گُر کی بات

صاحب انگریز کا دورِ حکومت کچھ لوگوں کو بہت سنہرا نظر آتا ہے جبکہ کچھ لوگوں کی نظر میں ساری خرابیوں کی جڑ انگریز ہی تھے۔ ہم چونکہ بچپن سے ہی متوسط طبقے سے متعلق رہے ہیں (اگر کوئی بے یقینی کا شکار ہو تو ثبوت کے طور پر ہم اپنے زمانہء طالبعلمی کی سالانہ رپورٹ پیش کر سکتے ہیں جس میں ہمارے نمبرز ہمیشہ وسط میں ہی رہے ہیں) اس لئے ہماری ذاتی رائے میں (جس سے خود ہمارا بھی متفق ہونا ضروری نہیں ہے) ہر معاملے میں صراط الوسط اختیار کرنی چاہئیے۔ یعنی ہر ایک کی غلطی سے سیکھنا چاہیئے اور دوسروں کی کی گئی اغلاط کو دوہرانا نہیں چاہیئے۔ (الحمد للہ ہم نے ہمیشہ نت نئی غلطیاں ایجاد کیں) انگریز حاکم کیونکہ تعداد میں بہت ہی کم تھے لہٰذا انہوں نے اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لئے “لڑاؤ اور حکومت کرو“ کی پالیسی اختیار کی۔

آج ہمیں انگریز کی یہ پالیسی پتہ نہیں کیوں کچھ زیادہ ہی یاد آ رہی ہے۔ یاد سے ہمیں ایک قصہ یاد آیا، آپ بھی پڑھ لیجئے اور اگر آپ نے یہ قصہ پہلے ہی پڑھ رکھا ہو تو اسے ٹی وی پروگرامز کی طرح ریپیٹ ٹیلی کاسٹ سمجھ کر برداشت کر لیجئے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ ایک بار ایک مفتی صاحب کہیں جارہے تھے، راستے میں ایک پیر صاحب اور ان کا ارادتمند بھی مل گئے۔ علیک سلیک کے بعد دریافتِ احوال کیا گیا تو معلوم ہوا کہ تینوں کی منزل ایک ہی ہے اور شومئی قسمت تینوں ہی زادِ راہ سے محروم ہیں۔ تینوں نے فیصلہ کیا کہ ایک ساتھ سفر کریں گے اور ایک دوسرے کی مدد کریں گے۔ راستے میں ایک باغ نظر آیا۔

پھلوں سے لدے درختوں کو دیکھ کر تینوں افراد کے منہ میں پانی بھر آیا لیکن خوف یہ تھا کہ اگر مالی آن دھمکا تو کیا ہوگا۔ ارادتمند کو ایک ترکیب سوجھی۔ بولا “اگر مالی آن دھمکے تو مفتی صاحب کہہ دیں کہ اگر مالی نے پھل کھانے نہ دئیے تو مفتی صاحب اس کے خلاف کفر کا فتویٰ دے دیں گے۔ پیر صاحب یہ دھمکی دیں کہ وہ اپنے مریدوں میں اعلان کردیں گے کہ انہیں خواب میں اس باغ کو جلانے کی بشارت ہوئی ہے اور جو کوئی اس باغ کو جلائے گا وہ سیدھا جنت میں جائے گا۔ اگر مالی ان دونوں دھمکیوں سے مرعوب نہ ہو تو میں اپنے ڈنڈے سے مالی کا سر پھاڑ دوں گا آپ دونوں اس کو پکڑ کر چور چور چلانا شروع کردیجئے گا۔“

یہ طے کرنے کے بعد تینوں دیوار کود کر باغ میں داخل ہوئے ارادتمند نے اپنے ڈنڈے سے پھلدار شاخوں کو ہلانا شروع کر دیا۔ تھوڑی دیر میں زمین پر پھلوں کا ڈھیر لگ گیا۔ جسے تینوں مزے لیکر کھانے لگے۔ اتنے میں مالی آگیا۔ مالی نے ان تینوں کو دور سے للکارہ تو مفتی صاحب اور پیر صاحب نے منصوبے کے مطابق دھمکی دے دی۔ مالی چونکہ کسی انگریز کے ہاں ملازمت کر چکا تھا چنانچہ اس نے حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اپنا لہجہ بدل دیا۔ بولا “اگر مجھے علم ہوتا کہ میرے باغ میں اتنی بڑی بڑی شخصیات آئیں گی تو کچھ دعوت کا انتظام کر رکھتا۔ خیر اب بھی کچھ نہیں بگڑا۔“ پھر ارادتمند سے کہنے لگا “جناب قریب ہی میرا گھر ہے، آپ ذرا مہربانی کرکے میرے گھر چلے جائیے اور میری بیوی سے دعوت کی تیاری کا کہہ دیجئے۔ میں جب تک آپ سب کے لئے تازے پھل توڑتا ہوں۔“ تازے پھلوں اور دعوت کا سن کر تینوں بہت خوش ہوئے۔ ارادتمند جانے لگا تو مالی نے اس سے درخواست کی کہ وہ اپنا ڈنڈا مالی کو دے جائے تاکہ مالی کو پھل توڑنے میں آسانی ہو۔

ارادتمند نے لاٹھی مالی کے حوالے کی اور مالی کی بتائی ہوئی سمت میں چل پڑا۔ اس کے جاتے ہی مالی نے مفتی اور پیر صاحب کی تعریف کرتے ہوئے کہا “ ماشاءاللہ، آپ لوگوں کی نورانی صورتیں دیکھتے ہی میں سمجھ گیا تھا کہ اللہ کے برگزیدہ بندے میرے باغ کی رونق بڑھا رہے ہیں۔ لیکن جناب گستاخی معاف یہ جاہل جو آپ کا ارادتمند بنا پھرتا ہے، آپ دونوں کی صحبت کا قطعی حقدار نہیں ہے، آپ تو نیک ہونے کی وجہ سے کچھ کہتے نہیں اور یہ بدبخت، خود کو آپ کا ہم پلہ اور ساتھی گردانتا ہے۔ اگر آپ اجازت دیں تو ابھی اس کو یہاں سے دفع کردوں“ اپنی تعریف سن کر پیر صاحب اور مفتی صاحب نے نیم رضامندی کا اظہار کردیا۔ مالی نے لاٹھی اٹھائی اور ارادتمند پہ پل پڑا۔ ارادتمند نے مار کھا کر مدد کے لئے واویلا کیا مگر نہ تو مفتی صاحب مدد کو آئے اور نہ پیر صاحب۔ آخر کار وہ مار کھا کر وہاں سے بھاگ گیا۔ ارادتمند کو پٹ کر بھگانے کے بعد مالی واپس آیا اور پیر صاحب سے کہنے لگا “جناب، اگر آپ میری بیوی کو جا کر اپنی پسند کے کھانوں کے بارے میں مطلع کردیں تو ہم پر بہت ہی احسان ہوگا۔

قصہ کوتاہ، اب کی بار پیر صاحب چل پڑے۔ پیر صاحب کے جاتے ہی مالی مفتی صاحب سے کہنے لگا “جناب، آپ دین میں خصوصی مقام رکھنے والے، آپ کا علم تو اس قدر ہے کہ جسے حلال کہہ دیں وہ حلال اور جسے حرام قرار دے دیں وہ حرام ہو جائے۔ حقیقت میں اللہ تعالٰی آپ سے راضی ہے اور آپ کی خدمت کارِ ثواب ہے۔ میں حیران ہوں کہ آخر اس ڈھونگی پیر نے آپ کو کیسے جال میں پھنسا لیا۔ کہاں آپ سراپا علم اور کہاں یہ ٹکے ٹکے کے لئے ڈھونگ رچانے والا دین فروش۔ اگر آپ تھوڑا توقف فرمائیں تو ابھی اس نامراد سے آپ کی گلوخلاصی کروادوں؟“

مفتی صاحب کی خاموشی کو رضامندی سمجھ کر مالی نے پیر صاحب کو جالیا اور مار مار کر نیل ڈال دئیے۔ پیر صاحب نے جب دیکھا کہ مفتی صاحب ان کی مدد کے لئے اپنی جگہ سے ہلے تک نہیں تو وہ اپنی جان بچا کر بھاگ نکلے۔ اب مالی مفتی صاحب پہ پِل پڑا اور طبیعت سے ان کی پٹائی کی۔ وہ مفتی صاحب کو مارتا جاتا اور کہتا جاتا “کیوں بے؟ دین یہی سیکھاتا ہے کہ کسی کا مال زبردستی ہتھیا لو؟ جو لوگ اپنے ذاتی منفعت کے لئے دین کا غلط استعمال کرتے ہیں ان کا انجام یہی ہوتا ہے۔“

مار کھا کر مفتی صاحب بھی دُم دبا کے بھاگ لئے۔

اس قصہ سے ہمیں مندرجہ ذیل سبق ملتے ہیں۔

١۔ اگر اللہ نے کسی کو طاقت، اقتدار یا علم عطا کیا ہے تو اس کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھانا چاہئیے۔
٢۔ ہر سیر کو کبھی نہ کبھی سوا سیر ضرور ملتا ہے، اس لئے چالاکی یا دھونس کی بجائے نرمی اور عاجزی سے کام لینا چاہئیے۔ اگر وہ تینوں افراد مالی سے پھل دینے کی درخواست کر لیتے تو شاید وہ منع نہیں کرتا اور تینوں پیٹ بھر کر پھل کھا لیتے۔
٣۔ جب افراد کی منزل ایک ہی ہو تو انہیں ایک دوسرے کی مدد کرنی چائیے نہ کہ عارضی اور جھوٹی بڑائی کے نشے میں سب کچھ فراموش کردیا جائے۔

پسِ نوشت :: سنا ہے جیو کے بعد مزید چینلز کے خلاف بھی قانونی کارروائی ہوسکتی ہے۔

Sarwar Farhan Sarwar
About the Author: Sarwar Farhan Sarwar Read More Articles by Sarwar Farhan Sarwar: 6 Articles with 5285 views I have been teaching for a long time not because teaching is my profession but it has been a passion for me. Allah Almighty has bestowed me success i.. View More