہے ہم یاد دلادیں کہ 1992ء میں الجزائر میں فوج نے ہی کامیابی کے باوجود اسلام پسندوں کو اقتدار سے محروم کردیا تھا۔ ٹیونس کے بعد مصر میں جو کچھ ہوا وہ محتاج بیان نہیں ہے۔ ستم ظریفی بلکہ بدبختی کی انتہا یہ ہے کہ امرایکہ میں تربیت یافتہ سیسی اور اس کے ساتھ کئی جنرلوں نے امریکی و اسرائیل کی سازش کے ذریعہ متحدہ عرب امارات کی مالی مدد سے فائدہ اٹھاکر عوام کی منتخب کردہ صڈر مرسی کی حکومت بغاوت کرکے برطرف کردی اور امریکہ و اسرائیل کے ایجنٹ مصر کے حکمراں ہیں اور عرب ممالک بہ شمول سعودی عرب اخوانیوں کو دہشت گرد قرار دے چکے ہیں۔ امریکہ اور مغربی دنیا کی نظریں یوں تو تیل پیدا کرنے والے ہر ملک کے تیل پر رہتی ہیں لیکن لیبیاء کا تیل نہ صرف عمدہ ہے بلکہ کرنل معمر قذافی شہید امریکہ کی جی حضوری کرنے والے نہ تھے ۔ ٹیونس و مصر کے انقلاب سے فائدہ اٹھاکر امریکی ایجنٹوں نے لیبیاء میں نہ صرف قدافی کی حکومت ختم کردی بلکہ قذافی کو شہید کردیا نام تو اسلامی انقلاب کا تھا لیکن اصل مقصد کچھ اور تھا۔ امریکہ میں تربیت یافتہ اور مبینہ طور پر سی آئی اے کے ایجنٹ جنرل خلیفہ خضر عقبی راستے سے اقتدار پر قابض ہونا چاہتے ہیں ان کو امریکہ اور بعض عرب ممالک کی حمایت حاصل ہے ان کا مطالبہ ہے کہ موجودہ منتخبہ پارلیمان کو منسوخ کیا جائے کیونکہ اس پر اسلام پسندوں کا غلبہ ہے۔ لیباء اس وقت خانہ جنگی، نراج اور انتشار کے دور سے گزررہا ہے۔ معیشت کی تباہی کی وجہ سے عوام کی خوش حالی ختم ہوچکی ہے۔ اسی طرح یمن کا انقلاب بھی ایک طرح سے یوں ناکام ہوا کہ سابق صدر علی عبداﷲ صالح کی طرف سے ان کے نائب عبدوابوہادی حکومت کررہے ہیں اور کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔

ہر طرف عربوں اور مسلمانوں کاخون بہہ رہا ہے صرف شام میں ایک لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ عرب بہار اگر مغرب، اسرائیل اور عربی و عجمی غداروں کی ریشہ دوانیوں کا شکار نہ ہوتی تو بہار برقرار رہتی۔ حیرت تو یہ ہے کہ عرب دنیا عالم اسلام خاموش ہے اگر عرب اور مسلم ممالک متحدہ ہوکر جنرل سیسی، بشارالاسد کے خلاف تادیبی کریں اور ٹیونس، یمن اور لبیاء میں عربوں کی امن فوج کے ذریعہ خانہ جنگی اور بدامنی ختم کی جاسکتی ہے لیکن ہر طرف بے حسی اور غفلت طاری ہونے کے ساتھ ڈر ہے کہ امریکہ کی طرف سے کئے جانے والے ڈراموں میں مداخلت کی ہمت اور جرأت کیسے کریں؟
Rasheed Ansari
About the Author: Rasheed Ansari Read More Articles by Rasheed Ansari: 211 Articles with 166419 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.