وہی انداز ہے ظالم کا وزیروں جیسا

وہ میرا دوست ہے۔ زمانہ طالب علمی سے ہمارا ساتھ ہے۔ کبھی وقت تھا کہ اس کا ذکر ہوتا تو میں بتاتا کہ وہ میرالنگوٹیا دوست ہے مگر جب سے قوم مادرپدر آزادی کی متلاشی ہوئی ہے اور آزادی کی خواہش میں لوگوں نے لنگوٹ تو کیا معمولی چیز ہے بہت کچھ اتار دیا ہے میں نے لنگوٹ کا ذکر چھوڑ دیا ہے۔ بس یہی کہتا ہوں کہ وہ میرا بہت اچھا دوست تھا۔اس کے اچھے پن میں اب بھی کچھ خرابی نہیں مگر کیا کروں وہ برق رفتار ہے اور میں سبک حرام۔ وہ بلندیوں کا مکین ہے اور میں دھرتی سے ناطہ توڑنے کو تیار ہی نہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ وہ ایک بڑا آدمی ہے اور میں ایک عام آدمی لیکن اس کی مہربانی ہے کہ اس کے درِ دولت پرحاضری دی جائے تو بڑے پیار سے ملتا ہے۔ مگراب میں بہت اچھا کا لفظ استعمال نہیں کرتا۔ اگر ذکر ہو یا کوئی پوچھے تو اچھا دوست کہہ لیتا ہوں۔ ڈرتا ہوں کہ جس طرح بڑے آدمیوں سے دوستی کا دعویٰ کرنے والے برساتی مینڈکوں کی طرح یک بیک جنم لینے لگتے ہیں لوگ مجھے بھی ایسا ہی کوئی برساتی مینڈک نہ سمجھیں اس لئے کہ بڑے آدمی کو اپنا رشتہ دار یا اچھا دوست کہنا اب ہمارا قومی فیشن ہے۔

میرے اس دوست میں بڑے آدمیوں والی ساری خوبیاں ہیں اس کے اردگرد دوستوں کا ایک وسیع حلقہ ہے۔ بڑے آدمی جس طرح لباس کی طرح حسب ضرورت دوست بدلتے رہتے ہیں وہ بھی اس فن میں مکمل طاق ہے۔لیکن اگر کبھی کسی بڑے آدمی کے لباسوں کی الماری میں نظر ڈالی جائے تو زرق برق نئے نئے لباسوں کے ساتھ ساتھ کچھ پرانی بنیانیں بھی نظر آتی ہیں۔ شاید یادگار کے طور پر یا کسی اور وجہ سے بڑے آدمی بنیانیں کم بدلتے ہیں کہ اندر جھانک کر کس نے دیکھنا ہے۔چنانچہ سو بنیانیں بڑے آدمیوں کا طویل عرصے تک ساتھ نبھاتی ہیں۔بالکل کچھ ایسا ہی ہے کہ ہم کچھ دوست پرانی بنیان کی طرح اپنے اس دوست سے اسی طرح چپکے ہوئے ہیں اور اس کی ہمت قابلِ ستائش رہے کہ ہم پرانی بنیاں نما دوستوں کو ابھی تک برداشت کر رہا ہے۔

میرے دوست کی عمر ساٹھ سال سے زیادہ ہے مگر اس کے حوصلے اور ولولے پوری طرح توانا اور جوان ہیں۔ فوجا سنگھ پنجاب کی دھرتی کا ایک سپوت ہے۔ جالندھر کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں میں 1911؁ء میں پیدا ہوا اور اب برطانوی شہری ہے۔ 2003ء میں 92 سال کی عمر میں اس نے وہ کام کیا کہ جو جوان بھی نہیں کر سکتے۔ اس نے لندن میراتھن ریس میں حصہ لیا اور چھ گھنٹے اور دو منٹ مسلسل بھاگ کر اسے مکمل کیا۔ اسی سال اس نے کینیڈا میں ٹورنٹو واٹر فرنٹ میراتھن کو مسلسل پانچ گھنٹے اور چالیس منٹ مسلسل بھاگ کر مکمل کیا۔ یہ سب ایک عالمی ریکارڈ ہے اور ایسا کام اس عمر میں پنجاب کے لوگ ہی کر سکتے ہیں۔ میرا دوست بھی پنجاب کا سپوت ہے اور اس کی شاندار خوبی یہ ہے کہ وہ جس کام کو ہاتھ ڈالتا ہے اسے ایک دفعہ بامِ عروج تک پہنچا کر ہی دم لیتا ہے۔ چند ماہ پہلے میرے دوست نے کالم نگاری کی ابتدا کی اور بہت خوبصورت کالم لکھے۔ دوست حیران تھے کہ اس قدر خوبصورت اور جاندار تخلیق اور وہ بھی اس شخص کے قلم سے جو ایک لمبا عرصہ غمِ روزگار کے ہاتھوں قلم سے بہت لا تعلق رہا مگر ریٹائرمنٹ کی سوچنے کی بجائے میرے اس گوہر دوست نے فوجا سنگھ کی طرح اپنے جوہر دکھانے شروع کر دئیے۔ وہ بہت اچھا لکھتا ہے اور میرے جیسے طالب علموں کے لئے اس کی تحریریں رہنما اور انتہائی تقویت کا باعث ہیں۔ بلاشبہ اسے استاد لکھاریوں میں شامل کیا جانا چاہئے۔

میرا دوست ایک مشہور اور بڑے اخبار میں لکھتا ہے۔ ایک ایسا اخبار جس میں کچھ نہ بھی لکھا جائے تو بھی بندہ مشہور ہو جاتا ہے اور اگر کچھ لکھا ہو تو سونے پہ سہاگہ۔ تو میرا دوست آج سونے اور سہاگے سے کھیل رہا ہے۔ پھر اس کا طرز تحریر بس کیا کہوں ’’وہی انداز ہے ظالم کا وزیروں جیسا۔‘‘ پچھلی دو تین دہائیوں میں ایک خاص طرز تحریر کے باعث بہت سے صحافی وزیر، مشیر اور سفیر ہو گئے۔ ان کے اندازِ تحریر کی خوبی یہ تھی کہ وہ حکومت مخالف کسی شخص کے نام بمعہ دشنام سے اپنے کالم کی ابتدا اور انتہا کرتے تھے۔ درمیانی مضمون میں حکومت کے اچھے کاموں جو ان کے نزدیک اچھے ہی نہیں کار ہائے نمایاں ہوتے ہیں، کی تعریف کرتے ہیں اور کالم تیار ہو جاتاہے۔ دوستوں کو وہ بڑے فخر سے یہ بتاتے ہیں کہ وہ کوئی تعریف نہیں کر رہے۔ حکم ربی پر عمل کر رہے ہیں اور حکم ربی ہے کہ کسی کے اچھے کاموں کی تعریف میں بخل سے کام نہ لو۔شاید یہی واحد حکم ربی تھا جس پر وہ عمل کرتے تھے۔ حکومتی تعریف میں ان کی لفاضی قابل دید ہوتی تھی۔ مگر وہ اسے مکھن بازی نہیں کہتے تھے۔ حالانکہ مکھن کی فراوانی ہی نہیں ا رزانی بھی بہت عیاں ہوتی تھی۔ چنانچہ وہ لوگ رفعتیں پا گئے۔ کوئی وزیر، کوئی مشیر اور کوئی سفیر ہو گیا۔ صحافت میں اس طرزِ صحافت کے لوگوں کے جانے کے بعد بہت بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے۔ میرے دوست نے عوام اور خصوصاً اخبارات کے قاری حضرات کو مایوس نہیں کیا اور بہت خوبصورتی سے اس خلا کو پورا کیا ہے۔ مگر مجھے خدشہ ہے کہ دانشوروں کی متلاشی حکومت اگر میری طرح میرے دوست کی باتوں سے متاثر ہو گئی اور میرا دوست کچھ ہو گیا تو اس کے لئے تو اچھا مگر ہم اچھی تحریروں سے محروم ہو جائیں گے اور صحافتی ادب میں ایک بار پھر ایک عظیم خلا پیدا ہو جائے گا۔

میرے دوست کی لگن کا یہ عالم ہے کہ آج کل اس نے ایک پٹرول پمپ کے مالک سے بھی دوستی کی ہوئی ہے۔ ہر روز دو گھنٹے پٹرول پمپ پر گزارتا ہے۔ شنید ہے کہ پنکچر لگانے کا فن سیکھ رہا ہے۔ یہ اس کی مخلصی کی انتہا ہے۔ سمجھتا ہے کہ کل کسی کو ضرورت پڑ گئی تو اس سے بہتر آدمی کیسے مل سکے گا۔ پنکچر انڈسٹری سے نابلد اور ناتجربہ کار شخص اگر پینتیس پنکچر لگا سکتا ہے کہ وہ شخص جو باقاعدہ تربیت یافتہ اور پنکچر کے اسرار و رموز سمجھتا ہے، ایک سو پینتیس پنکچر بھی آسانی سے لگا سکتا ہے۔ یہی مستقبل کا میرٹ ہے اور میرا دوست ہر لحاظ سے ہمیشہ میرٹ کا پرچار کرتا رہا ہے اور میرٹ کے علاوہ کسی دوسری بات پر ایمان نہیں رکھتا۔ موجودہ حالات میں یہی ایک سچے اور کھرے پاکستانی کی پہچان ہے۔
میرے دوست کو کالم لکھنے میں دو دن لگتے ہیں۔ ان دنوں اس کے دفتر کا وہی حال ہوتا ہے جو نواز شریف کے گزرنے کی اطلاع ملنے پر رائے ونڈ روڈ کا ہوتا ہے۔ اس روٹ پر ایک آدھ بنک ہے جو سڑک سے کم از کم پچاس فٹ پیچھے ہے۔ سڑک سے ہٹ کر بنک کی پارکنگ ہے مگر بنک کے قریب بھی کوئی گاڑی کھڑی نہیں ہو سکتی۔ CNG کی لمبی لمبی قطاروں میں گھنٹوں سے کھڑے لوگوں کو یکدم اطلاع ملتی ہے کہ پولیس نے زبردستی CNG سٹیشن بند کر دیا ہے اور وہ فوری طور پر سڑک خالی کر دیں کہ وہاں ٹھہرنے کی اجازت نہیں۔ دکاندار اس وقفے میں لمبی تان کر سو جاتے ہیں کہ گاہک تو کیا چوروں کے آنے کا بھی خدشہ نہیں رہتا۔ رائے ونڈ کے مکینوں کو میاں برادران کے حکمرانی پر پہلے بھی کوئی شک نہیں مگر اس وقت میں ان کا رہا سہا شک بھی دور ہو جاتا ہے۔

کالم لکھنے والے دو دنوں میں میرے دوست کے دفتر میں بھی کرفیو جیسا سماں ہوتا ہے۔ ان دنوں وہ کالم کھاتا، کالم پیتا اور کالم سنتا ہے۔ گوتم بدھ کی طرح ہر چیز سے بے نیاز مراقبے میں چلا جاتا ہے۔ دو چار گھنٹے مراقبے میں رہنے کے بعد وہ آنکھ کھولتا ہے تو ایک پیراگراف وجدان سے کاغذ پر منتقل ہو جاتا ہے۔ یوں دو دن میں شاندار کالم وجود میں آ جاتا ہے۔ گوتم بدھ نے مراقبے کی حالت میں تو ایک لمبے عرصے کے لئے دنیا تیاگ دی تھی میرے دوست کی مہربانی ہے کہ اس نے فقط دو دن پر قناعت کی ہے، ان دو دنوں میں میرے دوست سے ملنا تو خیر اس کے چپڑاسی اور ٹائپسٹ سے بھی ملنا ناممکن ہوتا ہے۔ میرے اس عظیم دوست سے ملنے اس کا بچپن کا دوست آیا۔ موصوف مراقبے میں تھے۔ چوکیداروں نے بتایا کہ تمام رابطے منقطع ہیں۔ کل شام سے پہلے بحالی ممکن نہیں۔ اس لئے وہ کل تشریف لائیں۔ دوست غصے میں آ گیا کہ میرا نام بتاؤ۔ چوکیدار منتیں کرنے لگے کہ جناب نام بتانا ہی تو ناممکن ہے۔صبح ان کے والد آئے تھے انہوں نے کہا کہ میرا بیٹا ہے، میرا بتاؤ۔ جناب ان سے بھی منت کی تھی کل آئیں۔ ان کے والد کو فوت ہوئے تو کئی برس ہو گئے۔ ٹھیک ہے تو پھروالد کے قریبی دوست ہوں گے۔ والد ہی کی طرح محترم ہونے چاہئیں۔ وہ نہیں مل سکے اس لئے کہ تمام رابطے منقطع ہیں۔آ پ بھی رابطوں کی بحالی تک انتظار کریں۔

بہرحال یہ دو دن میرے دوست کی زندگی میں بہت اہم ہیں۔ مراقبے کی حالت میں آسمان سے اترتے خیال نے میرے دوست کو عظیم کالم نگار، بہترین دانشور اور صف اول کا تجزیہ نگار بنا دیا ہے۔ ہم سارے پرانی بنیان نما دوست دعا گو ہیں کہ رب العزت اسے مزید کامیابیوں سے ہمکنار کرے۔ کام لکھتے اور پنکچر لگاتے اگر ہمارے دوست کے ساتھ وزیر، مشیر یا سفر بننے کا حادثہ پیش آ گیا تو یقینا اس کے حوالے سے ہمارے وقار میں بھی اضافہ ہو گا۔

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 447871 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More